بھارت میں مطالعہ بھوت کے ڈگری یافتہ


دنیا میں سائنسی، معاشرتی، طبی اور نفسیاتی علوم کی کئی شاخیں ہیں۔ علم البشریات سے لے کر علم النباتات اور حیوانات تک دنیا کے ہر خطے میں ہمیں لوگ ان کے ماہر مل جاتے ہیں۔ آج بھی دنیا میں تحقیق کا سلسلا جاری ہے اور محض انسانی سیل (خلیے ) کو سمجھنے کے لیے ہزاروں کتابیں لکھی گئی ہیں۔

توہم پرستی، بھوت پریت اور جنات کے حوالے سے بھی ہر خطے کے اپنے اپنے عقائد ہیں۔ جادو ٹونے اور جھاڑ پھونک کے ذریعے علاج کرنا ہمارے ہاں تو عام سی بات ہے۔ ویسے بھی یہ ایک بہتر دلیل ہے کہ ہمارے ہاں ایک لکھاری اتنا نہیں کماتا جتنا ایک تعویذ لکھنے والا کماتا ہے۔ یہاں اسکول اور کالیجوں سے زیادہ درگاہیں آباد ہیں۔ آپ کسی کلب میں ڈانس کریں بدنام ہوجائیں گے لیکن کسی درگاہ پہ برہنہ ہوکر رقص کریں تو نہ صرف لوگ آپ کو سراہیں گے بلکہ کوئی پہنچی ہوئی ہستی سمجھ کر پوجا بھی کرنے لگیں گے اور ہو سکتا کہ مرنے کے بعد کوئی ایک آد درگاہ بھی بن جائے۔

ویسے دنیا آج بھی یہ مانتی ہے کہ سائنسی علوم کے بنا کوئی دنیاوی ترقی ممکن نہیں ہے مگر یہ بات وہی ذہن مانتے ہیں جو عقیدے کی بجائے سائنس پر یقین رکھتے ہیں۔ آج بھی دنیا میں ہمیں لاکھوں لوگ ایسے مل جائیں گے جوکہ سائنس کو رد کرتے ہیں اور وہ اوہام کی دنیا پہ پختہ یقین بھی رکھتے ہیں۔

آج بھارت مریخ اور چاند پر پڑاؤ کرنے کا سوچ رہا ہے، سائنسی علوم میں وہ دیگر ترقی یافتہ ممالک سے مقابلہ کرنے کو تیار ہے، حال ہی میں بھارت نے مشن چندریان۔ 2 کو چاند کی جانب روانہ کیا مگر وہ ناکام رہا۔ شاید اسی ناکامی سے دل برداشتہ ہو کر اب وہ یونیورسٹی میں علم الجنات کو شعبہ قائم کر رہ ہے۔

اس حوالے سے بنارس ہندو یونیورسٹی میں آئندہ سال جنوری سے چھ ماہ کا ایک کورس شروع ہو رہا ہے جس میں بھوت کا علاج کرنا سکھایا جائے گا۔ یعنی مطالعہ بھوت کا باقاعدہ آغاز کیا جائے گا۔

یونیورسٹی میں خصوصی طور پر ایک علیحدہ شعبہ ’بھوت ودی‘ یعنی گوسٹ اسٹڈیز قائم کیا گیا ہے جس میں ڈاکٹروں کو یہ سکھایا جائے گا کہ جو لوگ بھوت کو دیکھنے یا آسیب زدہ ہونے کا دعوا کرتے ہیں، ان کا علاج کیسے کیا جائے۔ حکام نے کہا کہ اس میں سائیکوسومیٹک یعنی نفسیاتی کیفیت جس سے جذباتی عوامل پیدا ہوتے ہیں، اس پر توجہ مرکوز کی جائے گی جسے عام طور پر غیر فطری عناصر سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کورس کو ہندو طریقہ علاج آیوروید میں شامل کیا گیا ہے جبکہ بھوت اور آسیب کو بہت جگہ توہم پرستی خیال کیا جاتا ہے۔

اب جب کوئی طالب علم یہاں سے چھ ماہ کا یہ کورس مکمل کرکے فارغ ہو گا، تو وہ ڈپلوما ان بھوتیولاجی یا پھر ڈپلومہ ان گھوسٹ اسٹیڈیز کے طور پر اپنا تعارف کرائے گا۔ ظاہر ہے ہم جس سماج میں رہتے ہیں وہاں لڑکے لڑکی کی ڈگری اس لیے بھی دیکھی جاتی ہے کہ رشتہ اچھا مل جائے۔ علم کا حصول ہمارے ہاں اور انڈیا میں بھی اچھا رشتہ مل جانے کی وجہ سے ہے ورنہ ہم نے کون سے ایڈیسن اور آئنسٹائن پیدا کرنے کے لیے بچوں کا پڑھانا ہے۔

فی الحال تو بھوت ودی یا گھوسٹ اسٹڈیز کا یہ کورس محض چھ ماہ تک ہی ہے مگر اس کی مدت بڑھ بھی سکتی ہے، اس میں بی ایس، ماسٹرز اور ایم فل سے پی ایچ ڈیز بھی ہوسکتی ہیں۔ یعنی انڈیا علم الجنات میں زیادہ سے زیادہ اسکالرز پیدا کرنے والا پہلا ملک بن جائے گا۔ اور اس طرح ان مریضوں کا علاج کیا جائے گا، جس کے وجود سے کوئی جن لپٹا ہوگا۔ اب یہ پتہ نہیں ہے کہ جو جن ان مریضوں کو تنگ کریں گے وہ ہندو ہوں گے یا کسی اور مذہب سے تعلق ہوگا۔

تصور کریں کسی بھوتیولاجی میں ایم اے یا پی ایچ ڈی لڑکے کا جب رشتہ کسی لڑکی سے ہونے والا ہوگا تو اس کا تعارف کیا ہوگا۔ اس کی امان بولے گی

”اجی ہمارا بیٹا بھوت ودی میں ایم اے ہے اور اس میں ایم فل کا ارادہ رکھتا ہے۔ اب تک کئی سؤ بھوتوں کا علاج کر چکا ہے۔ بچپن سے ہی اسے بھوت بہت پسند تھے، ہمیں بھوت بن کر بار بار ڈرایا کرتا تھا، اس کے ابا کی تو خواہش تھی کہ یہ وکیل بنے مگر اس کا شوق تھا کہ یہ بھوت ودی میں ہی اپنی پڑھائی کرے گا۔ آج کل تو گھوسٹ اسٹڈیز کا اتنا اسکوپ ہے کہ یونیورسٹی میں داخلا ملنا ہی مشکل ہو گیا ہے۔ ویسے آپ نے اپنی بیٹی کو بھوت ودی کا کورس تو کرایا ہے نہ؟ “

”جی بہن ہماری بیٹی بہت ہی سگھڑ ہے، بھوت ودی میں وہ بی اے ہے۔ آپ کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دے گی۔ “

اسی طرح آنے والے وقتوں میں بھود ودی کا رجحان دیگر علوم کو پہچھے چھوڑ جائے گا اور یہ بھوت پروفیشنلز بھوت بھگانے اور ان کا علاج کرنے کے لیے اپنے اپنے کلینکس میں نئے نئے کارنامے انجام دیں گے۔ یہ سفر درحقیقت سائنس سے توہم پرستی کا سفر ہے۔ جس کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ حال ہی میں انڈیا میں بی جے پی کے سب سے کم عمر رکن پارلیمان تیجسوی سوریا نے مبینہ طور پر گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے لیے ایک پوجا کی جس میں ایک سوامی جی نے دنیا کے نقشے پر پانی ڈال کر اسے ٹھنڈا کرنے کا دعوا کیا ہے۔

لیکن انڈیا میں نئے قائم ہونے والے اسے شعبے میں جتنے لوگ بھی داخلا لیں گے کیا انہیں اس بات کا اندازہ ہے کہ وہ ڈگری یافتہ انتر منتر والے بابے کہلائیں گے۔ کیوں کہ باقی تو بس وہی بابے رہ جائیں گے جنہوں نے بھوت اور جنوں کا علاج کرنے کے لیے کسی یونیورسٹی سے ڈگری نہیں لی ہے۔

اختر حفیظ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اختر حفیظ

اختر حفیظ سندھی زبان کے افسانہ نگار اور صحافی ہیں اور ایک سندھی روزنامے میں کام کر رہے ہیں۔

akhter-hafeez has 20 posts and counting.See all posts by akhter-hafeez

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments