پاکستانی فلموں کی ایک معتبر ترین شخصیت: عنایت حسین بھٹی


حافظِ قرآن – صوفی منش اور ہر دل عزیز – ریڈیو پاکستان کے پہلے پنجابی ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والے- درد مند دل اور ساری زندگی اپنے محسنوں کو یاد رکھنے والے – بھا گاں والیو نام جپو مولا نام، نام مولا نام – اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا – پاکستان کی پہلی سرائیکی فلم کے فلمساز – واحد پاکستانی مرد جو بیک وقت سُپر اسٹار پلے بیک سنگر اور اداکارتھے – فلمساز، گلوکار، اداکار اور ہدایتکارعنایت حسین بھٹّی – 12 جنوری 1923 سے 31 مئی 1999

٭٭٭     ٭٭٭

” میرے والد حافظِ قُرآن تھے۔ گلبرگ پولیس چوکی کے برابر ہمارا گھر تھا۔ رمضان میں اکثر چوکی والے میرے والد سے کہتے کہ بھٹی صاحب آپ سحری کے وقت جب تلاوت کرتے ہیں تو چوکی کی جانب والی کھڑکی کھول دیا کریں ہم بھی تلاوت سُن لیا کریں گے۔ 40 سال سے مسلسل رمضان میں ریڈیو پاکستان لاہور سے میرے والد صاحب کی آواز میں ریکارڈ کی ہو ئی عربی زبان میں نعت نشر ہو رہی ہے“۔ یہ بات مجھے عنایت حسین بھٹی کے صاحبزادے ندیم عباس نے بتلائی۔

ایک زمانے سے پاکستانی فلموں کا ایک معتبر نام، عنایت حسین بھٹی آپ اور ہم سنتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے گلوکاری سے اپنا فلمی سفر شروع کیا پھر اداکاری، فلمسازی اور ہدایتکاری بھی کی۔ میری خواہش تھی کہ اِن کے قریب ترین کسی فرد کو ڈھونڈ کر کچھ بات چیت کروں۔ وہ جو کہاوت ہے کہ ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے تو ایسا ہی ہوا۔ میری بھتیجی سارہ کے ہم جماعت عاطف کے ذریعے یہ خوہش پوری ہو گئی۔ وہ عنایت حسین بھٹی کے رشتے کے نواسے ہیں۔ اُس نے مشورہ دیا کہ میں لاہور میں اُس کے ماموں ندیم عباس سے بات کروں جو عنایت حسین بھٹی کے بیٹے ہیں۔ پھر اُس نے مجھے اُن کا رابطہ نمبر بھیجا اور یوں راستے کھلتے چلے گئے۔

عنایت حسین بھٹی 1923 میں گجرات میں پیدا ہوئے۔ 13 سال کی عمر میں والدہ سے کلامِ پاک ختم کیا۔ زمیندارہ کالج گجرات سے ایف اے کرنے کے بعد 1948 میں لاہور آ گئے۔ پنجابی زبان میں منشی فاضل کیا۔ پڑھنے کا بہت شوق تھا لہٰذا بتدریج بڑھتی ہوئی مصروفیات میں وقت نکال کر پرائیویٹ گریجویشن اور پھر اسلامیات میں ایم اے کیا۔ اِس کے علاوہ دینی مدارس سے بھی فارغ التحصیل ہوئے۔ اِس سب نے مِل کر ماشاء اللہ اُن کے اندازِ بیان اور بات کو عوام، خواص اور ہر مکتبہء فکر کے علماء کے لئے قابلِ قبول بنا دیا۔

لاہور آئے کچھ ہی عرصہ ہوا ہو گا جب وائی ایم سی اے ہال میں کسی تقریب میں انہوں نے گیت سُنائے۔ یہیں سے وسیلہ بنا اور وہ ریڈیو پاکستان لاہور جا پہنچے۔ اِن کی ملاقات موسیقار ماسٹر نیاز حسین شامی سے ہوئی اور ا ن کے ذریعے ریڈیو پر گیت و نغمے گانے کے مواقع ملنے لگے۔ گاہے بہ گاہے موسیقی کے ضروری اسباق بھی حاصل کیے۔ جب موقع دیا گیا ریڈیائی ڈراموں میں صدا کاری بھی کی۔ ایسے ہی ایک موقع پر مشہور براڈکاسٹر رفیع پیر زادہ المعروف رفیع پیرنے اُنہیں اپنے ڈرامے ”اکھیاں“ میں ہیرو کا کردار دیا۔

” اکھیاں“، پنجابی زبان میں ریڈیو سے نشر ہونے والا پہلا ڈرامہ ہے جِس کا مرکزی کردار ادا کرنے کا اعزاز عنایت حسین بھٹی کو حاصل ہوا۔ یہ بھی عجب اتفاق ہے کہ آخر عمر میں خود رفیع پیر کی اپنی آنکھوں کی بینائی جاتی رہی۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے آخری ڈرامہ پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز کے لئے اپنے بچوں کو املا کروا کر لکھوایا۔

1949 میں عنایت حسین بھٹی کی قسمت کا تارہ اُفق پر طلوع ہوا۔ ماسٹر شامی نے اِن کی ملاقات غلام محمد چشتی سے کروائی۔ یہ فلمساز، ہدایتکار اور اداکار نذیر احمد خان المعروف باؤ جی کی فلم ”پھیرے“ ( 1949 ) کی دھنیں بنا رہے تھے۔ انہوں نے مذکورہ فلم کے کچھ گیتوں کی پیشکش کر دی۔ بس یہیں سے قسمت اور لکشمی دونوں دیویاں عنایت حسین بھٹی کے ساتھ ہولیں۔ اِس فلم میں اُن کے گانے بے حد مقبول ہوئے۔ عنایت حسین بھٹی پاکستان بننے کے بعد پہلے سُپر اسٹار پلے بیک سنگر ہیں۔ پھر نذیر صاحب ہی کی فلم

” شہری بابو ’‘ ( 1953 ) عنایت حسین بھٹی کے فلمی سفر میں بہت مبارک ثابت ہوئی۔ فلم کی کہانی بابا عالم سیاہ پوشؔ کی تھی اور موسیقار رشید عطرے جبکہ معاون اُن کے بھانجے صفدر حسین تھے جنہوں نے آگے چل کر فلمی موسیقاروں کی صف میں اپنا نام پیدا کیا۔ اِن پر ایک منظر میں خود ان ہی کی آواز میں باباعالم سیاہ پوشؔکا لکھا ہوا فقیرانہ گیت فلمایا گیا تھا:“ بھا گاں والیو نام جپو مولا نام، نام مولا نام۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ”۔ اِس گیت نے عنایت حسین بھٹی کے لئے کامیابیوں کے دروازے کھول دیے۔ پھرشبابؔ کیرانوی نے 1955 میں اُردو فلم

” جلن“ میں انہیں ہیرو کے کردار میں لیا۔ اسی سال فلمساز و ہدایتکار نذیر نے پنجابی فلم ”ہیر“ میں انہیں اپنے وقت کی نامور ہیروئن سورن لتا کے بالمقابل ہیرو کا کردار دیا۔ عنایت حسین بھٹی کے اس تعارف کے بعد واپس اُس گفتگو کی جانب چلتے ہیں جو پچھلے دنوں لاہور میں ایک خوش نصیب شام ندیم عباس بھٹی سے ہوئی۔ اس نشست کی خاص خاص باتیں پڑھنے والوں کے لئے پیشِ خدمت ہیں :

” موسیقی میں میرے والد کے بس ایک ہی اُستاد ہیں، موسیقار نیاز حسین شامی۔ یہ ریڈیو پاکستان لاہور میں ہوتے تھے۔ اِن کی معرفت ہی والد کی بابا چشتی سے ملاقات ہوئی“۔ اپنے والد کے کتاب بینی کے شوق سے متعلق کہا: ”ا ن کو مذہبی کتابیں پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ تقابلی تجزیہ کے لئے اسلامی کتب کے ساتھ ساتھ انجیلِ مقدس، گیتا، بدھ مت اور دیگر ادیان کی کتابیں پڑھتے تھے۔ اِس کے علاوہ ادب اور دیگر موضوعات پر بہت سی کتابیں زیرِ مطالعہ رہتی تھیں“۔

عنایت حسین بھٹی کے مزاج سے متعلق پوچھنے پر بتایا : ”وہ مذہبی تو تھے لیکن سخت اور بے لچک بالکل بھی نہیں تھے۔ شاذ و نادر اگرکبھی والد ہم سے ناراض ہوتے تو ہم والدہ کے پیچھے چھُپ جاتے“۔ اُن کے بارے میں مشہور تھا کہ آخری زمانے میں اُن پر صوفی خیالات و رحجان غالب آ گئے تھے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ندیم نے کہا:

” والد صاحب نے فلمساز کی حیثیت سے جو پہلی فلم بنائی وہ“ وارث شاہ ” ( 1964 ) تھی۔ اس کے ڈائریکٹر ایس اے اشرفی تھے۔ یہ ہمارے ماموں تھے۔ چچا کیفی اس فلم میں معاون ہدایتکارتھے۔ لوگوں میں یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ والد صاحب عمر کے آخری حصے میں صوفی ازم سے متاثر ہوئے حالاں کہ اِن کی تو فلمساز کی حیثیت سے پہلی ہی فلم صوفی شاعر کی زندگی پر مبنی تھی۔ میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ اگر حکومت تھوڑا سا بھی تعاوُن کرتی تومیں کمرشل فلمیں کبھی نہ بنا تا ’‘ ۔

فلمسازی کے سفر کے ذکر کو جاری رکھتے ہوئے ندیم عباس نے بتایا: ”اگلی فلم“ مونہہ زو ر ” ( 1966 ) کے ہدایتکارچچا کیفی تھے۔ ہماری تمام فلموں کی کہانیاں بامقصد اور سبق آموز ہوتی تھیں۔ جیسے چچا کیفی کی ہدایت میں دوسری فلم“ چَن مکھناں ” ( 1968 ) جوئے کے خلاف تھی۔ یہ ہمارے ادارے بھٹی پکچرز کی پہلی گولڈن جوبلی فلم بھی ہے۔ اس فلم کے ٹائٹل میں فلمساز کا نام میرا یعنی ندیم عباس ہے۔ موسیقار بابا جی اے چشتی، کہانی اور گیت نگار حزیں ؔ قادری تھے۔ اِن فلموں میں چچا نے اداکاری نہیں کی تھی“۔ اپنے چچا کیفی کے فلموں میں آنے کی کہانی بیا ن کرتے ہوئے کہا:

” ہماری فلم“ سجن پیارا ” ( 1968 ) میں اداکار حبیب نے مرکزی کردار ادا کرنا تھا لیکن معاوضے پر بات نہیں بن سکی۔ اِس فلم کے ہدایتکار چچا خود تھے۔ تب طے ہوا کہ وہ کردار چچا کیفی سے کروایا جائے اوریہ کردار ہِٹ گیا“۔ یہ بھٹی پکچرز کی اُس سال یعنی 1968 میں دوسری گولڈن جوبلی فلم تھی۔ اس فلم میں کیفی کے علاوہ مُنیر ظریف کو بھی پہلی دفعہ پردہ سیمیں پر پیش کیا گیا۔ اِس فلم میں معاون ہدایتکار حسن عسکری تھے۔ انہوں نے آگے چل کر خود بڑا نام کمایا۔ ”اس فلم کے ٹائٹل میں بھی بطور فلمساز میرا نام ڈالا گیا۔ موسیقار بابا جی اے چشتی

، کہانی اور گیت حزیں ؔقادری نے لکھے۔ اِن دو گولڈن جوبلی فلموں کی وجہ سے دیگر فلمساز بھی چچا کو بطور ہدایتکار اور اداکار لینے لگے ”۔ چچا کے بھتیجوں سے پیار اور شفقت کے بارے میں کہا:“ چچا کیفی میری اور وسیم کی بہت حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب کہ والد کی طرف سے ہم کو فلم اسٹوڈیو میں داخل ہونے کی ممانعت تھی۔ والد اور چچا کیفی کی عمروں میں 14۔ سال کا فرق تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ ہمارے ساتھ دوست کی طرح رہتے تھے۔ ہم چچا کیفی سے ”اجازت“ اور ”پیسے“ لے کر کابل تفریحاً جایا کرتے۔ ہم سے والد صاحب صرف پڑھائی کی توقع رکھتے تھے۔ اُن کی خواہش تھی کہ وسیم آرمی اور میں ہوائی فوج میں جاؤں۔ یا سی ایس ایس کر کے سول سروس میں جاؤں یا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے باہر جاؤں۔ میں نے الیکٹرانکس میں برطانیہ سے ڈپلومہ لیا ”۔

اپنی فلمسازی سے متعلق بتایا: ”میں کافی عرصے سے کاغذوں، فلم ٹائٹل اور پوسٹر کی حد تک فلمساز تھا۔ پھر بالآخر میں نے بھی ایک فلم پروڈیوس کرلی۔ فلم کا نام“ جَٹ ماجے دا ”تھا۔ فلم ابھی زیرِ تکمیل ہی تھی کہ فلم کے ہیرو اقبال حسن 14 نومبر 1984 کو ملتان روڈ پر اداکار اسلم پرویز کے ہمراہ ایک حادثہ میں فوت ہو گئے۔ میں اور والد صاحب اقبال حسن کے سوئم میں ان کے گھر جا رہے تھے۔ میں گاڑی چلا رہا تھا۔ باتوں باتوں میں کہیں میرے مونہہ سے یہ نکل گیا کہ فلم کے ہیرو کے گزر جانے سے ہمارا اتنے پیسوں کا نقصان ہو گیا۔

والد صاحب نے یہ سُن کر کہا کہ گاڑی ایک طرف روک دو۔ پھر آرام سے پوچھا کہ ہمارا کتنا نقصان ہوا ہو گا۔ میں نے کہا اتنے پیسوں کا۔ اِس پر والد صاحب نے کہا بڑا افسوس ہوا کہ تمہاری سوچ بہت چھوٹی ہے۔ تُم اپنے اِس معمولی نقصان کو لئے بیٹھے ہو۔ ذرا اُن سے جا کر پوچھو جِن کے سر سے باپ کا سایہ اُٹھ گیا یا جِن کا بھائی اور شوہر اب نہیں رہا۔ یقین کیجئے میں شرمندگی سے زمین میں گڑ گیا۔ میرا بس چلتا تو گاڑی سے اُتر کر دور بھاگ جاتا ”۔

اپنے ماموں اشرفی کے ذکر پر انہوں نے ایک دلچسپ واقعہ سنایا: ”جب فلم“ ہیر رانجھا ” ( 1970 ) کی تدوین کا وقت آیا تو فلم کے ہدایتکار مسعود پرویز، سید شوکت حسین رضوی کے پاس گئے کہ اس فلم کا آغاز کیسے ہو؟ اِس پر شاہ صاحب نے تجویز دی کہ جاؤ ایس اے اشرفی سے پوچھو اُن کوتصوف پر دسترس ہے۔ شاہ صاحب کو ہماری فلم“ وارث شاہ ”کا علم تھا۔ یہ شاہ نور اسٹوڈیو میں ہی بنی تھی۔ تب وہ ماموں اشرفی کے پاس آئے۔ قصہ مختصر یہ کہ پھر ماموں نے جو بتایا وہی بالآخر فلم کا آغاز رکھا گیا۔ یہ بات ہمیں تدوین کارضمیر قمر نے بتائی جو اُ س فلم کے تدوین کار تھے اور ہماری فلموں کی بھی تدوین وہی کرتے تھے۔ “۔

” 1996 اور 1997 میں، میں نے والد صاحب کے تقسیم کار دفتر میں بیٹھنا شروع کیا۔ وہ اپنی مصروفیات کی بنا پر یہاں جَم کر نہیں بیٹھ سکتے تھے۔ مثلاًابھی فیصل آباد سے آئے ہیں تو رات کو پارا چنار مجلس پڑھنے جا رہے ہیں۔ میں نے 20 سال یہ خاندانی دفتر چلایا۔ والد صاحب نے نصیحت کی تھی کہ میں نے جو بھی کھانا ہے وہی سب دفتر والوں کو بھی کھلانا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اورایک ہی جگہ کھانا ہے! “۔

ایک سوال کے جواب میں ندیم عباس نے یہ دلچسپ حقائق بتلائے : ”مجھے والد صاحب اکثر کہا کرتے تھے۔ ایک یہ کہ بابا چشتی جب بھی دفتر میں آئیں تو اُن سے حد درجہ عزت و احترام سے پیش آنا۔ کیوں کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے جو بھی دیا ہے وہ بابا جی کے ذر یعے سے ملا ہے۔ زمانے پہلے فلمساز و ہدایتکار نذیر نے بابا چشتی سے میرے آڈیشن کے بعد پوچھا تھا :“ یہ لڑکا کیسا ہے؟ ’‘ تو بابا نے جواب دیا تھا : ”ضرورت سے زیادہ اچھا ہے۔ دوسرا یہ کہ جب طفیل ؔہوشیار پوری دفتر آئیں تو اِن کی توقیر میں کوئی کمی نہ آنے پائے۔ کیوں کہ میرا پہچان مِلّی نغمہ انہوں نے لکھا تھا:

اللہ اکبر اللہ اکبر

اللہ کی رحمت کا سایہ توحید کا پرچم لہرایا

اے مردِ مجاہد جاگ ذرا اب وقتِ شہادت ہے آیا

فلم : ”چنگیز خان“ ( 1958 ) موسیقار: رشید عطرے

” تیسرے یہ کہ اگر تم نے کسی کو ایک دفعہ زبان دے دی تو پھر اُس پر قائم رہنا خواہ دوسری پارٹی پہلی سے زیادہ پیسے کی پیشکش کرے“۔

بابا چشتی کے ساتھ

” میری دادی ٹی بی کی متاثرہ تھیں۔ والد صاحب نے گلاب دیوی اسپتال میں ری ہیب کا ایک وارڈ بنوایا۔ وہ جب تک حیات رہے اِس اسپتال کے لئے کچھ نہ کچھ کرتے ہی رہے“۔ باتوں باتو ں میں ندیم نے ایک دلچسپ بات بتائی: ”والد صاحب کے دوست میاں محمد مُنشی جو میاں فرزند علی، لکی ایرانی سرکس والے کے بڑے بھائی ہیں، مسجد بنانا چاہتے تھے۔ میرے والد صاحب نے کہا کہ مساجد تو آس پاس اور بھی ہیں تُم کسی اسپتال میں ایک وارڈ بنو ا دو۔

تب میاں محمد مُنشی نے سوچا کیوں نہ میں ایک اسپتال ہی بنوالوں۔ تب پھر انہوں نے اُس اچھے زمانے میں 40 لاکھ روپے خرچ کر کے منشی اسپتال بنایا۔ یہ بات میاں صاحب نے دلدار پرویز بھٹی کے پروگرام ”ٹاکرہ“ اور طارق عزیز کے پروگرام ”نیلام گھر“ میں بھی کہی۔ اورمیاں صاحب نے کمال کیا کہ ایک روپیہ بھی کسی سے عطیہ نہیں لیا ”۔

عنایت حسین بھٹی کے لئے اُن کے والدین کی کیا اہمیت تھی؟ اِس کے جواب میں ندیم عباس نے بتایا: ”1971 میں میری دادی فوت ہوئیں اور ضیاء دور میں دادا۔ میرے والد ہر نماز میں اپنے والدین کے لئے دو دو نفل پڑھتے۔ جہاں دادی بیٹھا کرتی تھیں، اُن کے انتقال کے بعد والد صاحب وہاں سے کبھی جوتوں، حتٰی کہ ننگے پاؤں بھی نہیں گزرتے تھے۔ اُس گھر میں والد صاحب کے پوتے پوتیاں /نواسے نواسیاں آتے تو مجھ سے کہتے کہ دیکھ لینا دادا /نانا اِس جگہ سے کبھی نہیں گزریں گے۔ اور ہمیشہ ایسا ہی ہوا۔ دادی کی زندگی میں اور اُن کے انتقال کے بعد بھی جب والد صاحب لاہور سے باہر سفر پر جاتے تو اپنے اٹیچی میں اپنی والدہ کی جوتی رکھ کر جاتے ’‘ ۔ والدہ سے ایسی عقیدت! اللہ اللہ!

” مجھے کچھ زیادہ محنت نہیں کرنا پڑی۔ ہر چیز پہلے سے ہی موجود تھی گھر اور دفتر دونوں جگہ۔ آج جو کچھ بھی میرے پاس ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ گاڑی مکان، تن کے کپڑے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب میرے والد صاحب کے طفیل ہے“۔ سعادت مند باپ کے سعادت مند بیٹے نے انکساری سے کہا۔ عنایت حسین بھٹی کی مہان نوازی پر ندیم عباس نے کہا۔ : ”جب والد صاحب گھر میں ہوتے تو روزانہ ہمارے گھر پچاس پچاس اور سو سو افراد آیا جایا کرتے۔ اِن میں ملک معراج خالد اور حنیف رامے کی سطح کے لوگوں کے ساتھ ساتھ چھابڑی لگانے والے بھی ہوتے۔ مزے کی بات یہ کہ سب کا ایک ہی دعویٰ تھا کہ بھٹی صاحب میرے دوست ہیں“۔ غالباً یہی ہر دل عزیزی کہلاتی ہے۔

” طبیعت کے بے حد سادا تھے۔ ایک دفعہ وہ کسی کی دعوت پر گوجرانوالہ گئے۔ کھانا کھانے سے پہلے والد صاحب نے بیساختہ کہا :“ تمہارا گھر تو ماشاء اللہ کافی بڑا ہے ”۔ اس پر اُس غریب نے کہا :“ نہیں یہ میرا گھر نہیں! میں ایک معمولی گھر میں رہتا ہوں۔ محض آپ کی دعوت کے لئے آپ کے شایانِ شان گھر میں یہ دعوت رکھی ”۔ اِس پر والد صاحب نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لیا اور کہا کہ میں تو تمہارے گھر میں ہی کھاؤں گا۔ تب پھر دعوت کا انتظام اُس کے گھرمیں منتقل کر دیا گیا“۔

عام طور پر مادام نورجہاں کے بارے ایک تاثر تھا کہ اُن کے ساتھ چلنا ایک ٹیڑھی کھیر ہے۔ لیکن یہاں یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے۔ ندیم عباس نے بتایا: ”مادام نورجہاں اور میرے والد کی ہموار، خوش گوار دوستی اور رفاقت تھی۔ نورجہاں فلمی پس پردہ گلوکاروں کی انجمن کی سرپرست اور میرے والد تا حیات چیئرمین تھے“۔

عنایت حسین بھٹی نے سیاسی میدان میں بھی ز ور آزمائی کی۔ 1970 میں پاکستان پیپلزپارٹی کا ظہور ہوا تو عنایت حسین بھٹی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ 1977 اور 1988 کے انتخابات میں انہوں نے بہ حیثیت مقرر بھی اپنا سکہ جما دیا۔ تنظیمی اور انتظامی صلاحیت کی بنیاد پر 1980 کی دہائی میں پارٹی کے کلچرل وِنگ کے سیکریٹری بنا دیے گئے۔ لیکن سال بھر بعد اپنی دیگر گوناں گو مصروفیات کی بنا پر اس عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ 1985 کے انتخابات میں انہوں نے NA 95 سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑالیکن معمولی فرق سے ہار گئے۔ اِس کے کچھ عرصے بعد انہوں نے سردار محمد عبدالقیوم کی آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس میں شمولیت اختیار کر لی۔

پاکستان ٹیلی وژن لاہور مرکز سے 1990 کی دہائی میں دستاویزی پروگرام ”اُجالا“ شروع کیا۔ اولیا اللہ، صوفی شعراء اور بزرگانِ دین سے متعلق اِس مقبول پروگرام کی میزبانی وہ خود کرتے تھے۔ اِس پروگرام کو پیش کرنے والے قیصر علی شاہ کو بہترین مذہبی پروگرام کا پی ٹی وی ایوارڈ حاصل ہوا۔ یہ پروگرام تین چار سال چلا۔ اس پروگرام کا اسکرپٹ وہ خود لکھتے تھے ”۔

جنگِ ستمبر 1965 کا تذکرہ جب اور جہاں بھی ہو گاعنایت حسین بھٹی کے بغیر ادھورا ہو گا۔ جنگ شروع تھی۔ ریڈیو پاکستان سے صدر ایوب نے قوم سے دفاعی فنڈ کے لئے عطیات کی اپیل کر رکھی تھی۔ مستند حوالوں سے معلوم ہوا کہ بھٹی صاحب نے اپنی بیگم سے کہا کہ جو کچھ نقدی اور زیور موجود ہے وہ سب عطیہ کر دو۔ اُن کی بیگم نے کہا کہ ضرورت کے لئے کچھ رکھ لیں کیوں کہ جنگ طول پکڑ گئی تو پھر کیاہو گا؟ اِس پر عنایت حسین بھٹّی نے یہ تاریخی جملہ کہا: ”اگر خدانخواستہ ملک ہی نہ رہا تو پھر کیا ہو گا؟ “۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں! عنایت حسین بھٹی کے تذکروں میں یہ بات ملتی ہے۔ اب تو ندیم عباس نے بھی اس بات کی تصدیق کر دی۔

اِن کی بنائی ہوئی پہلی فلم ”وارث شاہ“، وارث شاہ کی زندگی اور ان کے کام کے بارے میں تھی۔ اِن کی دوسری فلم ” مونہہ زور“ پہلی فلم کی طرح کامیاب نہ ہو سکی۔ مگر تیسری فلم ”چَن مکھناں“ باکس آفس پر بہت کامیاب رہی۔ اِس کے بعد

” سجّن پیارا“، ”جِند جان“، ”دنیا مطلب دی“، ”عشق دیوانہ“ اور ”ظُلم دا بدلہ“ نے کامیابی کے ریکارڈ قائم کر کے عنایت حسین بھٹی کو پنجابی فلموں کا سُپر اسٹار بنوا دیا۔ عنایت حسین بھٹی وہ واحد پاکستانی مرد اداکار اور گلوکار ہیں جو بیک وقت سُپر اسٹار پلے بیک سنگر اور اداکار ہوئے۔ برِ صغیر پاک و ہند میں اب تک محض 3 ہی ایسے افراد ہوئے ہیں جو بیک وقت سُپر اسٹار گلوکار اور اداکار تھے : ایک مادام نورجہاں دوسرے عنایت حسین بھٹی اور تیسرے بھارت کے آنجہانی کشور کُمار۔

باقی کئی ایک اور ہیں لیکن وہ اِس درجے تک نہ پہنچ سکے۔ عنایت حسین بھٹی نے تین عدد سرائیکی فلمیں بھی بنائیں اور ان میں اداکاری اور ہدایتکاری بھی کی۔ اِن کی تمام فلموں کی کہانیوں میں سماجی بیماریوں کی نشاندہی کی گئی۔ انہوں نے 30 سال فلموں میں کام کیا اور اپنے ادارے بھٹی پکچرز کے لئے 30 فلمیں بنائیں۔ عنایت حسین بھٹی اور اُن کے چھوٹے بھائی کیفی ( 1943 سے 13 مارچ 2009 ) نے اکٹھے 24 سے زیادہ فلموں میں اداکاری کی۔ عنایت حسین بھٹی نے مجموعی طور پر تقریباً 300 فلموں میں کام کیا۔ اسی طرح تقریباَ َ 500 فلموں کے لئے انہوں نے اُردو، پنجابی، سندھی اور سرائیکی زبانوں میں 2500 گیت ریکارڈ کروائے۔ اِن میں غیر فلمی گیت بھی شامل ہیں۔

انہوں نے روزنامہ پاکستان میں ”چیلنج“ کے نام سے ایک عرصے با قاعدگی سے کالم نگاری بھی کی۔ ان کے شائع شدہ کالموں کو پروفیسر ظہیر کنجاہی اور احسان فیصل کنجاہی نے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔

۔ ۔

عنایت حسین بھٹی کو ملنے والے اعزازات:

نگار ایوارڈ برائے بہترین فلم سال 1968 ”چَن مکھناں“۔ عنایت حسین بھٹی کو 1970 کی دہائی کے وسط میں پنجاب پریس کلب کی تا حیات اعزازی ممبر شپ دی گئی۔ پرنس کریم آغا خان اور سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو کے بعد وہ تیسرے فرد ہیں جنہیں یہ اعزاز ملا۔ عنایت حسین بھٹی کی انسانی اور سماجی خدمات کو دیکھتے ہوئے پاکستان میڈیکل اسو سی ایشن نے 1974 میں نشتر میڈیکل کالج ملتان میں منعقدہ ایک تقریب میں انہیں میڈیکل کالج کا نشان دیا۔

برِ صغیر پاک و ہند میں یہ واحد مثال ہے کہ طِب سے غیر وابستہ کسی بھی شخص کو یہ نشان مِلا ہو۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اسپتال میں مریضوں کے ساتھ دور دراز مقامات سے ساتھ آنے والو ں کے لئے انہوں نے بغیر کسی ذاتی تشہیر کے اللہ کے نام پر ایک بڑا ہال تعمیر کروایا تھا۔ 1976 میں گراموفون کمپنی آ ف پاکستان ای ایم آئی کی جانب سے کمپنی سے اپنی رفاقت کی سلور جوبلی ہونے کے موقع پر عنایت حسین بھٹی کو سِلور ڈِسک پیش کی گئی۔

اِن کے گائے ہوئے ملّی گیت ”اللہ اکبر“ کو مسلح افواج کے فوجی بینڈ نے ترانہ بنایا جسے طفیلؔ ہوشیارپوری نے لکھا اور موسیقار رشید عطرے نے طرز بنائی تھی۔ حکومتِ سندھ کی جانب سے بھی اِس ملّی نغمے پر انہیں گولڈ میڈل دیا گیا تھا۔ پروفیسر موہن سنگھ فاؤنڈیشن امرتسر نے 1997 میں ایک شیلڈ اور ایک تمغے سے نوازا۔ عنایت حسین بھٹی کے انتقال کے بعد مذکو رہ بالا فاؤنڈیشن نے انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے ”عنایت حسین بھٹی میموریل ایوارڈ“ قائم کیا۔ اس سلسلے کا پہلا ایوارڈ 2001 میں جسبیر جَسّی گورداسپوریا کو لدھیانہ میں دیا گیا۔

ندیم عباس بھٹی

عنایت حسین بھٹی کے گائے ہوئے کچھ مشہور فلمی گیت:

’ جگر چھلنی ہے دل گھبرا رہا ہے، محبت کا جنازہ جا رہا ہے‘ ، ا یور ریڈی پکچرز کی سلور جوبلی فلم ”عشقِ لیلیٰ“ ( 1957 ) ۔ یہ پاکستان کے پہلے سُپر اسٹار گلوکار عنایت حسین بھٹی کی سب سے بڑی اور کامیاب ترین اُردو فلم ہے۔ اِس فلم کے تذکروں میں یہ بات ملتی ہے کہ اِس میں 18 گیت تھے۔ اِس تعداد کے گیت اور کسی فلم میں نہیں ہوئے۔ مزے کی بات یہ کہ ریڈیو پاکستان اور عوامی اجتماع کے مقامات پر اس فلم کے بیشتر گراموفون ریکارڈ خاصے مقبول ہوئے۔

فلم میں سین کی مناسبت سے اِن گراموفون ریکارڈوں کے علاوہ عنایت حسین بھٹی کی آواز میں شعر اور قطعات بھی ہیں۔ گیت نگار قتیلؔ شفائی اور موسیقار صفدر حسین تھے۔ ’قدم بڑھاؤ ساتھیو قدم بڑھاؤ ساتھیو قدم بڑھاؤ، تم وطن کے شیر ہو شیر ہو دلیر ہو، تم اگر جھپٹ پڑو تو آسمان بھی ڈھیر ہو‘ ، آئرین پروین اور ساتھیوں کے ساتھ کورس، سلور جوبلی فلم

” سلطنت ’‘ ( 1960 ) یہ ملی نغمہ قتیلؔ شفائی نے لکھا اور موسیقی بابا جی اے چشتی نے دی۔ ’اؤ چن میرے مکھناں کہ ہَس کر اِ ک پَل ایدر تکنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘ ، بھٹی پکچرز کی گولڈن جوبلی فلم“ چَن مکھناں ” ( 1968 ) اِس فلم کے ہدایتکار کیفی اور فلمساز ندیم عباس بھٹی ہیں۔ ماشاء اللہ اپنے والد کی طرح نہایت ہی ملنسار اور دل سے خوش آمدید کہنے والے ہیں۔ حزیں ؔ قادری کے اِس گیت کی طرز بابا چشتی نے بنائی۔ اِس گیت کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ آج تک اصل گیت ریڈیو پاکستان سے سُنوایا جاتا ہے۔

’دنیا مطلب دی او یار، مطلب ہووے تے پیار وی کردے ظالم دنیا دار‘ ، بھٹی پکچرز کی گولڈن جوبلی فلم ”دنیا مطلب دی“ ( 1970 ) اِس فلم کے فلمساز وسیم عباس اور ہدایتکار وسیم اور ندیم عباس بھٹی کے ماموں ایس اے اشرفی تھے۔ اِس فلم کا اسکرین پلے ہدایتکار اور اداکار کیفی نے لکھا۔ گیت حزیں ؔ قادری کے اور موسیقار ایم اشرف تھے۔ ’زُلف دا کُنڈَل کھُلّے نہ اکھ دا کجّل ڈُلّے نہ، دِل لَتھے یا سولی چَڑھئیے بھید پیار دا کھُلّے نہ‘ ، فلمساز و ہدایتکار حسن طارق کی فلم ”ڈھُول جوانیاں مانے“ ( 1972 ) کا یہ سدا بہار گیت آج بھی اُتنا ہی مقبول ہے جتنا اُس دور میں تھا۔

یُو ٹیوب پر اِس گیت کو چھبیس لاکھ افراد نے دیکھا ہے۔ یہ گیت حزیں ؔ قادری کا اورموسیقی نذیر علی کی تھی۔ ’ایویں پھج پھگ رُس بَینا، سیانیاں دا کہنا، نی ہُندا ای حرام سوھنیئے‘ بھٹی پکچرز کی جانب سے فلمساز ندیم عباس کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ”ظُلم دا بدلا“ ( 1972 ) ہدایتکار کیفی، موسیقار بخشی وزیر اور گیت نازش کاشمیری کا تھا۔ موسیقار بخشی وزیر کا نام اور کام خود ایک تحقیق طلب موضوع ہے۔ موسیقار بخشی وزیر کے تقریباً تمام فلمی گیتوں میں اُن کی مخصوص چھاپ بہت واضح محسوس ہوتی ہے لیکن نہ جانے کیوں پاکستانی فلمی صنعت نے اِن سے بہت ہی کم کام لیا۔ ’میڈا عشق وی تُوں ایمان وی تُوں‘ میڈا جِسم وی تُوں جِند جان وی تُوں ’ندیم پکچرز کی پہلی پاکستانی سرائیکی فلم ” دھیاں نمانیاں“ ( 1973 ) کلام خواجہ غُلام فرید اور طرزماسٹر عاشق حسین نے بنائی۔ اِس فلم کے فلمساز، ہدایتکار اور ہیرو خود عنایت حسین بھٹی تھے۔ عنایت حسین بھٹی کی آخری فلم ”عشق روگ“ ( 1989 ) تھی جِس میں یہ مہمان اداکار تھے۔

پاکستانی فلمی صنعت میں ایسی ہمہ جہت شخصیت ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے گی۔ جس کی زندگی کا ہر رُخ شاندار رہا۔ بطور بیٹا، باپ، سماجی کارکُن اور بھرپور محبت کی عکّاس غیر فلمی شخصیت کسی طرح بھی فلمی شخصیت سے کم نہیں۔ اللہ اِن کے مرقَد پر نُور کی بارش کرے۔ آمین!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments