پانچویں سَمت [ سندھی افسانے کا اردُو ترجمہ ]
افسانہ: منوّر سراج ترجمہ: یاسر قاضی
* * * * *
”سنو! ؟ “
”ہُوں! “
”جاگ رہی ہو؟ “
”ہاں۔ “
”ایک بات تو بتاؤ۔ “
”ہُوں۔ کہو! “
”وہ کون تھا؟ “
”کون وہ؟ “
”وہ، جو آیا تھا۔ “
”کون آیا تھا؟ “
”کوئی تو تھا۔ “
”پتا نہیں۔ “
”بتاؤ، کون تھا؟ “
”پتا نہیں، کون تھا۔ “
”کہاں سے آیا تھا؟ “
”پتا نہیں۔ “
”مجھے پریشان ناں کرو۔ بتاؤ! “
”کیا؟ “
”یہی کہ وہ کون تھا، کہاں سے آیا تھا؟ “
”پتا نہیں کون تھا، کہاں سے آیا تھا؟ “
”تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق تھا؟ “
”کوئی بھی نہیں۔ “
”جب سے وہ گیا ہے، تم اداس رہنے لگی ہو! “
”ایسا نہیں ہے۔ “
”تو پھر؟ “
”یہ اداسی نہیں ہے۔ “
”تو پھر کیا ہے؟ “
”اطمینان ہے شاید! “
”ہنس بول ہی نہیں رہیں؟ “
”ہنسنا بولنا خوشی کی دلیل تھوڑی ہے۔ “
”تو پھر؟ “
”خوشی کوئی اور چیز ہے۔ “
”تو اس کا مقصد یہ ہے کہ تمہارے قہقہے جھوٹے تھے؟ “
”جھوٹے تو نہیں تھے، لیکن۔ “
”لیکن کیا؟ “
”لیکن سچ بھی نہیں تھے۔ “
”تو پھر کیا تھے؟ “
”سچ اور جُھوٹ کے درمیان کچھ تھے۔ “
”کیا مطلب؟ “
”ہم سب سچ اور جھوٹ کے درمیان میں گزارتے ہیں۔ “
”فضُول فلسفہ مت بَکو! “
”فلسفہ نہیں ہے۔ “
”تو کیا ہے؟ “
”سچ ہے۔ “
”تمہارے نزدیک میری اہمیت نہیں ہے؟ “
”ہے۔ “
”کیا اور کتنی؟ “
”جیسی اور جتنی بیوی کے نزدیک ایک شوہر کی ہوتی ہے۔ “
”جو کچھ میں نے تمہارے لیے کیا، وہ سب فضول تھا؟ “
”کیا؟ “
”گھر۔ سہولیات۔ پیسے وغیرہ؟ “
”مجھے تمہاری ضرورت تھی۔ “
”میں بھی تو تمہارے پاس ہی تھا۔ “
”کب تھے تم میرے پاس؟ “
”اور نہیں تو؟ کیا آٹھویں آسمان پہ تھا؟ “
”ہاں۔ آٹھویں آسمان پر ہی تھے۔ “
”کیا مطلب، کیسا آٹھواں آسمان؟ “
”بے توّجہی کا آٹھواں آسمان۔ “
”تمہارے لیے ہی تو یہ سب کچھ کیا، جو۔ “
”جو؟ “
”جو ایک عورت کو خوش کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ “
”مثلاً؟ “
”گھر۔ سہُولیات۔ پیسے دولت۔ “
”یہی تو تمہاری بھول تھی۔ “
”کیا مطلب کہ؟ “
”عورت پُھول کی طرح توجہ مانگتی ہے۔ جو نہیں ملتی تو۔ “
”تو؟ “
”تو مُرجھا جاتی ہے۔ عورت محض۔ “
”محض؟ “
”محض گوشت پوست نہیں ہے۔ “
”تو پھر؟ “
”عورت احساس ہے۔ “
”کیا مطلب؟ “
”عورت، عورتپنہ ہے۔ “
”ہمیشہ تمہیں توجہ دی ہے۔ “
”ہُونہہ۔ “
”ہنس کیوں رہی ہو؟ “
”یُونہی۔ “
”پھر بھی؟ “
”واقعی ہی توجّہ دیتے ہو۔ “
”نہیں دیتا؟ “
”دیتے ہو، پر۔ “
”پر کیا؟ “
”پر جب تمہاری اپنی ضرورت ہوتی ہے، تب۔ “
”یہ تم بکواس کر رہی ہو۔ “
”یہ سچ ہے۔ “
”یہ جھوٹ ہے۔ “
”تو سچ کیا ہے؟ “
”سچ یہ ہے کہ میں نے تمہارے ساتھ پیار کی شادی کی تھی۔ “
”اور؟ “
”دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کا عکس رہتا تھا۔ “
”ہُونہہ۔ “
”ہنس رہی ہو؟ “
”ہاں۔ “
”کیوں؟ “
”یونہی۔ “
”پھر بھی۔ “
”شوپِیس کی طرح گھر میں رکھ کر بھول گئے۔ “
”تو پھر کیا گھر میں بیٹھا تمہارا چہرہ دیکھتا رہتا؟ “
”میں نے یہ کب کہا تھا کہ بیٹھ کر میرا مُنہ دیکھو؟ “
”تو پھر؟ “
”تم نے تو کبھی بُھولے سے بھی میری آنکھوں میں نہیں جھانکا۔ “
”ابھی بھی وقت گیا نہیں ہے۔ ابھی دونوں بوڑھے نہیں ہوئے۔ “
”جوانی اور بڑھاپا جسمانی عمر کا نام تھوڑی ہے۔ “
”تو پھر؟ “
”یہ تو احساس کا نام ہے۔ “
”تم ابھی بھی خوبصورت اور جوان ہو۔ “
”میں تو اسی شام ہی بوڑھی ہو گئی تھی، جس شام۔ “
”جس شام؟ “
”جس شام تم نے میرے ساتھ ایک نقطے سے دوسرے نقطے تک چلنے کا وعدہ کیا تھا، مگر۔ “
”مگر؟ “
”مگر، میں نے ابھی اپنی پسندیدھ پیلی ساڑھی پہن کر اپنے بال ہی نہیں باندھے تھے کہ۔ “
”کہ؟ “
”کہ تم ایک فون کی گھنٹی پر پارٹی سے سودا طے کرنے چلے گئے تھے اور میں۔ “
”اور تم۔ کیا؟ “
”اور میں اپنے کُھلے بالوں کی طرح بکھر گئی تھی۔ “
”یہ بھاگم دوڑ نہ کرتا تو تم۔ “
”تو میں؟ “
”تو تم اپنی یہ پسندیدہ ساڑھی پہن سکتیں؟ بتاؤ! “
”میں بحث نہیں کرنا چاہتی۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔ “
”مجھے بھی نیند آ رہی ہے مگر میں سونے سے پہلے۔ “
”سونے سے پہلے؟ “
”پھر بھی پُوچھنا چاہتا ہوں۔ “
”کیا؟ “
”یہی کہ، وہ کون تھا؟ “
”یہ تو پتا نہیں کہ وہ کون تھا، پر۔ “
”پر کیا؟ “
”پر اس کے آنے سے پہلے آسمان پنچھیوں سے بَھر گیا تھا۔ “
”شاعری نہ کرو۔ “
”یہ شاعری نہیں ہے۔ “
”تو کیا ہے؟ “
”زندگی کی بات ہے۔ “
”مجھے میرے سوال کا جواب دو۔ “
”کیا؟ “
”تمہارا اس کے ساتھ کیا تعلق تھا؟ “
”شاید کوئی بھی نہیں۔ شاید صرف اداسی کا۔ “
”تم نے اس کے ساتھ کیا بات کی؟ “
”کچھ بھی نہیں۔ “
”اس نے کیا بات کی؟ “
”کوئی بھی نہیں۔ “
”مائی گاڈ! گُونگا تھا کیا؟ “
”گونگا تو نہیں تھا، پر۔ “
”پر؟ “
”پر الفاظ کا محتاج نہیں تھا۔ “
”تو پھر؟ “
”سب کچھ اس کی آنکھوں میں تھا۔ “
”کیا؟ “
”ایک بے انت خالی پن۔ “
”خالی پن کیا ہے؟ “
”خالی پن ہی سب کچھ ہے، کیونکہ۔ “
”کیونکہ؟ “
”کیونکہ خالی پن ہی میں سب کچھ ہے۔ “
”مثلاً کیا کہ؟ “
”خالی پن میں پنچھی اڑتے ہیں، اور۔ “
”اور کیا؟ “
”اور بادل برستے ہیں۔ شاید خالی پن۔ “
”کیا شاید؟ “
”خالی پن خدا کی آغوش ہے، اور۔ “
”اور؟ “
”اور اس کی آنکھوں میں ایک غم پنہاں تھا۔ “
”کون سا؟ “
”کہ لوگ محبّت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں، اور۔ “
”اور؟ “
”دوستی میں دغا، پیار میں چالاکی اور رشتوں میں سیاست شامل ہو گئی ہے۔ اس لیے۔ “
”اس لیے؟ “
”اس لیے لڑکیاں محبّت سے، پنچھی پیڑوں سے اور بچّے گلیوں سے ڈرنے لگے ہیں اور یہ کہ۔ “
”یہ کہ؟ “
”یہ کہ لوگوں کی آنکھوں میں خوابوں کے لیے اسپیس نہیں بچا۔ “
”عجیب ایبنارمل شخص تھا۔ جسٹ، میڈیکل کیس۔ “
”ایبنارمل نہیں تھا، پر۔ “
”پر؟ “
”ایبنارملٹی کے دور میں نارملٹی کا احساس تھا۔ “
”تمہاری وہی خام خیالی۔ فینٹسی۔ اوپر سے رات بھی ڈھل چکی ہے۔ “
”تو پھر؟ “
”مجھے صبح جلدی اٹھنا ہے اور کل واپس آتے آتے بھی۔ “
”آتے آتے بھی؟ “
”واپس آتے آتے رات ہو جائے گی۔ “
”تو؟ “
”کل تم کسی سائیکاٹرسٹ سے مل لینا۔ “
”ہُونہہ۔ “
”ہنس کیوں رہی ہو؟ “
”یونہی۔ “
”پھر بھی؟ “
”جن کو خود علاج کی ضرورت ہوتی ہے، وہی۔ “
”وہی؟ “
”وہی دُوسروں کو علاج کا مشورہ دیتے ہیں۔ “
”کیا مطلب؟ میں بیمار ہوں؟ “
”میں بحث نہیں کر رہی۔ “
”بحث کا شوق مجھے بھی نہیں ہے۔ “
”تو پھر سو جاؤ۔ صبح تمہیں آفیس بھی جانا ہے۔ “
”مگر سونے سے پہلے پھر بھی ایک آخری بار تم سے پوچھ رہا ہوں۔ “
”کیا؟ “
”یہی کہ وہ کون تھا؟ “
”سچ بتاؤں؟ “
”ہاں بتاؤ! “
”وہ اُداس قبیلے کا آخری فرد تھا۔ “
”اُداس قبیلہ؟ کیا مطلب؟ “
”ہاں، دنیا میں اداس لوگوں کا ایک الگ قبیلہ ہے۔ “
”کہاں سے آیا تھا؟ “
”پانچویں دِسا سے آیا تھا۔ “
”پانچویں دِسا کیا ہے؟ “
”پانچویں دِسا چار سمتوں سے الگ سمت ہے۔ “
”کہاں ہے؟ “
”جہاں چار سمتیں ختم ہوتی ہیں، وہیں سے پانچویں سَمت شروع ہوتی ہے۔ “
”پر دیکھنے میں تو نہیں آتی۔ “
”وہ ایسے دیکھنے میں نہیں آتی۔ “
”تو پھر؟ “
”اس کے لیے باہر دیکھنا نہیں پڑتا۔ “
”مطلب؟ “
”مطلب کچھ بھی نہیں۔ “
”تو پھر وہ کہاں چلا گیا؟ “
”وہیں، جہاں سے آیا تھا اور جاتے جاتے اپنے ساتھ۔ “
”اپنے ساتھ کیا؟ “
”اپنے ساتھ مجھے بھی لے گیا۔ “
”ہُونہہ۔ “
”ہنس رہے ہو؟ “
”ہاں۔ ہنسی آ رہی ہے۔ “
”کیوں؟ “
”تمہارا وہی سودائے خام۔ فینٹیسی۔ وہم۔ تم تو۔ “
”میں تو کیا؟ “
”تم تو میرے پاس ہو۔ میرے بیڈ رُوم میں۔ میرے ساتھ۔ “
”تمہارے پاس محض میرے ہاتھ، پاؤں، چہرہ اور بال ہیں۔ “
”تو پھر وہ کیا لے گیا ہے؟ “
”وہ میرے دل کی دھڑکن اور۔ “
”اور کیا؟ “
”اور آنکھوں کے چاروں موسم لے گیا۔ “
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).