امداد علی: ’دیوانہ‘ مر گیا آخر کو ’جیل خانے‘ پہ کیا گزری


\"amara-shah\"

آج کل کے جدید دور میں پوری دنیا میں سپیشلائزیشن پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ ترقی کے اس دور میں تعلیمی میدان نے اتنی وسعت اختیار کر لی ہے کہ کسی ایک فرد کا کسی مضمون میں عبور حاصل کرنا بھی تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ ایک ہی مضمون میں کئی طرح کی سپیشیلٹی اور Sub specialities متعارف ہو گئی ہیں۔ مثلاً نیورو سائنسز میں سائیکائٹرسٹ الگ، نیورولوجسٹ الگ اور سائیکالوجسٹ الگ ہیں۔ اسی طرح یورولوجسٹ الگ اور نیفرولوجسٹ الگ ہیں۔

لیکن ہم وہ خوش نصیب قوم ہیں کہ جن کے پاس اب بھی ایسے نگینے پائے جاتے ہیں جنہوں نے قرونِ اولیٰ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ جو بیک وقت قانون، طب، عمرانیات، سماجیات کے میدان میں کوئی اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ علم کی جولانی کے ساتھ ساتھ طبیعت میں مہم جوئی کا عنصر بھی اللہ نے ودیعت کیا ہے۔ انسانوں کی بنائی ہوئی سرحدیں ان کے قدم نہیں روک سکتیں۔ اکثر و اوقات سامنے دیوار پہ لکھا دیکھنے سے قاصر لیکن عربی مقولہ ”حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں سے ملے لے لو“ کے مصداق دلی کی ہائی کورٹ کے آرکائیوز میں چار عشروں سے دبی فائل نکال کر لے آتے ہیں اور اس پر مستعار یہ کہ نہ صرف خود کو لوگوں کی بنائی سرحدوں سے آزاد سمجھتے ہیں بلکہ وہ تو زمانے کی قید سے بھی آزاد ہیں۔

گزشتہ دو عشروں میں میڈیکل سائنسز کی ترقی، انسانی سماج کی پیش قدمی، اور قانون و عدالت کی انسانی فطرت سے ہم آہنگی جیسے دلفریب نعروں کو ایک ”ڈھونگ“ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔

Old is Gold کے مصداق قانونی حوالہ دینا ہو تو دلی کی ہائی کورٹ میں 1972 کا فیصلہ، میڈیکل سائنس کا کوئی مسئلہ تو ابنِ سینا کی القانون فی ال طب، شرعی مسئلہ درپیش ہو تو اشرف علی تھانوی صاحب کی بہشتی زیور اور اگر کہیں کوئی سماجی، سیاسی یا عمرانی مسئلہ درپیش ہو تو امام غزالی کی کیمیائے سعادت پہ تکیہ کرتے ہیں۔ اور خود کو آرشمیدس گردانتے ہوئے اپنی آئینی طاقت کے لیور سے سائنس کی تمام تحقیق، علمِ سماجیات کی ساری پیش رفت، قانون کی موشگافیاں احاطہِ عدالت سے اٹھا باہر پھینکتے ہیں۔

موجودہ دور کے انسانی مسائل پر جدید فکری تحقیق درخورِ اعتنا نہ سمجھتے ہوئےاپنے آپ کو قرونِ اولٰی سے وابستہ رکھتے ہوئےمعاشرے کو حمورابی کے دور سے ہم آھنگ دیکھنا چاہتے ہیں۔ غیرتِ ایمانی بھی طبیعت کا خاصہ ہے کہ مغرب زدہ اور غرب آمادہ دانشوروں کے دلائل اور حوالوں کو اپنے تاریخی و ثقافتی ورثہ پہ یلغار سمجھتے ہیں۔ کوئی ”فرزانہ“ English Common Law کا حوالہ دے تو تیوری پہ بل چڑھا کر حوالے اور حوالہ دینے والے کو مردود ٹھہراتے ہیں۔ ”انگریز کیا سوچتا ہے یا کرتا ہے اس سے ہمارا کیا سروکار“ کا نعرہ لگا کر آگے بڑھ جانے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ کوئی اگر یہ یاد دلانے کی کوشش کرے کہ پاکستان کا موجودہ عدالتی نظام ان ہی کافروں کی ذہنی اختراع ہے۔ آپ کا موجودہ منصب اسی انگریز کے دیئے ہوئے آئین کی مرہونِ منت ہے۔ آپ کو ملنے والی عدالتی مراعات اور طاقت اسی مغرب کا تحفہ ہے تو لمحہ بھر کا توقف کئے بغیر کہتے ہیں کہ انگریز نے یہ سب ہمارے آبا و اجداد سے سیکھا ہے۔ اور پھر اقبال کے اس فقرے ”تھے تو وہ آباء تمھارے ہی، تم کیا ہو“ کا تازیانہ مغرب زدہ روشن خیال دانشوروں کی روح پر لگاتے ہیں۔

اپنی روایات اور ثقافتی ورثہ سے وابستگی کا یہ عالم ہے کہ کوہستان میں پانچ بچیاں قتل ہو گئیں لیکن ملک کے وزیراعظم کو تین دفعہ کٹہرے میں لانے والوں نے انہیں عدالت میں بلانا مناسب نہ سمجھا۔ کیونکہ علاقے کے کچھ ان پڑھ مگر روایت پسند زعماء نے فرمایا ”ہماری بچیاں غیر محرموں کے ہاتھوں ذبح تو ہو سکتی ہیں لیکن عدالت میں حاضر ہونے کی بے پردگی کی متحمل نہیں ہو سکتیں“۔ اور عدالت نے روایت کی پاسداری رکھتے ہوئے عدالت سے مستثنٰی قرار دیا اور روایات نے انہیں زندگی کی قید سے آزاد کر دیا۔ اور کیس close کر دیا گیا۔ اس سے زیادہ قدامت پسندی اور رجعت پزیری کی دلیل کیا ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پہ نام نہاد پڑھے لکھے نوجوانان جتنا مرضی سینا کوبی کرلیں لیکن عدالتیں اپنی تاریخی روایات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بیرونی دباؤ سے متاثر نہیں ہوں گی۔ بلکہ اس کیس کی روشنی میں وہ جدید سماجی رحجانات اور انسان کو درپیش مسائل پہ جدید تحقیق کو تہذیبِ نو کے گندے انڈے سمجھ سکتی ہیں۔

بات تو ٹھیک ہے کہ کیا قرونِ اولٰی کے زریں دور میں کسی مجرم کی سزا کا تعین کرتے وقت اس کی ذہنی حالت جانچنے کسی ماہرِ نفسیات کی ضرورت پیش آئی؟ کیا اس دور میں سول سوسائٹی کے نام پر انسانی حقوق کی پاسداری کرنے والوں نے عدالتوں پہ کوئی دباؤ ڈالنے کی کوشش کی؟ کیا اس زریں دور میں امام احمدؒ بن حنبل اور ابنِ تیمیہؒ جیسے مفکرین کو مروجہ شریعت میں اختراعات لانے کی وجہ سے کوڑے نہیں مارے گئے؟ کیا کسی عدالت نے عمرانی علم کے بانی ابنِ خلدون کو کسی مقدمے میں سماج کی ہئیتِ ترکیبی بتانے کے لئے طلب کیا؟ کیا اندلس نے سلطنتِ اسلامی کے زیرِ نگیں ہونے کے باوجود کسی مغرب کے قانون کی کوئی نظیر مستعار لی؟ کیا اس زریں دور میں ابنِ رشد اور ان جیسے باقی نام نہاد مفکریں کو راندہِ درگاہ نہیں ٹھہرایا گیا؟

یہ زریں اور تابناک مثالیں صرف مسلمانوں کا تاریخی ورثہ نہیں بلکہ سقراط کو زہر کا پیالہ، ارسطو، گیلیلیو، ابن الہیثم اور مارٹن لوتھر کنگ، ان سب کو وقت کے قاضیوں اور صاحبانِ کلیسا نے پاگل سمجھ کر تعزیر اور حد کا نفاذ نہیں کیا کہ آج امداد علی کے پاگل پن کی وجہ سے اسے سزا سے مستثنٰی قرار دیا جائے؟

امداد علی کا پاگل پن اسے سزا سے نہیں بچا سکتا اور نہ ہی انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں قرونِ اولٰی کی ان تاریخی اور روشن مثالوں کے سامنے کوئی حیثیت رکھتی ہیں۔

عدالت نے شیزوفرینیا جیسے مہلک مرض کو صرف وقتی موڈ سوئنگ قرار دیا اور تمام شیزوفرینیا کے مریض مجرموں کو پھانسی پہ سوئنگ کرنے کا حکم دے دیا۔ سگمنڈ فرائیڈ کی روح عالمِ ارواح میں خوشی سے شاداں و فرحاں ہو گی اور دل نہاں ہوا ہو گا کہ دنیا نے خوامخواہ میری تحقیق کو سر پہ اٹھایا ہوا تھا۔ Ideas: From Fire to Freud کے مصنف نے بغیر تحقیق اور آئین و قانون کے مضمرات کو نہ سمجھتے ہوئے مجھ پر اپنی مشہورِ زمانہ کتاب میں مضمون باندھا۔ عدالتِ عظمٰی کے تفصیلی فیصلے کے انتظار میں ہوں کہ جوں ہی سرٹیفائیڈ کاپی ملتی ہے تو مصنف کے منہ پہ ماروں کہ اس فیصلے کی رو سے انسانی نفسیات کا انسانی افعال سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں۔ تم نے میری تحقیق و کاوش کا اس قدر طویل افسانہ کیوں بنایا اور مجھے انسانی معاشرے اور انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیات میں کیوں شامل کیا؟

ملک کے مایَہ ناز سائیکائٹرسٹ سے شیزوفرینیا کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ یہ انسانی دماغ کا مہلک ترین عارضہ ہے۔ اس عارضہ سے گزرنے والے مریض کے لئے ایک ایک پل موت سے زیادہ کرب ناک اور الم ناک ہے۔ لیکن عدالتِ عظمٰی کے اس فیصلے کے بعد آئندہ کی کوشش یہی ہو گی کہ شیزوفرینیا کے کسی مریض کا علاج نہ کیا جائے کیونکہ اب اس عدالتی فرمان کے بعد یہ مرض ہی نہیں رہا۔ انٹرنیشنل سائکائٹرسٹ سوسائٹی کے آئندہ اجلاس میں یہ تجویز پیش کی جائے گی کہ شیزوفرینیا کو ذہنی امراض کے گوشوارے سے نکالا جائے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے کارکنان سے اور سوشل سوسائٹی پہ بیٹھے جدید علوم سے آشنا نوجوانان سے سے بھی گزارش ہے کہ عدالتی فیصلے کو اس کے پورے پسِ منظر میں لیا جائے اور کسی قسم کے ریمارکس دینے سے پہلے ذرا تاریخ کی ان چند شخصیات کا مطالعہ کر لیں جو دماغی عارضوں میں مبتلا تھیں لیکن اس کے باوجود سائنس، سماجیات، ادب، سیاست اور حکمرانی کے افق پر یوں جگمگاٸیں کہ ان کے افکار کی روشنی سے آج تک انسانیت بہرہ مند ہو رہی ہے۔ ان کی فکر کی تابانی کو دیکھ کر فرزانوں کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور متفقہ طور پر ان کو تاریخ دیوانہ ہی گردانتی ہے کیونکہ وہ اگر دیوانے نہ ہوتے تو شاید انسانیت کے لئے گراں قدر خدمات دینے سے قاصر رہتے۔ ان کی متانت و فطانت اور اپنے کام سے عشق ان کی دیوانگی کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ سقراط اگر دیوانہ نہ ہوتا تو وقت کے فرزانوں کے سامنے مجرم پیش نہ ہوتا بلکہ فرزانوں کے بینچ کا حصہ ہوتا۔ ارسطو اگر سحر زدہ اور مجنوں نہ ہوتا تو یونان کی فرزانگی یوں اس کی دیوانگی کا تعاقب نہ کرتی۔

نیوٹن اگر شیزوفرینیا کا مریض نہ ہوتا تو کائنات کے نظامِ کار کے پیچھے چھپے قوانین و اصول آشکار نہ کرتا۔

ڈارون اگر Agoraphobia کا شکار نہ ہوتا تو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جہاز کے عرشے پر گزار کر کائنات میں ارتقا کے عمل کو آشکار نہ کر پاتا۔

چرچل اپنے ڈپریشن کے خلاف جنگ میں برسرِپیکار نہ ہوتا تو برطانیہ دوسری جنگِ عظیم میں فتح سے ہمکنار نہ ہوتا۔ یہ وہ چند مثالیں ہیں جنہیں آج انسانیت اپنے اوپر دیوانگی کا سب سے بڑا احسان سمجھتی ہے۔ تاریخ کی ان مجنوں شخصیات کو خراجِ تحسین فیض احمد فیض نے یوں پیش کیا

انہیں کے فیضؔ سے بازارِ عقل روشن ہے
جو گاہ گاہ جنوں اختیار کرتے رہے

امداد علی کے کیس میں مغرب کی تحقیق اور عدالتی نظام کی اندھی تقلید کا کیا جواز؟ امداد علی کی بیوی صفیحہ بانو بھی شاید کسی ذہنی عارضہ کا شکار ہے کہ عدالتوں سے انصاف مانگنے چلی آئی۔ شاید اس کے ذہن میں شاہ رخ جتوئی اور صدیق کانجو کے بیٹے کے کیسز کی نظیر ہو کہ وہ قتل کرنے کے باوجود بری ہو گئے۔ لیکن وہ یہ رمز سمجھنے سے قاصر رہی کہ وہ شیزوفرینیا کے مریض نہیں تھے بلکہ انھوں نے ہوش و حواس اور پاکستان کے عدالتی نظام کو سمجھتے ہوئے یہ جرم سرزد کیا تھا اسی لئے ایک بظاہر جعلی سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پہ بچہ ٹھہرتا ہے اور دوسرا مقتول کے خاندان سے صلح نامہ لا کر عدالت میں لہرا دیتا ہے۔ دن دہاڑے بیچ چوراہے کئی کیمروں کے سامنے ریاست کے شہری بیدردی سے قتل ہو جاتے ہیں اور ریاست فریق ہی نہیں ٹھہرتی۔ عدالت میں جرم اور اس کے وقوع پزیری پہ کوئی بحث ہی نہیں ہوتی بلکہ سارا زور آئینی اور قانونی موشگافیوں پہ لگایا جاتا ہے اور آخر میں مختلف قوانین کو جواز بنا کر کیسز close کر دیئے جاتے ہیں۔۔ امداد علی کی بیوی صرف شیزوفرینیا کا سرٹیفیکیٹ لئے اپنے خاوند کے لئے قانونی جنگ لڑنے آتی ہے۔ اس کے پیچھے کوئی جتوئی وڈیرا ہے اور نہ ہی کوئی پنجاب کا کانجو زمیندار۔ اس کا کیس لڑنے کے لئے کوئی وسیم سجاد ہے نہ کوئی حفیظ پیرزادہ اور اس کا کیس سننے کے لئے کوئی کارنیلیس ہے نہ کوئی بھگوان داس۔ لہٰذا عدالت کا یہ فیصلہ کہ امداد علی کو جلد از جلد خدا کے پاس بھیج دیا جائے قرین انصاف ہے۔

“منصفو“ تم تو واقف ہو، کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ”جیل خانے“ پہ کیا گزری


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments