بھٹو اور خوفناک فائل


پیپلزپارٹی کے جیالے ذوالفقارعلی بھٹو کی سالگرہ منا رہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو ہماری تاریخ کے ایسے دلیر اور مظلوم لیڈر ہیں جن کی سالگرہ بھی ان کے عدالتی قتل سے خون آلود نظر آتی ہے۔ غریب، مزدور اور کسان کو ذوالفقار علی بھٹو اس لئے یاد نہیں کرتے کہ وہ 5 جنوری کو پیدا ہوا تھا بلکہ انہیں اس لئے یاد کرتے ہیں کہ ان کے محبوب لیڈر کو ججوں نے امریکی دباؤ براستہ ضیاء الحق کے ذریعے مقتل میں اتارا تھا۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ذوالفقار علی بھٹو سامراجی قوتوں سے لڑنے والا ایک سچا مسلمان تھا اور اغیار نے جنرل ضیاء الحق کے ذریعے اس کو راستے سے ہٹایا۔

ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کا دن مجھے اس بار اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر اور شعلہ بیاں وکیل جناب ریاست علی آزاد نے بھٹو کی 2 فروری 1979 ء کو مسترد ہونے والی اپیل کی تصویر بھیج کر یاد کروایا۔ ریاست علی آزاد گزشتہ روز ایک مقدمہ کی پیروی کے سلسلہ میں سپریم کورٹ گئے تھے جہاں پر وہ سپریم کورٹ کے میوزیم بھی گئے۔ ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ دو تحریروں نے مجھے گھیر لیا اور میں کئی منٹ میوزیم میں کھڑا ہو کر اپنی اور قوم کی بے بسی کا ماتم کرتا رہا۔

ان دو تحریروں میں سے ایک تحریر قائد ملت لیاقت علی خان کے قتل کی ایف آئی آر تھی جس کا مرجھایا ہوا کاغذ بتا رہا تھا کہ یہ ایف آئی آر بھی انصاف کی طلبگاری میں بوڑھی ہو چکی ہے اور اب مکمل نابینا ایف آئی آر ہے۔

دوسری تحریر قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمہ قتل سے متعلق تھی جس پر سیاہ حروف میں 6 فروری 1979 ء تحریر ہے اور سرخ رنگ کی قلم کے ساتھ ”Dismiss“ اور تاریخ بھی لکھی گئی ہے۔ ریاست علی آزاد کا کہنا تھا کہ اس فائل پر کھڑے ہوکر اس قدر دکھ ہوا کہ میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور یہ آنسو اس لئے نہیں آئے کہ اس فائل میں ایک ہر دلعزیز وزیراعظم کے عدالتی قتل کی کہانی تحریر تھی بلکہ آنسو اس لئے آئے کہ ہماری عدلیہ نے کس طرح بے رحمی سے انصاف اور میرٹ کا قتل کیا اور کسی ایک جج نے بھی لمحے کے لئے یہ نہیں سوچا کہ وہ دن دور نہیں جب اس فیصلے کے محرک ضیاء الحق اور ہمیں اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے۔

ریاست علی آزاد کا دعویٰ ہے کہ اگر یہ کیس میں سن رہا ہوتا تو میں مستعفی ہوجاتا اور یا پھر جان کی بازی لگا کر حق اور سچ کا فیصلہ کرتا لیکن افسوس یہ لمحے جن ججوں کے حصے میں آئے وہ عدالتی تاریخ کو بھی داغدار کرگئے اور اپنی آخرت کو بھی داؤ پر لگا گئے۔ ریاست علی آزاد اپنا دل ہلکا کرنے کے لئے بولتے چلے گئے اور کہنے لگے کہ سپریم کورٹ کی بلند وبالا عمارت میں پڑی ہوئی قائد ملت لیاقت علی خان کی ایف آئی آر اور ذوالفقار علی بھٹو کی مسترد شدہ اپیل ججوں اور وکلاء کے سینوں پر سب سے بڑا بوجھ ہے اور جو بھی باضمیر اور قانون سے دلچسپی رکھے والا شخص اس میوزیم میں جائے گا اسے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کی یہ اپیل اپنی طرف کھینچ لے گی اور گریبان پکڑ کر یہ ضرور پوچھے گی کہ میرا قصور یہی تھا کہ میں نے غریب کے حقوق کی جنگ لڑی اور میرا جرم یہی تھا کہ میں نے ختم نبوتؐ کا قانون منظور کروایا اورمیرا جرم یہی تھا کہ میں ہاری ہوئی جنگ کے 90 ہزار قیدی مذاکرات کی میز پر جیت کر واپس لایا۔

اور یہ فائل پوچھتی ہے کہ میرا قصور صرف یہ تھا کہ میں نے عوام کو جمہوریت کا درس دیا اور انہیں طاقت کا سرچشمہ قرار دیا اور میرا سب سے بڑا قصور تو یہ تھا کہ میں نے امت کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا اور اسی امت اور پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے کے لئے ایٹمی قوت بنانے کا کام شروع کیا۔

ریاست علی آزاد جذبات سے چور ہوکر کہہ رہے تھے کہ یہ فائل سوال کرتی ہے کہ غریب کے لئے جان دینے والے کو صرف غریب ہی یاد کرسکتے ہیں اور زندہ ہے بھٹو زندہ ہے کا نعرہ لگاتے لگاتے قبروں میں اترتے چلے جارہے ہیں۔ ریاست علی آزاد کا کہنا ہے کہ میوزیم میں پڑی ہوئی اس فائل کو دیکھ کر مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ امریکہ اور اس کے پٹھو ذوالفقار علی بھٹو کو کبھی نہیں مار سکیں گے کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو اپنی فائل سے بھی بولتا ہے۔

ریاست علی آزاد کی بات کو اس لئے بھی تقویت ملتی ہے کہ کیونکہ دو ہفتے پہلے ریٹائر ہونے والے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے انہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ میری خواہش تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو کا کیس ری اوپن کرکے عدلیہ کے دامن پر لگے ہوئے اس داغ کو دھو سکوں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہیں کرسکا۔ سچ تو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کا 17 رکنی بنچ اگر اس کیس کو ری اوپن کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو بے گناہ قرار دے بھی دے تب بھی عدلیہ کا دامن داغدار ہی رہے گا کیونکہ معصوم تو اللہ کی عدالت میں اپنے نام نہاد منصفوں اور جھوٹے مدعیوں سمیت جاچکا ہے۔

اور جہاں تک ذوالفقار علی بھٹو کے بے گناہ ہونے کا معاملہ ہے تو سزا سنانے والے ایک جج جسٹس نسیم شاہ اپنی زندگی میں ہی یہ راز فاش کرگئے تھے کہ یہ فیصلہ ہم نے دباؤ پر دیا تھا۔ لہٰذا ذوالفقار علی کی سالگرہ ہو یا پھانسی کا دن ہو دونوں ہی ان کے چاہنے والوں کو دکھی کر دیتے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ بھی ہے کہ پاکستان کے قائد ملت اور قائد عوام کے قتل کا کھرا امریکہ تک جاتا ہے اور ہم ایک بار بھی امریکہ اور اس کے حواریوں کو کٹہرے میں نہ لاسکے۔ افسوس صد افسوس! ۔

ویسے ایک صائب مشورہ یہ بھی ہے کہ جو منصف اپنے ضمیر کی حالت معلوم کرنا چاہے تو ذوالفقار علی بھٹو کی میوزیم میں پڑی ہوئی اس خوفناک فائل کو ایک نظر ضرور دیکھے۔ اگلے ہی لمحے اسے معلوم ہوجائے گا کہ اس کا ضمیر زندہ ہے یا مر چکا ہے یا آخری سانسیں لے چکا ہے۔ اگر ضمیر کو دفنایا جاچکا تو پھر اس تردّد کی کوئی ضرورت نہیں۔

شمشاد مانگٹ
Latest posts by شمشاد مانگٹ (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شمشاد مانگٹ

شمشاد مانگٹ گذشہ 25برس سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ساتھ منسلک ہیں۔اس وقت بطور گروپ ایڈیٹر روزنامہ جناح اور آن لائن نیوز ایجنسی کے ساتھ کام کر رہے ہیں

shamshad-mangat has 105 posts and counting.See all posts by shamshad-mangat

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments