کیسا ہونا چاہیے 2020 ء؟ ( 2 )


نیا سال یعنی 2020 ء کیسا ہونا چاہیے یہ اس سلسلے کا دوسرا مضمون ہے۔ گز شتہ مضمون میں ہم نے نشاندہی کی تھی کہ نئے سال میں حکومت کو چاہیے کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام، حزب اختلاف کے ساتھ اچھے روابط، وفاقی وزراء کو اپنی وزارتوں کی کارکردگی بہتربنانے اور پارلیمان اور قائمہ کمیٹیوں کی فعالیت کو اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ اس مضمون میں چند دیگر امور کا تذکرہ ہے کہ اگر حکومت اس کو اپنی سالانہ ترجیحاتی فہرست میں شامل کردیں تو بہت سارے معاملات بہتری کی طرف جا سکتے ہیں۔

اچھی طرز حکمرانی:آپ بہت ہی اچھی قانون سازی کریں۔ بہترین سے بہترین منصوبہ بندی کریں لیکن جب تک اس قانون سازی اور منصوبہ بندی پر عمل درا مد کے لئے آپ کے پاس متعلقہ شعبے میں تربیت یافتہ اور مخلص افراد موجود نہ ہوں تو نہ وہ قانون سازی ملک و قوم کو کوئی فائدہ دے سکتی ہے اور نہ ہی بہترین منصوبہ بندی کسی کام آسکتی ہے۔ اچھی طرز حکمرانی کے لئے ضروری ہے کہ قانون سازی اور منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ آپ کے پاس ”Right person for the right job“ کا مو ٹو بھی ہو۔

اگر آپ اہم سرکاری عہدوں پر نا اہل لوگوں کو نامز کر تے ہیں تو کبھی بھی ملک میں اچھی طر ز حکمرانی قائم نہیں ہو سکتی۔ سول سروس میں اگر چہ اصلاحات کی ضرورت ہے لیکن فوری طور پرضروری ہے کہ حکومت محکمہ پولیس، محکمہ تعلیم، محکمہ صحت، ایف بی آر، محکمہ مالیات، تجارت، محکمہ خارجہ اور داخلہ سمیت دیگر اہم محکموں میں خالص میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں کریں تاکہ اس وقت ملک کو ان محاذوں پر جو مشکلات درپیش ہیں وہ حل ہو سکیں۔

بے شک حکومت سول سروسز میں اصلاحات کا عمل جاری رکھیں لیکن فوری طور پر نظام حکومت بہترین انداز پر چلانے کے لئے ضروری ہے کہ اہم سرکاری محکموں میں اعلی عہدوں پر خوشامدیوں اور نا اہل لوگوں کی بجائے اہل افراد کو تعینات کیا جائے، جب تک اعلی سرکاری عہدوں پر میرٹ کی بنیاد پر اہل عہدے داروں کا تقرر نہیں کیا جاتا اس وقت تک ملک میں اچھی طر ز حکمرانی کا خواب شرمند ہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت نئے سال میں اچھی طرز حکمرانی کا قیام اپنی ترجیحات میں شامل کردیں۔

انتخابی اصلاحات :حکومت کو چاہیے کہ 2020 ء میں انتخابی اصلاحات کو اپنی ترجیحات میں رکھیں، اس لئے کہ ہمارے ملک میں جب انتخابات ہوتے ہیں تو جو پارٹی جیت جاتی ہے وہ انتخابات کو صاف اور شفاف قرار دیتی ہے جبکہ ہارنے والی جماعتیں دھاندلی کا الزام لگا دیتی ہیں۔ ملک میں چونکہ انتخابات کا ذمہ دار ادارہ الیکشن کمیشن ہے، اس لئے ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا جائے۔ اٹھارہوں ترمیم میں ایک کوشش کی گئی تھی لیکن ابھی بھی بہت کام باقی ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ ترقی یا فتہ ممالک میں سے کم از کم پانچ ملکوں کے الیکشن کمیشنزکے ماڈلز کا مطالعہ کریں اور پھر حزب اختلافات کے ساتھ مل کر اصلاحات کریں۔ دوسرا اہم مسئلہ الیکٹرانک ووٹنگ کا بھی ہے۔ اس پر بھی کام ہوناچاہیے تاکہ آنے والے انتخابات میں اس نظام کو استعمال کیا جاسکے تاکہ کسی بھی سیاسی پارٹی کوانتخابی نتائج پر شک نہ ہو۔ ایک اور مسئلہ انتخابات کے دن امن وامان برقرار رکھنے کے لئے فوج کی تعیناتی بھی ہے، لہذا ضروری ہے کہ انتخابات کے دن امن وامان برقرار رکھنے کے لئے بھی اداروں کی ذمہ داریوں کا تعین کیا جائے۔ اگر انتخابی اصلاحات ہو جاتی ہیں اور تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کے بعد نتائج کو تسلیم کرنے کی روایت پر عمل کرنا شروع کردیتی ہے تو بعد میں حکومت کو ملک میں سیاسی استحکام پیدا کرنے، حزب اختلاف کے ساتھ اچھے روابط رکھنے اور پارلیمان کو فعال رکھنے میں بھی آسانی ہو گی۔

بلدیاتی انتخابات :بلدیاتی انتخابات اگر چہ گزشتہ کئی سالوں سے ہو رہے ہیں لیکن اس میں تعطل ضرور ہوتا ہے۔ اگر چہ یہ صوبائی مسئلہ ہے لیکن وفاقی حکومت کو چاہیے کہ بلدیاتی نظام میں صوبائی حکومتوں کی نا اہلی کی وجہ سے جو تعطل آتا ہے اس کو آئینی طریقے سے ختم کرنے کے لئے قانون سازی کریں تاکہ جب بھی بلدیاتی ادارے مدت پوری کریں تو فوری طور پر انتخابات ہو اور ذمہ داریاں عوامی نمائندوں کے حوالے ہو۔ جس طرح قومی اسمبلی، سینٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں تعطل کی اجازت نہیں اسی طرح بلدیاتی انتخابات میں بھی تعطل نہیں ہونا چاہیے۔

ساتھ ہی کو شش کی جائے کہ ترقیاتی فنڈز ارکان اسمبلی سے بلدیاتی اداروں کو مرحلہ وار منتقل کرنے کے لئے اقدامات کیے جائیں جبکہ سینٹ کے ارکان کو تر قیاتی فنڈز دینے پر فوری پابند ی لگا نی چاہیے اس لئے کہ سینٹ کے ارکان کا ترقیاتی فنڈ سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اگر حکومت واقعی بلدیاتی اداروں یعنی اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے کا عزم رکھتی ہے تو ضروری ہے کہ ان ممالک کے ماڈلز کا مطالعہ کریں جہاں بلدیاتی ادارے کامیابی کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

معاشی استحکام کے لئے نئی راہیں تلاش کرنا:پاکستان کا ایک اہم مسئلہ معاشی استحکام بھی ہے۔ مگر افسوس کہ ہر حکمران نے اس مسئلے کو روایتی انداز سے حل کرنے کی کوشش کی ہے اور موجودہ حکمران اور ان کی معاشی ٹیم بھی اس ڈگر پر چل رہی ہے۔ معیشت کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ریاست ہو، حکومت، ادارے یا افراد سب سے پہلے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا خرچہ کتنا ہے اورآمد ن کتنی ہے؟ اگر خرچہ زیادہ ہے تو آمدن بڑھانے اور خرچہ کم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

پاکستان کو بھی اس وقت اس صورت حال کا سامنا ہے کہ خرچہ زیادہ ہے اور آمدن کم۔ خرچہ جات کو پورا کرنے کے لئے حکومت نے آسان طریقہ یہ نکالا ہے کہ ہر مہینے کسی نہ کسی بہانے پیٹرولیم منصوعات، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرتا ہے۔ یہ ایک مصنوعی طریقہ ہے۔ اس سے مسائل عارضی طور پر حل تو ہوسکتے ہیں لیکن یہ مستقل حل ہرگز نہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ اخراجات کم کریں۔ جولوگ، محکمے اور شعبے پہلے سے ٹیکس دے رہے ہیں ان پر مزید بوجھ نہ ڈالیں۔

بلکہ ان لوگوں، محکموں اور شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کریں جو ٹیکس نہیں دے رہے ہیں۔ برآمدات میں اضافہ کریں خا ص کر پڑوس ملک افغانستان کے ذریعے وسطی ایشیاء سے تجارتی رابطوں کو وسعت دیں۔ چین اور ایران کے ساتھ بھی تجارتی روابط بڑھانے پر فوری تو جہ کی ضرورت ہے۔ مشرق وسطیٰ بھی بہت بڑی منڈی ہے فوری طور پر اس سے بھی فائدہ اٹھا یا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ اس وقت ممکن ہے کہ حکومت 2020 ء کو اس مسئلے کا حل نکالنے میں سنجیدہ ہو۔

معاشی استحکام کے لئے ضروری ہے کہ وفاقی وزارت خزانہ، وفاقی وزارت تجارت، وفاقی وزارت خارجہ اور ایف بی آر سمیت دیگر تمام ادارے باہمی مشاورت سے اس مسئلے کا حل نکالنے میں سنجیدہ ہوں۔ اگر ان میں سے کوئی ایک بھی وزارت کوتاہی کرے گی تو پھر دنوں کا سفر مہینوں اور مہینوں کا سفر سالوں میں طے ہو گا۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments