کیا آپ انسان دوستی کے فلسفے سے واقف ہیں؟


انسان جب ’میں‘ سے ’ہم‘ کا سفر طے کرتے ہیں تو ان کے اندر گروہی شناخت جنم لیتی ہے۔ وہ خود کو کسی قبیلے ’کسی سماج اور کسی معاشرے کا حصہ سمجھنے لگتے ہیں۔ اس سوچ اورشناخت سے ان کے اندر تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ انہیں یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر انہیں یا ان کے خاندان کے کسی فرد کو کسی دشواری یا کسی پریشانی کا سامنا ہوگا تو اس قبیلے کے لوگ ان کی مدد کرنے آئیں گے۔ اس سے ان کے اندر سالمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ امن‘ سکون اور آشتی کے ساتھ زندگی گزارتے ہیں۔

یہ گروہی شناخت اور قبائلی سوچ کئی بنیادوں پر قائم ہو سکتی ہے۔ اس کی چند مثالیں حاضر ہیں

ہم پنجابی ہیں۔ زبان کی بنیاد پر
ہم پاکستانی ہیں۔ نیشنلزم کی بنیاد پر
ہم سنی ہیں۔ مسلک کی بنیاد پر
ہم مسلمان ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر
ہم مرد ہیں۔ جنس کی بنیاد پر
ہم مشرقی ہیں۔ کلچر کی بنیاد پر

گروہی شناخت اور قبائلی سوچ بذاتِ خود کوئی مسئلہ پیدا نہیں کرتے۔ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب کسی گروہ یا قبیلے کے لوگ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ دوسرے گروہوں اور قبیلوں سے بہتر ہیں۔ جب ان کے دلوں میں اپنے قبیلے کے لیے احساسِ برتری اور دوسرے قبیلوں کے لیے احساسِ کمتری پیدا ہوتا ہے تو ایسی سوچ انسانیت کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔

پھر یوں ہوتا ہے کہ

پنجابی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ پٹھانوں ’سندھیوں اور بلوچیوں سے بہتر ہیں
پاکستانی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ ہندوستانیوں اور بنگالیوں سے بہتر ہیں
سنی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ شیعہ ’اہل حدیث اور وہابیوں سے بہتر ہیں
مسلمان یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ عیسائیوں ’یہودیوں اور ہندوؤں سے بہتر ہیں۔
مرد یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ عورتوں سے بہتر ہیں
اور
مشرقی لوگ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ وہ مغربی لوگوں سے بہتر ہیں۔

اگر ایسے لوگ جو احساسِ برتری اور احساسِ تفاخر کا شکار ہوں حکومت میں آ جائیں تو وہ اس فرق کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ دوسرے گروہوں اور قبیلوں کے لیے زندگی مشکل بنا دیتے ہیں اور ان کا دائرہِ حیات تنگ کر دیتے ہیں۔ اس تعصب اور تفاخر کی سوچ کو ہم SUPREMACYکا نام دیتے ہیں۔ آج کے دور میں اس کی دو مثالیں امریکہ میں ڈونلڈ ترمپ کا WHITE SUPREMACY اور ہندوستان میں نرندر مودی کا HINDU SUPREMACYکا فلسفہ اور طرزِ حکومت ہیں۔

ایسے حکمران اور ان کے پیروکاراس فرق کو پہلے تضاد کا رنگ دیتے ہیں اور پھر اس تضاد سے فساد پیدا کرتے ہیں۔ اس تضاد اور فساد سے جنگ کا ماحول بنتا ہے چاہے یہ جنگ زبان سے ہو ’قوانین سے ہو یا توپوں اور بموں سے ہو۔ ایسی جنگ میں معصوم بچے عورتیں اورمرد مارے جاتے ہیں‘ خون بہتا ہے اور انسانیت کا قتل ہوتا ہے۔

جب کسی ملک یا معاشرے میں رنگ ’نسل‘ زبان یا مذہب کی بنیادوں پر جنگ کے آثار نمودار ہونے لگتے ہیں تو ایسی صورتِ حال میں انسان دوست ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ان تمام گروہوں اور قبیلوں میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ان کی انسانیت ہے۔

انسان دوستی کے فلسفے میں
نہ پنجابی پٹھانوں سے بہتر ہیں نہ پٹھان پنجابیوں سے
نہ پاکستانی ہندوستانیوں سے بہتر ہیں نہ ہندوستانی پاکستانیوں سے
نہ سنی شیعہ سے بہتر ہیں نہ شیعہ سنی سے
نہ مسلمان عیسائیوں سے بہتر ہیں نہ عیسائی مسلمانوں سے
نہ مرد عورتوں سے بہتر ہیں نہ عورتیں مردوں سے
نہ مشرقی لوگ مغربی لوگوں سے بہتر ہیں نہ مغربی لوگ مشرقی لوگوں سے

انسان دوستوں کا یہ موقف ہے کہ ہم سب ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ خاندان انسانوں کا خاندان ہے۔

انسان دوست اس حقیقت کا اقرار کرتے ہیں کہ ایک انسان کی کئی شناختیں ہو سکتی ہیں لیکن ان کے خیال میں انسان ہونے کی شناخت بنیادی اور باقی شناختیں ثانوی ہونی چائییں۔ اگر کسی انسان کی دو یا دو سے زیادہ شناختوں میں تضاد پیدا ہو جائے تو انسان دوست انسانیت کی شناخت کو مقدم رکھنا چاہتے ہیں۔

جب تک ہم انسان دوستی کے فلسفے کو نہیں اپنائیں گے ہم زبان ’مسلک‘ مذہب ’جنس اور کلچر کی بنیاد پر ایک دوسرے سے لڑتے رہیں گے‘ نفرت کرتے رہیں گے اور خون بہاتے رہیں گے۔

انسان دوست یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم اس کرہِ ارض پر امن قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کو ان کے گھروں ’سکولوں اور کالجوں میں یہ پڑھانا اور سکھانا ہوگا کہ کسی قبیلے یا گروہ کے انسان ہمارے دشمن نہیں ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کے رشتہ دار ہیں کیونکہ ہم سب ایک ہی دھرتی ماں کے بچے ہیں۔

انسان دوست دنیا کے ہر ملک میں ایسے قوانین بنانا چاہتے ہیں جن میں ملک کے تمام شہریوں کو ’جن میں عورتیں‘ بچے اور اقلیتیں بھی شامل ہیں ’برابر کے حقوق اور مراعات میسر ہوں گے‘ جہاں انصاف ہوگا ’مساوات ہوگی‘ برابری ہوگی اور عوام و خواص عزتِ نفس سے زندگی گزار سکیں گے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments