چوٹیاریوں ڈیم اور ہماری زوال پذیر سیاحت و ثقافت


سانگھڑ سے کوئی تیس کلومیٹر دور اچھڑو تھر اور مکھی کے جنگلات کے بیچ بنے چوٹیاریوں ڈیم کی سیر کرنے کا اتفاق ہوا۔

ڈیم نے ہزاروں ایکڑ زرعی زمیں کو سیم زدہ کر دیا ہے، وہاں کے مقامی لوگوں کے لئے 58 کلومیٹرز پر مشتمل یہ ڈیم عذاب بن کر آیا ہے۔ ان کے گاؤں، فصلیں، باغات زمینیں زیرِ آب آچکے ہیں۔ لوگ کروڑ پتی سے ککھ پتی ہو گئے ہیں۔ (جب ڈیم کی تباہی کے مناظر دیکھتا ہوں تو ANP والے کالاباغ ڈیم کی مخالفت میں حق بجانب لگتے ہیں۔ ان کے تو شاید کئی اضلاع خالی ہوجائیں گے۔ )

اس وقت چوٹیاریوں ڈیم اریگیشن ڈپارٹمنٹ سندھ والوں کے زیرِ انتظام ہے۔ یہاں سے نارا کینال کو پانی دیا جاتا ہے۔

ڈیم کے پاس پہنچنے کے بعد افسوس ہوا کہ اتنے بڑے منصوبے کو کیسے عدم توجہی کی وجہ سے برباد کیا جا رہا ہے، ککری کے درختوں سے بھرا ہوا ڈیم اپنی خوبصورتی کھو رہا ہے، سیاحت کھاتہ سندھ، ایک ریسٹ ہاؤس قائم کر کے اپنی تمام تر ذمہ داریوں سے بری ہو گیا ہے۔

عام سیاحوں کے لئے کوئی انتظام نہیں، ٹوائلٹ بھی بنے ہوئے نہیں ہیں۔ صرف بیورو کریسی کی عیاشی اور شکار کا انتظام کیا جاتا ہے۔

اگر ریسٹ ہاؤس کے سامنے ڈیم کے پانی میں اترنے تک سیڑھیاں تعمیر کی جائیں، محفوظ سفر والی بڑی لانچز رکھی جائیں، ڈیم کے اند جزیروں پر ریسٹورنٹ قائم کیے جائیں تو نوابشاہ، میرپور خاص اور حیدرآباد ڈویزن کے عوام کو ایک بہترین تفریح گاہ مل جائے گی۔ اور وہ منوڑے اور سی ویو کو بھول جائیں گے۔

آج جب ہم پہنچے تو اریگیشن ڈپارٹمنٹ کا کوئی بڑا سیکرٹری سطح کا افسر تشریف لایا تھا، جس کے لیے ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر ہلکا پھلکا چونا لگایا گیا تھا۔ اور ریسٹ ہاؤس اور این جی اوز کی بنی آفس کو کھولا گیا تھا۔

ڈیم کی سیر کے لیے سیاحت، فشریز اور اریگشن ڈپارٹمنٹ کی طرف سے کوئی سہولت دستیاب نہ تھی، سیر کا واحد ذریعہ مقامی ماہی گیروں کی بنی سات بائی ڈھائی فٹ کی کشتیاں تھیں، جس میں سوار ہونے سے پہلے بندہ کے توبہ تائب ہونا ضروری ہے۔

ہم بھی ایک ایسی کشتی میں، سوار ہونے کی حماقت کر بیٹھے، لیکن اللہ اللہ کر کے واپس پہنچے، یہ سفر موت کے کنویں کے سفر کے برابر تھا، ڈیم کے بیچ میں بنے جرمن خاتون کے محل کو دیکھنے پہنچے تو پتا چلا کہ سیاحت کھاتے کی عدم دلچسپی کی وجہ سے محل کی چھتیں گر چکی تھیں، محل کے چاروں طرف خار دار درخت تھے جن سے گزرنا نا ممکن تھا۔ (سانگھڑ کے خان بہادر علی خان جونیجو کی جرمن بیوی نے فرمائش کی کہ مجھے پانی میں محل بنا کر دو جس کے لیے جونیجو صاحب نے بقار جھیل کی بیچ میں محل تعمیر کروایا تھا، بعد میں چوٹیاریوں ڈیم بننے سے وہ محل بھی ڈیم میں آگیا۔ )

ڈیم سے بجلی بھی پیدا کی جاسکتی ہیں لیکن افسر شاہی کو اس سے کیا لینا دینا وہ تو دعوت و شکار۔ کے لئے آتے ہیں اور خوب انجوائے کرکے اچھڑو تھر کی پویتر ریت پر اپنے ناپاک نشان چھوڑ کر ویگو گاڑیوں میں دھول اڑاتے ہوئے روانہ ہو جاتے ہیں۔ (some sentences censored) ۔

ہماری ڈسٹرکٹ کے ڈی سی صاحب تو محض facilitator ہی کام کرتے ہیں۔

لوکل انتظامیہ سے مجھے سنبل آغا کا کردار یاد آتا ہے۔ ۔وائلڈ لائف والے پتا نہیں کہاں رہتے ہیں ادھر تو شکار پر کوئی روک ٹوک نہیں۔ جہاں چوٹیاریوں ڈیم نے سرسبز زمین کو سیم زدہ کیا ہے وہاں مکھی کے جنگلات کا بھی خاتمہ کر دیا ہے ۔ جتنے چاہ سے ہم چوٹیاریوں ڈیم گھومنے گیا اس سے زیادہ مایوسیوں اور حسرتوں کو لے کر واپس لوٹے۔

ننگر پارکر سے لے کر چوٹیاریوں تک سندھ میں سیاحت کے انتہائی پر فضا مقامات ہیں لیکن بیوروکریسی اور حکمرانوں کی عدم توجہی کی وجہ سے کھنڈر بنتے جا رہے ہیں۔ وزراء کو ٹک ٹاک گرلز کے چنگل سے نکل کر کبھی عوامی مسائل پر بھی توجہ دینی چاہیے۔

اگر چند افراد کی تفریح کے بجائے اِسے عوامی تفریحی مقام بنایا جائے، تو یقیناً سندھ سیاحت کی مد میں اچھا خاصا روینیو جنریٹ کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments