خاموشی کی زبان


پاکستان تو بنتے ہی ہائی جیک ہو گیا اور انڈیا کو ہائی جیک ہونے میں 28 سال لگے۔ بابری مسجد کے واقعے نے انڈیا کو بھی پاکستان کے ساتھ لا کر کھڑا کر دیا۔ اس وقت کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ چوٹی سے کھسکا یہ ایک سنگریزہ کیسے برف کا طوفان لائے گا مگر سنگریزہ کھسکانے والوں کو بخوبی اندازہ تھا۔

انڈیا کی آزادی کی تحریک میں طلبا اور نوجوانوں کا کردار بہت اہم تھا اور تحریک پاکستان میں علی گڑھ کے طلبا کا کردار تو کوئی بھی نہیں بھلا سکتا۔ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا ہی بنگلہ دیش کی تحریک آزادی کو لے کر چلے اور ان ہی کی وجہ سے بنگلہ دیش بنا۔

جب سچ بولنے کی ٹھان ہی لی ہے تو افغان جہاد میں پنجاب یونیورسٹی کے کردار، بلکہ روس کے ٹوٹنے میں پنجاب یونیورسٹی کے کردار کو بھی تاریخ کبھی فراموش نہیں کر پائے گی۔

تاریخ کے یہ چیدہ چیدہ سبق فراموش کر کے انڈیا میں آج پھر طلبا کی طاقت کو للکارا گیا ہے۔ کئی ماہ پہلے جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں فیسوں میں اضافے کے خلاف احتجاج شروع ہوا۔

اس احتجاج ہی کا کچھ رنگ ہم نے فیض فیسٹول کے باہر پاکستانی طلبا کے لال لال لہرانے کے نعروں میں دیکھا۔ یہ ہی احتجاج بڑھ کر شہریت کے بل کی منظوری کے خلاف ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا اور آج جے این یو، سیکولر انڈیا اور انقلاب کا استعارہ بنا ہوا ہے۔

تقریباً ایک ماہ سے جاری اس احتجاج سے ہمیں یہ نظر آ رہا ہے کہ بے شک انڈیا بھی وقتی طور پر ہائی جیک ہو گیا تھا مگر وہاں کے طلبا نے ہار نہ مانی۔ زمانہ انٹرنیٹ کا ہے، یہاں کی خبر وہاں اور وہاں کی خبر یہاں سیکنڈوں میں پہنچتی ہے۔

انڈیا

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں احتجاج بھی جاری ہے اور ساتھ کے ساتھ فیض اور جالب کے ترانے بھی۔ یہ ہی نہیں وہ لوگ پولیس کو دیکھ کر نعرے بھی لگاتے ہیں کہ ’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے۔‘

امیت شاہ لاجپت نگر پہنچے تو ایک بالکنی سے کسی نے بستر کی چادر لٹکائی، جس پہ شہریت بل کے خلاف احتجاج درج تھا۔ بعد ازاں اس خاتون کو مالک مکان نے گھر سے نکال دیا مگر وہ اپنے حصے کی شمع روشن کر چکی ہیں۔

تاریکی ادھر بھی بہت ہے۔ ’لال لال لہرائے گا‘ گانے والی پاکستانی طالبہ کو نوکری سے نکال دیا گیا۔ کہتے ہیں سٹیٹس تو بہت ظالم ہوتا ہے مگر لطف ہی ظالم سے ٹکر لینے میں ہے۔

ہمارے ملک میں پچھلے دنوں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ خوب اچھلا۔

ہنسی اس وقت آئی جب یہ بل اپوزیشن کے سامنے آیا تو سب نے دھڑا دھڑ دستخط کر دیے۔ کسی بالکونی سے کوئی چادر نہ لٹکائی گئی، کسی کھڑکی سے ’میں نہیں مانتا‘ کا نعرہ نہیں سنائی دیا، کسی گلی میں کوئی یہ کہتا ہوا نہیں دوڑا کہ ’یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا‘، نہ ہی کسی آنچل پہ ’آ میری جان انقلاب‘ لکھا نظر آیا۔ سب کے سب سوشل میڈیا پہ ہی ایک دوسرے کو طعنے دیتے نظر آئے کہ تو بک گیا، تو بک گیا۔ حالانکہ ہم سب تو بے دام کے غلام ہیں۔

اس وقت سب کے ذہن میں ایک ہی مصرعہ گھوم رہا تھا، ’سچ اچھا، پر اس کے لیے کوئی اور مرے تو اور اچھا۔‘

سچ کے لیے بہت لوگ مرے اور امر ہو گئے۔ پھر لوگوں نے سچ بولنا چھوڑ دیا۔ حیرت کی بات یہ کہ موت پھر بھی آئی، مگر ہوا صرف اتنا کہ اب لوگ صرف مرتے ہیں، مر کے امر نہیں ہوتے۔

انڈیا

کشمیر کو زندان بنے کئی مہینے گزر گئے ہیں اور یہاں سب خاموش ہیں۔ وہاں بولنے والے بولتے رہے اور آج ان کی آوازوں سے انڈیا گونج رہا ہے۔ فخر محسوس ہوتا ہے۔ گو ہم گونگے ہو چکے ہیں مگر جب ہم میں کچھ بولنے والے موجود تھے تب کے نعرے،ان کے منھ سے سن کے خوشی ہوتی ہے۔ خوشی ہوتی ہے کہ سچ کے لیے مرنے والے کہیں تو باقی ہیں۔

ہاں ایک خبر اور سنی۔ گیارہ برس پہلے چھپنے والا محمد حنیف کے ناول کے ترجمے کی کاپیاں، نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے۔ دو چار لوگوں نے سوشل میڈیا پہ مذمت کی اور معاملہ غتربود ہوا۔ کتابیں کیا کیں؟ کیا کتاب بین کی گئی؟ اگر نہیں تو کیا یہ کتاب مزید چھپے گی یا نہیں؟

ہم سے پوچھا نہ گیا، ان سے بتایا نہ گیا۔ ایک بار پھر ہم خاموشی سے سرحد پار سے آنے والے نعروں پہ کان لگا کر بیٹھ گئے۔ یہ بے حسی بے وجہ نہیں ہے۔ اس کے پیچھے، ستر برسوں کی ان تھک کوششیں ہیں۔ سالہا سال ہمارے لکھنے والے، بولنے والے، لکھتے رہے اور بولتے رہے۔ دو نسلیں، چلاتی رہیں، پکارتی رہیں۔ پھر ہم بے حس ہو گئے۔

انڈیا

قوموں کی اجتماعی نفسیات میں ایک عجیب شے پائی جاتی ہے۔ جب کسی قوم کے لوگ بولنے والوں کی آواز پہ کان دھرنا چھوڑ دیتے ہیں تو پہلے تو ایک ایسی ہی بےحسی طاری ہوتی ہے جیسی ہم پہ طاری ہے، پھر آہستہ آہستہ اس قوم میں بولنے والے پیدا ہونا ختم ہو جاتے ہیں اور ایک خاموشی طاری ہو جاتی ہے پھر اس خاموشی میں ایک کان پھاڑ دینے والا دھماکہ سنائی دیتا ہے اور وہ قوم تباہ ہو جاتی ہے۔

سناٹا تو بہت ہے مگر آوازیں ابھی سنائی دے رہی ہیں، چاہے سرحد کے اس طرف سے اٹھنے والے نعرے ہوں چاہے اس طرف کی سر گوشیاں۔ ڈر اس وقت سے لگتا ہے جب کامل سناٹا چھا جائے گا تب خاموش کرانے والے چاہیں گے بھی تو کوئی نہیں بولے گا کیونکہ بولنا سکھانا آسان نہیں۔ انسان نے کتنی صدیوں میں بولنا سیکھا ہے۔ ایک خاموش انسان سے زیادہ خوفناک شے کوئی نہیں اگر ہے تو ایک خاموش قوم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).