کیا مشرق وسطی بڑی جنگ کے قریب ہے؟


جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب بین الا اقوامی نیوز ایجنسیز اور چینلز کے ذریعے خبر موصول ہوئی کہ عراق میں امریکہ نے حملہ کرکے پاسداران انقلاب کی زیلی تنظیم قدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی اور ایران حمایت یافتہ پاپولر موبیلائیزیشن فورس کے رہنما ابو مہدی ال مہندس کو شہید کردیا ہے جس کے بعد اب ایران میں سوگ کی فضا ہے اور ایرانی سپریم لیڈر آیت الل علی خامنہ ائی سمیت ایرانی صدر حسن روحانی سمیت تمام حلقوں کی جانب سے اعلان جنگ بلند کردیا گیا ہے اور ببانگ دھل امریکی انتظامیہ کو قاسم سلیمانی کو شہید کرنے پر سنگین نتائج کی دھمکی دی ہے

ایران کیا کرسکتا ہے؟

بلاشبہ ایران کئی برسوں سے امریکی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے جس کے باعث وہ عالمی مارکیٹ میں اپنے ملک سے نکالا جانے والا تیل فروخت کرنے سے قاصر ہے جبکہ مالی اعتبار سے بھی پابندیوں کے باعث ایران کافی کمزور ہوچکا ہے لیکن پھر بھی ایران مربوط حکمت عملی اپنا کر امریکہ کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے ایران کی بیلسٹک میزائل ٹیکنولوجی امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل کے لئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں جبکہ ایران اپنے حمایت یافتہ گروپس کو جوکہ مشرق وسطی کے مختلف ریجنز میں موجود ہیں انہیں فعال کرکے ایک بڑی افراتفری پھیلا سکتا ہے لبنان میں موجود حزب اللہ، فلسطین میں موجود تنظیم حماس اور فلسطین اسلامک جہاد سمیت دیگر جنگجو اسرائیل پر راکٹ حملے اور میزائل حملے کرسکتے ہیں جبکہ یمن میں موجود حوثی باغی پہلے ہی سے امریکہ اور سعودی اتحاد فوج سے لڑ رہے ہیں جبکہ شیخ النمر کی ہلاکت کے بعد سعودیہ میں موجود شیعہ بھی آل سعود کے خلاف کھڑے ہیں

کیا دونوں شیعہ اکثریتی نلک ایران اور عراق ایک پیج پر ہیں؟

دونوں ملکوں کے تعلقات ماضی میں بھی خراب رہ چکے ہیں ایران عراق جنگ جس کا ثبوت ہے البتہ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد کی صورتحال مختلف ہے ایران اور عراق بظاہر تو برادر ملک ہیں مگر اب عراقی عوام ایران کی عراق میں موجودگی کو پسند نہیں کررہے مختلف بین الا اقوامی نیوز ایجنسز کے مطابق عراقی عوام چاہتے ہیں کہ ایران اور امریکہ عراقی سرزمین سے ہٹ کر اپنے معاملات طے کریں چونکہ وہ اپنے سرزمین کو پراکسی وار کا حصہ نہیں بنانا چاہتے

ایران اور امریکہ کے مابین کشیدگی ریجن کے لئے خطرناک ہے

امریکہ کی جانب سے شیعہ ملیشیا کے رہنما اور قدس فورس کے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کے بعد عراق میں صورتحال کشیدہ ہوچکی ہے جبکہ امریکہ کی جانب سے تین ہزار مزید نیٹو فوجی بھیجے جاچکے ہیں جبکہ خبررساں ادارے کے مطابق ہفتے کی شب عراقی دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانے کے قریب اور شمال میں ائیر بیس پر راکٹ داغے گئے ہیں یہ کارروائیاں کس نے کی تاحال اس کی اطلاعات سامنے نہیں ائی ہیں مگر ایسے حملے جلد زور پکڑیں گے اور جنگ مزید بڑھنے کی صورت میں ایک بار پھر کئی لاکھ افراد بے گھر ہوں گے اور کئی لاکھ لوگ بے موت مارے جائیں گے یہی صورتحال اس وقت سیریا کی ہے جس کی سرزمین کئی ممالک کی پراکسی جنگ کی نظر ہوچکی ہے

ایران کیا چاہتا ہے؟

ایران کی جانب سے متعدد بار امریکہ کے ساتھ پابندیوں کے خاتمے کے عیوض بات کرنے پر رضا مندی ظاہر کی گئی ہے جبکہ امریکہ ایران کے جوہری پروگرام کے مکمل خاتمے تک پمختلف عالمی پابندیاں لگاکر مذاکر ات چاہتا ہے جو ایران کو منظور نہیں ہے البتہ ماضی اور حال میں ایرانی صدر سمیت ایرانی رہنماؤں کی جانب سے امریکہ کو خطے کے لئے خطرناک قرار دیا جاچکا ہے اور بارہا مطالبہ کیا گیا ہے امریکہ مشرق وسطی کی سرزمین سے اپنی فوجیں ہٹالے تاکہ معاملات بہتر ہوسکیں

پاکستان کا موقف کیا ہے؟

پاکستان کی جانب سے تاحال واضع حکمت عملی سامنے نہیں آئی ہے البتہ سفارتی سطح پر بیان ضرور دیا گیا ہے کہ جسے بڑا درمیانہ رکھا گیا ہے جیسے ملکوں کی خدمختاری کا احترام کیا جائے اور فریقین تناؤ کو مزید ہوا دینے سے گریز کریں ”،

ایران یقیناً پاکستان کی جانب نہیں دیکھ رہا ہوگا چونکہ ایران سے زیادہ پاکستان پر امریکہ کے اتحادی سعودیہ کا اثرسوخ ہے ہاں یہ الگ بات ہے کہ مسلم برادر ملک سعودیہ ہو یہ ایران دونوں ہی ملکوں نے پاکستان میں پراکسی جنگ کی ہے جس کا غمیازہ پاکستانی عوام نے بھگتا ہے جبکہ شہید ہونے والے قاسم سلیمانی نے بھی جماعت عدل کی جانب سے ایران فورس پر کیے جانے والے حملے کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا تھا اور دھمکی دی تھی کہ ایران کے صبر کو پاکستان نہ آزمائے اور حیرت کا اظہار کیا تھا کہ ایک جوہری ملک اپنی سرزمین کو دہشت گرد تنظیموں سے پاک نہیں کرسکتا ماضی کے ان بیانات کی روشنی میں پاکستانی موقف کا اندازہ باخوبی لگایا جاسکتا ہے

عوامی رائے

مشرق وسطی سمیت پاکستانی عوام بھی جنگ ہرگز نہیں چاہتی اور ایران کے اس موقف کی یقیناً حمایت کرتی ہے کہ امریکہ مشرق وسطی سمیت دیگر ممالک سے ہٹ جائے اور امریکہ کو خطرہ ہے کا ڈھنڈورا پیٹنا بند کرے ورنہ یہ دنیا مزید آگ اور شعلوں کی چپیٹ میں آجائے گی پاکستان میں موجود تمام مذہبی حلقوں کی جانب سے موجودہ صورتحال پر تشویش کے ساتھ قاسم سلیمانی پر حملے کی مذمت کی جارہی ہے اور ساتھ ہی ملک میں موجود شیعہ تنظیموں کی جانب سے بڑے پیمانے پر امریکہ کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments