”بیانیہ والوں“ کو چانس ملا تو کپتان کیا کرے گا؟


ملک کی ”شہدائے بیانیہ“ سیاسی جماعتوں کو عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے کا ایک اور موقع مل جانے کا امکان ہے مگر یہی امکان ان کے لئے ایک کڑا امتحان بھی ثابت ہونے والا ہے۔ دوسری طرف امکانی صورتحال سے اگر کسی آئینی بحران نے جنم لیا تو برسر اقتدار ”لاڈلے“ اور اس کی کی حکومت کو بھی عبور کرنے کے لئے ”اک اور دریا“ کا سامنا ہو گا، اور اس بار ”کپتان“ شاید اس فیصلے پر عمل کر گزرے جو اس نے اچانک دو دن کی چھٹی پر چلے جانے پر کیا تھا۔

آرمی چیف کے لئے ”توسیعی“ قانون سازی کے حالیہ آپریشن میں ملک میں آج کی دونوں بڑی اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے ”بیانیوں“ کا وہ حشر کر کے رکھ دیا جو تجاوزات کے خلاف آپریشن میں زد میں آنے والی تعمیرات کا ہوتا ہے۔ یہ دونوں جماعتیں یعنی پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) جنرل (ر) پرویز مشرف کا دور حکومت نکال کر 1988 سے 2018 تک ملک پر بار بار راج کرتی چلی آئی ہیں لیکن پچھلے چند روزہ ”راج نیتی“ کے ان دونوں سٹیک ہولڈرز کے نام نہاد بیانیے اور قیادتیں ”نا معلوم بلڈوزروں“ کے ایک ہی جھٹکے سے پلک جھپکتے میں یوں دھڑام سے نیچے گری ہیں جیسے ”انسداد تجاوزات آپریشن“ میں مسمار کی جانے والی عمارتیں ڈھیر ہوتی ہیں حالانکہ سنجیدہ سیاسی حلقوں اور بالغ نظر تجزیہ کاروں کے مطابق یہ آپریشن جمہوری سسٹم میں خود ”ناجائز تجاوزات“ کرنے والوں نے کیا۔

مبصرین کہتے ہیں ”پارلیمنٹ میں تلاوت قرآن اور نعت پڑھے جانے میں جتنا وقت لگا، جمہوریت کی چیمپئن ان دونوں اپوزیشن جماعتوں کے اراکین نے ترمیمی بل کے حق میں ووٹ ڈالنے میں اتنا وقت بھی نہیں لیا“

حالیہ ”پارلیمانی آپریشن“ میں پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پیپلَز پارٹی کے ”بیانیوں“ کا جو حشر ہوا، اس موقع پر ان اپوزیشن جماعتوں کو اپنی غیرمعمولی ”خلائی تابعداری“ پر پارٹی کارکنوں، جمہوریت پسندوں اور عام ووٹروں کی طرف سے جس شدید ردّ عمل اور کڑی تنقید کا سامنا ہے اور عوام میں ان جماعتوں اور ان کی اعلیٰ قیادتوں کی ساکھ جس بری طرح مجروح ہوئی ہے اس کے مداوا، اپنی ساکھ اور عام ووٹرز، بالخصوص پارٹی کارکنوں کا اعتماد بحال کرنے کا ایک موقع ابھی انہیں ملنے والا ہے۔

سینیئر قانون دانوں کے مطابق پارلیمنٹ سے منظور ہو جانے والے سروسز ترمیمی ایکٹ پر صدر مملکت کے دستخط ہوتے ہی اسے عدالت میں چیلنج کردیا جائے گا اور سپریم کورٹ میں جب ایک بار پھر یہ کیس ”کھلے“ گا تو دیکھنا ہوگا کہ اس موقع پر مبینہ عسکری سیاسی آپریشن سے متاثرہ ان دونوں ”بڑی“ پارٹیوں کا کیا کردار رہتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ”ایکسٹنشن کیس“ گزشتہ دنوں جب پہلی بار عدالت میں ”کھلا“ تو پیپلز پارٹی اور ”نون لیگ“ دونوں جماعتوں نے اس پر معنی خیز چپ سادھے رکھی اور حیران کن حد تک لاتعلّقی اختیار کیے رکھی لیکن ان جماعتوں اور ان کی لیڈرشپ کو سروسز ترمیمی ایکٹ عدالتی جائزے کے لئے سپریم کورٹ میں زیر بحث آنے پر ایک اور موقع ملنے والا ہے۔ اب دیکھنا ہے کہ رائے عامہ کی نام نہاد ترجمان یہ پارٹیا‍ں اس موقع پر کیا مؤقف لیتی ہیں اور کیا کردار اپناتی ہیں۔

سنجیدہ سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ترمیمی ایکٹ سپریم کورٹ میں کسی نئے ”حادثے“ کا شکار ہو گیا تو ملک کو سنگین آئینی بحران کا سامنا ہوسکتا ہے، اور اس موقع پر دونوں بڑی ”اپوزیشن پارٹیوں“ کی طرف سے ”کردار“ کا مظاہرہ کرنے کی صورت میں ملک کا سیاسی منظر نامہ بدل سکتا ہے جبکہ ایسی صورتحال میں ”کپتان“ اسی طرح خود سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ لے سکتا ہے جیسے اس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو عدالت سے بیرون ملک جانے کی اجازت مل جانے پر وسط نومبر میں کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق اس وقت جب ”کپتان“ دو دن کی چھٹی لے کر بنی گالہ چلا گیا تھا، وزیراعظم نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ کرلیا تھا اور اس حوالے سے قوم کو اعتماد میں لینے کی غرض سے تقریر بھی لکھوا لی گئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments