ایران امریکہ کشیدگی اور اثرات


جوں جوں انسان ترقی کی منازل طے کرتا جارہا ہے، حیوانیت کا پرچار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ہر جگہ اور خطے میں ہر انفرادی انسان اور اجتماعی معاشروں کی یہی کوشش پہلی ترجیحی بنتی چلی جارہی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ زور آور ہوں۔ طاقت ور ہونے کی بعد وہ اردگرد کے خطوں کو اپنے حکم کے تابع بنانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ ایک انسان اپنے جیسے دوسرے چلتے پھرتے انسان کی جان لینے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا۔ طاقت کے نشے میں مختلف ممالک کمزور ممالک کے لیے وبال جان بنتے چلے جارہے ہیں۔ ان ممالک میں پھر اس خواہش کا جنم ہوتا ہے کہ کمزور ممالک اپنے انتہائی ذاتی فیصلے بھی ان سے پوچھ کر کریں۔ دراصل ترقی کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا سے احساس جیسے رشتے ناپید ہوتے جارہے ہیں۔

امریکہ اور ایران کی کشیدگی پر روشنی ڈالنے سے پہلے خطے میں ان دونوں ممالک کے کردار کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے اور ایک بہت بڑی معیشت ہے۔  امریکہ یہ موقف رکھتا ہے کہ وہ خطے میں امن و امان قائم رکھنے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے اور اس ضمن میں وہ اپنا سرمایہ بھی خرچ کر رہا ہے۔ ایک عرصے سے امریکہ افغانستان میں بھی طالبان کے ساتھ بھی چپقلش جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ ابھی تک بھی قریب آدھا افغانستان طالبان کے پاس ہی ہے۔ اس طرح چند دوسرے ممالک میں بھی امریکہ ان اقدامات میں مصروف ہے۔

ایران کی بات کریں تو یہ ایک اسلامی ملک ہے جو شروع ہی سے اپنی مکمل خودمختاری کی پالیسی پہ عمل کیے ہوئے ہے۔ ایران بھی دنیا کی پہلی چودہ بڑی فوجی طاقتوں میں سے ایک ہے۔ ایران اور امریکہ ایک عرصے سے ایک دوسرے سے خفا ہیں۔

موجودہ صورتحال یہ ہے کہ ایرانی ہر دلعزیز جنرل قاسم سلیمانی ایران کے دارالحکومت تہران سے عراق پہنچتے ہیں۔ وہاں وہ کچھ لوگوں سے ملتے ہیں اور اس ک بعد انھیں ایک امریکی میزائل حملے میں شہید کر دیا جاتا ہے۔ ان کی شہادت کے ساتھ ہی خطے کے امن و امان کی صورتحال پر سوالیہ نشان لگتا نظر آتا ہے۔ مختلف مسلم ممالک بھی امریکہ کی اس حرکت پر غم و غصے کی اظہار کرتے ہیں۔ ایران کھلے اور ننگے الفاظ میں امریکہ کو دھمکی دیتا ہے۔

ایران واضح کرتا ہے کہ وہ جنرل کی شہادت کا بدلہ ہر صورت لے گا۔ امریکہ کو اس غلطی کی بہت بڑی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ ایران 2015 میں ہونے والا جوہری معاہدہ بھی توڑنے کا اعلان کرتا ہے۔ وہ عراق میں امریکی ائیر بیس پر میزائل حملے بھی کرتا ہے۔ عراق میں بھی یہ قرارداد منظور کی جاتی ہے کہ وہاں سے امریکی فوج واپس چلی جائے۔ دوسری طرف مائیک پومپیو بھی ایران کو کوئی بھی قدم اٹھانے سے خبردار کرتے ہیں۔ جبکہ امریکی صدر تو کھلے اور سخت الفاظ میں ایران کو جوابی دھمکی دیتے ہیں۔ امریکی صدر واضح کرتے ہیں کہ اگر ایران نے کوئی قدم اٹھانے کی کوشش کی تو امریکہ پہلے ہی اس کے باون مقامات پر حملہ کرنے کے لئے نظر رکھے ہوئے ہے۔

اگر اس ساری صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو خطے کا امن کھوتا نظر آتا ہے۔ جس انداز سے امریکی صدر نے دھمکی دی ہے اور اپنے ہتھیار اور ان کی طاقت گنوائی ہے وہ اس بات کی شاھد ہے۔ یہ ساری صورتحال ایک بڑی جنگ کی طرف اشارہ کررہی ہے۔ اگر جنگ ہوگی تو وہ بہت بڑی جنگ ہوگی جس میں صرف ایران اور امریکہ ہی نہیں ارد گرد کے ممالک بھی شدید متاثر ہوں گے۔ اس کا نقصان پاک بھارت جنگ سے کس قدر کم نہیں ہوگا۔ دیکھا جائے تو پورے خطے میں امن و امان کی صورت حال کا ستیاناس ہوا پڑا ہے۔ کئی پاک بھارت کشیدگی، افغان امریکہ مسائل اور اس قسم کے دوسرے مسائل خطے پر منڈلا رہے ہیں۔ بہرحال فی الوقت موجودہ صورتحال انتہائی گھمبیر نظر آرہی ہے۔ دیکھتے ہیں یہ گرجتے بادل برستے ہیں یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments