دیہات کا سادہ تمدن اور بنیادی انسانی ضروریات


زمانہ طالبعلمی میں جب سکول اور کالج میں دیہاتی اور شہری زندگی پر مضمون لکھنے کو کہا جاتا تو میں ایک شعر خصوصا ً لکھتی

واہ رے دیہات کے سادہ تمدن کی بہار
سادگی میں بھی ہے کیا کیا تیرا دامن زرنگار

اس وقت تک کبھی کسی گاؤں کی شکل نہیں دیکھی تھی۔ کبھی کسی گاؤں میں رہنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اس لئے صرف یاد کر کے لکھ دیتی تھی۔ ایک بات پر ضرور مصر ہوتی کہ دیہاتیوں کو سادہ کہنا گویا خود سادگی کی توہین ہے۔ وہ سادہ نہیں بہت عیار اور چالاک ہوتے ہیں۔ یہ تو تھی میری اپنی سادگی ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ دیہاتی واقعی سادہ ہیں۔ وہاں طرزِ زندگی سادہ ہے۔ وہاں کا تمدن سادہ ہے۔

میری رائے یونہی نہیں بدلی۔ خود ایک دیہات میں زندگی گزارنے کا موقع ملا تو یہاں کے لوگوں کو اور یہاں کی زندگی کو سمجھ پائی۔ پچھلے ایک سال سے میں ایک دیہات میں مقیم ہوں۔ شادی کے بعد ایک گاؤں ہی میرا ٹھکانہ ہے۔ ازدواجی زندگی کے خوبصورت شب وروز یہیں گزار رہی ہوں۔ اکثر یہاں سے شہر منتقل ہونے کے منصوبے بھی دل ہی دل میں بناتی ہوں۔ جن کی بھنک کبھی کبھی میاں کو بھی پڑ جاتی ہے۔ تو انہیں دلائل دینے پڑتے ہیں۔ جن میں سے سب سے پہلی دلیل تو یہ ہوتی ہے کہ یہ کوئی زندگی ہے۔ جس میں اپنے گھر کا کچرا اور کوڑا پھینکنے بھی خود جانا پڑتا ہے۔ جہاں کوئی خاکروب نہیں جمعدار نہیں۔ شہر میں تو ہم سو روپیہ مہینے کا دیتے تھے اور خود بے نیاز ہو جاتے تھے۔ یہاں استانیاں اور چودھرائنیں خود ایک دوسری سے منہ چھپا کر اپنا اپنا گند مرکزی گھورے پر پھینکنے جاتی ہیں۔

ایک دن ایک استانی صاحبہ کہنے لگیں رات کو میں چادر میں منہ لپیٹ کر کوڑا پھنکنے گئی تو مس انجم بھی اسی وقت وہاں پہنچیں۔ مگر وہ مجھ سے منہ چھپا رہی تھیں اور میں ان سے۔ چلیں جناب گھروں کا کچرا تو ہم پھینک آتے ہیں۔ گلیوں کی صفائی کون کرے گا؟ کیا دیہاتوں میں گلیوں کی صفائی ضروری نہیں ہوتی؟ کیا وہاں ڈینگی کا خدشہ نہیں ہوتا؟

گلیوں کی صفائی تو ایک طرف وہاں تو گلیاں ہی ساری کچی ہیں۔ ذرا سی بارش سے ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ۔ گھر سے باہر نکلنا محال۔ گلیوں میں چلنا محال۔ نکاسی آب کا بھی کوئی بندوبست نہیں۔ ہر دوسری گلی گندے نالے کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

یہاں پر گیس نہیں ہے۔ شہروں میں دو دن گیس نہ آئے تو لوگ جلوس نکال لیتے ہیں۔ ٹی وی اور خبروں کی شہ سرخی یہی ہوتی ہے کہ گھروں کے چولہے سرد۔ شہریوں کو مہنگے داموں گیس کے سلنڈر لانے پڑ رہے ہیں۔ اس کمر توڑ مہنگائی میں ان پر ایک اور بوجھ۔ کیا دیہاتی انسان نہیں ان کے پاس تو یہ سہولت ہے ہی نہیں۔ وہ تو گیس کے بغیر ہی جئے جا رہے ہیں۔ کبھی انہیں بھی شہ سرخیوں میں جگہ دی جائے۔ بجلی جائے تو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے نہیں آتی۔ کوئی سوال اٹھانے والا نہیں کوئی پرسانِ حال نہیں۔

کتنی مشکل ہے یہ زندگی جس میں ہمیں چھلنی کی ضرورت پڑے تو وہ بھی خریدنے شہر جانا پڑتا ہے۔ یہاں کوئی شاپنگ مال نہیں۔ خریدو فروخت کے مراکز نہیں۔ ہر گاؤں میں ہفتے میں کسی ایک دن ایک چھوٹا سا بازار سجایا جاتا ہے۔ جہاں سے آپ کو وہ اشیا مل جاتی ہیں جو شہروں میں چھوٹے چھوٹے پلاسٹک سٹورز پر دستیاب ہوتی ہیں۔ حصول ِ تعلیم کے لئے بھی بچوں کو چلتی بسوں کے پیچھے اور چھتوں پر چڑھتے دیکھتی ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ بعض اوقات کوئی نوجوان یہ سٹنٹ کرتا ہوا موت کے منہ میں بھی چلا جاتا ہے۔ پیچھے آہ زاریوں کے سوا کچھ نہیں بچتا۔

ڈاکٹر نام کی بھی کوئی مخلوق یہاں نہیں ملتی۔ عام دنوں میں تو بندہ کسی نہ کسی طرح شہری ہسپتالوں میں پہنچ جاتا ہے مگر ہنگامی صورتحال میں کیا کیا جائے؟ زچگی کے دوران عورتیں کہاں جائیں؟ یہ ہے میری اور میرے جیسے دیہاتیوں کی زندگی جو واقعی سادہ ہے۔ جسے دیکھ کر واقعی یہ کہنے کو جی چاہتا ہے

واہ رے دیہات کے سادہ تمدن کی بہار

سادگی میں بھی کیا کیا تیرا دامن زر نگار

اگر ساری دیہی آبادی نے شہروں کا رخ کر لیا تو شہری کہاں جائیں گے؟ کھیتی باڑی کون کرے گا؟ اناج کہاں سے آئے گا؟ اس لئے خدارا دیہاتوں کو بسا رہنے دیں۔ دیہاتیوں کو بھی انسان سمجھیں۔ ضروری انسانی سہولتوں تک ان کی رسائی آسان بنائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments