آرمی ایکٹ میں ترمیم اور ہماری سیاسی حقیقتیں


آرمی ایکٹ میں ترمیم کا بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع پر سوال اٹھا یا تھا تو ہمارے بہت سے دوستوں نے خوشی کے شادیانے بجائے۔ سب کا خیال تھا کہ کہانی بدلنے جا رہی ہے۔ تاریخ بدلنے جا رہی ہے۔ آہ کیا دلچسپ تبصرے تھے۔ کیا خواب تھے جو شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے۔ کتنی امیدوں کے غنچے تھے جو بن کھلے مرجھا گئے۔

سپریم کورٹ نے جب اپنا بوجھ پارلیمان کے پلڑے میں ڈالا اور اپنے حصے کی واہ واہ سمیٹ لی تو اب دوستوں کا خیال تھا ووٹ کو عزت دو اور خلائی مخلوق سے نالاں مسلم لیگ (نواز ) اور سلیکٹڈ سلیکٹڈ کا شور مچانے والی پیپلز پارٹی کبھی بھی خلائی مخلوق اور سلیکٹڈ کے سلیکٹرز کو ناک آوٹ کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دے گی۔ مگر وہ باقی صدیقی نے کیا خوب کہا ہے کہ:

خود فریبی سی خود فریبی ہے

پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے

آپ جب یہ مضمون پڑھ رہے ہوں گے تو آرمی ایکٹ میں تبدیلی کی ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کی جا چکی ہوگی۔ اور بنا کسی مزاحمت کے پاس بھی ہو چکی ہوگی۔ اور چند دن کے لئے حزب اختلاف کی دونوں بڑی جماعتیں اپنے کارکنوں کا دل بہلانے کے لئے ٹی وی ٹاک شوز میں آئین کی حکمرانی کی کہانیاں سنا رہی ہوں گی۔ پھر کوئی نیا واقعہ اور سب بھول جائیں گے کہ آرمی ایکٹ کیا تھا؟ پھر مزاحمت کی باتیں ہوں گی۔ ووٹ کو عزت دو کے نعرے لگیں گے اور سلیکٹڈ سلیکٹڈ کا شور مچے گا۔ غربت، بھوک اور مہنگائی کی ستائی عوام ٹی وی چینلوں پر تفریح کا سامان حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے درمیان دلچسپ جگت بازی میں ڈھونڈ لے گی اور سوشل میڈیا کو کوئی نیا ٹرینڈ مل جائے گا۔

بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے

ہوتا ہے شب روز تماشا میرے آگے

(غالب)

سیاسی سٹیج پر کھیلا جانے والا یہ ڈرامہ ہم گزشتہ کئی دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ اس ملک کے حقیقی سیاسی نظام کو سمجھنے میں ناکامی ہمیں مسلسل اس خود فریبی میں مبتلا رکھتی ہے جس کے سبب ہمارے تجزیے اور تبصرے چند دنوں میں بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔ مگر ہماری مستقل مزاجی کو سلام کہ ہم بار بار ایک ہی ڈرامہ دیکھنے کے باوجود بھی اس ڈرامے کے سکرپٹ کو جانچنے اور پرکھنے میں ناکام ہیں۔ کچھ ایسے سیاسی مغالطے ہیں جنہیں ہم نے ایمان کا درجہ دے رکھا ہے۔ یوں بھی سیاسی نظریات اور مذہبی نظریات کی پیروی میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔ دونوں میں اندھی تقلید اور بنا سوال کے بس ماننے کی عادت اور فکری غلامی کی خصوصیات کا ہونا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔

آئیے آج ذرا ان سیاسی مغالطوں پہ ایک نظر ڈالتے ہیں جو ہمارے ایمان کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔ جن کے سبب ہم اپنے سیاسی حالات کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ان میں سب بڑا مغالطہ یہ ہے کہ پاکستان ایک کثیر جماعتی جمہوریت ہے۔ جس میں مختلف سیاسی جماعتیں حصول اقتدار کے لئے انتخابات میں حصہ لیتی ہیں۔ حقیقت میں پاکستان ایک ایک جماعتی ریاست ہے۔ اس میں صرف ایک سیاسی جماعت ہے جس کے اندرجاگیر داروں، پیروں، مذہبی اشرافیہ، صنعتکاروں ریٹائرڈ بیوروکریٹوں اور جرنیلوں اور پیشہ ور اشرافیہ پر مشتمل مختلف گروہ موجود ہیں جن کے باہم اختلافات کی نوعیت فروعی ہے۔

آپ گزشتہ چند انتخابات کے ان تمام جماعتوں کے منشور اٹھا کر دیکھ لیں۔ ان کے رہنماؤں کی سیاسی تقاریر غیر جانبداری سے سن لیں۔ یا اپنے سیاستدانوں کی تیز رفتار سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے عمل ہی دیکھ لیں۔ اس نتیجے تک پہنچنے میں آپ کو دیر نہیں لگے گی ہم اس وقت دائیں بازو کی ایک جماعتی مطلق العنان ریاست کی رعایا ہیں۔ خارجہ پالیسی سے لے کر ملکی معاشی اصلاحات تک سب کا ایک سا بیانیہ سب کے ایک سے نظریات ملیں گے۔

سب کے پاس ایک ہی معاشی نظام کا ماڈل ہے جو اپنے اپنے انداز میں بیچنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ حقیقی ایک جماعتی نظام ایک مخصوص معاشی نظام کی بنیادوں پر قائم ہے جو فوجی اشرافیہ کی رہنمائی اور نگرانی میں چلتا ہے۔ اب بھلا ایسے ایک جماعتی سیاسی نظام میں یہ توقع رکھنا کہ کوئی ایک گروہ اپنے نگرانوں کے خلاف ایسا سٹینڈ لینے کی جراءت کرے گا کہ جس کے نتیجے میں پورا سیاسی ڈھانچہ ہی گرنے کا اندیشہ ہو بعید از قیاس ہے۔

ہماری سیاسی حقیقتیں اسی وقت تبدیل ہوں گی جب پاکستان کی مین سٹریم پالیٹکس میں پسے ہوئے طبقات کی حقیقی نمائندہ جماعت ابھرے گی۔ جو ایک متبادل معاشی نظام کا ڈھانچہ پیش کرے گی۔ جو نو آبادیاتی وراثت سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک جامع منصوبہ پیش کرے گی۔ اور جمہور کی اصل حکمرانی قائم کرنے کی جدوجہد کرے گی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو بے سمت عوامی سیلاب سب کچھ خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گا۔

ہوائیں اور لہریں کب کسی کا حکم سنتی ہیں

ہوائیں حاکموں کی مٹھیوں میں، ہتھکڑی میں

قید خانوں میں نہیں رکتی

یہ لہریں روکی جاتی ہیں

تو دریا کتنا بھی ہو پرسکوں، بیتاب ہوتا ہے

اور اس بیتابی کا اگلا قدم سیلاب ہوتا ہے

(جاوید اختر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments