لانگ لیو، سیونٹی سیکنڈ پی ایم اے لانگ کورس!


فوجی میسوں کے اندر تقریبات، بالخصوص عشائیے، متانت ووقاراور نظم وترتیب کا دلکش مگر تکلف بھرا امتزاج ہوتی ہیں۔ ڈنر نائٹس (Dinner Nights) قدیم آداب و روایات کے تحت برپا کی جاتی ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں آمد کے پہلے ہی روز ’زیرو کٹ‘ حجامت کے علاوہ نووارد کیڈٹس کو جن آفات سے فوری واسطہ پڑتا ہے ان میں میس اور بالخصوص ٹیبل مینرز (Manners) سرفہرست ہیں۔ اکیڈمی میں پہلی ہی رات شہری، دیہاتی اور مختلف معاشی ومعاشرتی پس منظر کے حامل کیڈٹس کو ٹائیاں لگا کر ان کے ہاتھوں میں چھری کانٹے تھما دیے جاتے ہیں۔

آج کل تو کئی ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی اپنے نوجوان ایگزیکٹوز کے لئے ان بظاہر معمولی معاملات کی باقاعدہ تربیت کا اہتمام کرتی ہیں۔ پاکستان ملٹری اکیڈمی میں مگر مختلف مواقع پر پہنے جانے والے مخصوص ڈریسز کے علاوہ میس میں کھانے پینے اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب روز اوّل سے ہی تربیت کا باقاعدہ حصہ رہے ہیں۔ کیڈٹس کے لئے اوپر تلے ڈنر نائٹس منعقد کی جاتی ہے کہ جن میں ’پراپر‘ (Proper) لباس، مہمان خصوصی کے استقبال، اینٹی روم میں گفتگو (Conversation) کے علاوہ کھانے کی میز کے آداب سے لے کر مجلس کی برخواستگی تک کے معاملات کا احاطہ کیا جاتا ہے۔ دوسالہ تربیت کے بعد پاس آؤٹ ہونے والے کیڈٹس سے توقع کی جاتی ہے کہ بنیادی عسکری امور کے علاوہ افسرز میسز میں قیام و طعام کے دوران ’کسٹمز آف سروس‘ نامی کتابچہ میں رقم جملہ آداب بشمول کھانے کے دوران کٹلری اور کراکری کے درست اور بغیر آواز پیدا کیے استعمال میں بھی کامل مہارت کا مظاہرہ کریں گے۔

کسی بھی فوجی میس میں فارمل (Formal) تقریب کا ماحول غیر معمولی متانت و یکسانیت کا شکار اور بالعموم اکتا دینے والا ہوتا ہے۔ چنانچہ عشائیے کی کوئی بھی ایسی دعوت کہ جو کسی ’مہمانِ خصوصی‘ کے گرد گھومتی ہو، اسے ’دعوت‘ سے زیادہ ’ڈیوٹی‘ کے طور پر لیا جاتا ہے۔ مہمان خصوصی جو کہ بالعموم ایک سینئر افسر ہوتے ہیں، کی آمد سے قبل شرکاء میس کے اینٹی روم میں دھیمی آوازوں سے باہم گفتگو میں خود کو مصروف رکھتے ہیں۔

مہمان خصوصی کی آمد کے کچھ ہی دیر بعد میس حوالدار باوقار عسکری انداز میں مہمان خصوصی کو کھانے کی دعوت دیتا ہے۔ تمام شرکاء خاموشی کے ساتھ مختص کردہ میز پر اپنی اپنی کرسی کے عقب میں خاموشی سے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ مہمان خصوصی کے تشریف فرما ہوتے ہی شرکاء بھی بیٹھ جاتے ہیں۔ ویٹر ترتیب سے میزوں پر کھانا چنتے ہیں۔ مہمان خصوصی کھانا شروع کرتے ہیں تو ہی سب چھری کانٹے کو ہاتھ ڈالتے ہیں۔ مہمان خصوصی کے کھانا ختم کرتے ہی سن رسیدہ ویٹرز شرکاء کی پلیٹیں اٹھانے کو خاموشی سے بڑھے چلے آتے ہیں۔

موقع کی مناسب سے اگر تقریر کی ضرورت ہو اس سے نمٹ کر مہمان خصوصی ہال سے باہر تشریف لے جاتے ہیں۔ مہمان خصوصی کی رخصتی کے ساتھ ساتھ ہی شرکاء اپنی میس کٹ (Mess Kit) کی کالر کا ہک یا لاؤنج سوٹ کی ٹائیاں ڈھیلی کرتے ہوئے سگریٹ سلگا کر اطمینان کا سانس بھرتے ہیں۔ یہ عمومی منظر کشی یونٹ لیول عشائیے سے لے کر ان تمام ایسی تقریبات کا احاطہ کرتی ہے کہ جہاں فارمیشن کمانڈر خود شریک ہوں۔ یقینا کسی سروس چیف یا چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی موجودگی میں برپا کی جانے والی کوئی بھی ایسی تقریب کہیں بڑھ کر رکھ رکھاؤ اور پروٹوکول کی متقاضی ہوتی ہے۔

ایک عشائیہ کی تقریب گزشتہ پیر کو چکلالہ کینٹ کے آرٹلری افسر میس میں بھی برپا ہوئی کہ جس میں کراچی کے کور کمانڈر کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بنفس نفیس جلوہ افروز تھے۔ متعدد میجر جنرلز، بریگیڈیئرز کے علاوہ سو ڈیڑھ سو کے قریب کرنل اور میجر صاحبان اپنی اپنی بیگمات کے ہمراہ رونق افروز تھے۔ انواح و اقسام کے رینکس، عہدوں، مہارت، تجربہ اور حلئے کے حامل ان حضرات میں واحد قدر مشترک ان سب کا ہم عمر ہونا تھا۔ یہ سب 72 پی ایم اے لانگ کورس کے ’اولڈ بوائز‘ تھے کہ جو ایک دوسرے کے کی آنکھوں کے سامنے بوڑھے ہورہے ہیں۔ ترپن پچپن کے پھیرے میں آج یہ اپنے ایک کورس میٹ کی فوج کے اعلیٰ ترین عہدے پر تعیناتی کی خوشی منانے چلے آئے تھے۔

چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی طرف سے جاری کردہ دعوتی کارڈ میں شرکاء کی آمد کا وقت 7 بجے درج تھا۔ مجال ہے کہ جے سی بی کی ’حیدرکمپنی‘ کے علاوہ کوئی دیے گئے وقت پر پہنچا ہو۔ آرمی میس کے اندر کسی ایسی تقریب میں کہ جہاں ایک کور کمانڈر کے علاوہ خود افواج پاکستان کا سب سے بڑا عہدیدار جلوہ افروز ہو، شرکاء کے لئے مناسب لباس (Proper Dress) کے بغیر شرکت کا سوچنا بھی محال ہے۔ اس تقریب میں مگر چند ایک کے سوا ا کثریت کھلے کالروں میں پائی گئی۔

میس کا سٹاف جو عام حالات میں شائستگی کے ساتھ ایسوں کو میس کے مرکزی دروازے پر ہی روک دیتا، آج خاموشی کے ساتھ آنے جانے والوں کو ایک دوسرے سے والہانہ بغلگیر ہوتے دیکھ رہا تھا۔ ایڑھیوں پر اٹھ اٹھ کر گلے ملنے والوں میں اکثریت ان کی تھی جن کی توندیں گزرتے سالوں میں خود ان سے کہیں آگے نکل چکی ہیں۔ کئی شرکاء کہ چالیس سال قبل جن کی مسیں نہیں بھیگی تھیں، ان کے رخساروں پر اب گھنی لمبی چاندی بھری داڑھیاں تھیں۔

ضیغم حفیظ جابجا ’فرطِ جذبات‘ سے مغلوب ان داڑھیوں کو ہی چومتا پھر رہا تھا۔ گلگت سے کراچی تک ملک کے طول وعرض سے 72 لانگ کورس والے اس چھت کے نیچے جمع تھے۔ فائض جنود امریکہ سے آیا تھا۔ میں نے ذاتی طور پر حامد، عمران خالد اور زبیر جھارے کی کمی محسوس کی۔ چیئرمین اور کور کمانڈر کراچی خاموشی کے ساتھ بیٹھے ’اولڈ بوائز‘ کو ایک دوسرے سے لپٹنے، چومتے، مخصوص ناموں سے پکارتے، دیکھتے اور مسکراتے رہے۔ کورس کے صدر جنرل شہزاد نے روسٹرم پر سے حاضرین کو اپنی نشستوں پر بیٹھنے کی متعدد بار تلقین کی تو کہیں تقریب کا آغازہوا۔

مختصر خطابات کے بعد حاضرین کو ڈائننگ ہال تشریف لے جانے کو کہا گیا۔ جا بجا ترتیب سے سجی گول میزوں پر جس کو جہاں جگہ ملی بیٹھ گیا۔ یہاں سب برابر تھے۔ کھانے کے روایتی آداب و تکلفات ہوا ہوئے۔ کھانے کے دوران بھی اٹھ اٹھ کر گلے ملنے اور کسی بھی نئے چہرے پر نگاہ پڑتے ہی پی ایم اے دور کے ناموں سے با آوازِ بلند ایک دوسرے کو پکارنے کا سلسلہ جاری رہا۔ کھانے کے بعد ہال کے اطراف آراستہ بڑی بڑی سکرینوں پر ایک ویڈیو چلائی گئی جو کہ پی ایم اے دور کی منتخب کردہ تصویروں پر مشتمل تھی۔

ان تصویروں میں سال 1983 ء کے موسم خزاں سے ستمبر 1985 ء تک کے عرصے کے دوران پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں زیر تربیت 72 لانگ کورس کے کیڈٹس کے جان گسل تربیتی مراحل کے علاوہ کچھ خوشگوار لمحوں کو بھی قید کیا گیا تھا۔ دبلے پتلے نوجوانوں کے شاداب چہرے سکرین پر ایک کے بعد ایک کرکے ابھرتے چلے گئے اوروسیع و عریض ڈائینگ ہال ہر چہرے سے جڑے پی ایم اے نیم (Name) اور قہقہوں سے گونجتا رہا۔ حاکم جویا کا چہرہ سکرین پرنمودار ہوا تو ’ہاکو، ہاکو‘ کے نعرے مخصوص ردھم سے بلند ہوئے۔ اکثر افسردہ رہنے والے چہرے بھی آج لڑکپن سے منسوب تمازت میں تمتما رہے تھے۔

نامور سارنگی نواز استاد رئیس نے دل موہ لینے والی دھنیں بکھیر کر ماحول گرما یا۔

رات گئے میس سے نکلتے ہوئے دل میں اک عجب آرزو نے انگڑائی لی کہ کہیں سے وہی متروک جی ٹی ایس کی لال بس کہ جس پرچار عشروں قبل سوار ہو کرمیں لاہور سے ایبٹ آباد پہنچا تھا، نمودار ہو اور مجھے ایک بار پھر سرسبز پہاڑوں میں گھرے فسٹ پاک بٹالیں کے اسی کمپنی آفس کے سامنے لے جا کر اتار دے کہ جہاں سے ستمبر کی اُس شام 72 لانگ کورس کے ان رفیقوں کے ساتھ میری طویل رفاقت کا آغاز ہوا تھا۔ انہی ’اولڈ بوائز‘ کے ساتھ زندگی کو ایک بار پھر سے، بالکل ویسے ہی جینے کی تمنّا لئے میں گھر کو لوٹ آیا۔

آل دا بیسٹ جنرل ندیم رضا۔ لانگ لیو سیونٹی سیکنڈ پی ایم اے لانگ کورس!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments