اسلامی نظریاتی کونسل سے جھگڑا کیوں؟


اسلامی نظریاتی کونسل ایک آئینی ادارہ ہے جو پاکستان میں نظریہ اسلام کی دائمی حیات، اسلام کی نظریاتی سرحد کا محافظ ہے۔ ادارے کے قومی امو ر یہ ہیں کہ وہ قوانین میں غیر اسلامی شقوں پر حکومت پاکستان کو مشورے دے، اور حکومت پاکستان کی قوانین کے باب میں اسلامی اصولوں کی راہنمائی کرے، کیوں کہ پاکستان کے آئین میں یہ بات واضح طور پر لکھی ہوئی ہے کہ ملک میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت کے احکام کے منافی رائج نہیں کیا جائے گا، اور یہ کہ اگر کوئی قانون قرآن و سنت سے متصادم ہوا تو اسے اسلامی سانچے میں ڈھال کر جب تک اسے اسلامی نہیں بنایا جائے گا تب تک وہ قوانین لاگو نہیں ہوں گے۔

اسلامی نظریاتی کونسل کی ذمہ داریوں میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ موجودہ قوانین پر گہری نظر رکھے، بلکہ کونسل کو حق حاصل ہے کہ سابقہ قوانین میں اگرغیر اسلامی شقوں میں ترمیمات کی گنجائش موجود ہو تو انہیں بھی تبدیل کروانے کی سفارش کرے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اسلامی نظریاتی کونسل ایک مشاورتی کمیٹی ہے جس کا کام صرف حکومت کو مشورہ دینا ہے۔ قوانین پر عمل درآمد کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے اور وہی جواب دہ ہے۔ لہذا اسلامی نظریاتی کونسل کو سب وشتم کے نشانے پر رکھ لینا قرین انصاف نہیں ہے۔

وفاقی وزیر سائنس و ٹیکنالوجی فواد حسین چودھری کا اسلامی نظریاتی کونسل کے قیام پر سوال اٹھانا دراصل پاکستان کے متفقہ آئین پر شکوک شبہات پید اکرنے کے مترادف ہیں۔ یہ کسی فرد واحد کا مسئلہ نہیں لگتا، اس کے پیچھے ایک کھیپ اور پوری ٹیم کام کررہی ہے جس کا مقصد پاکستان میں سیکولرذہنیت کو باقی رکھنا بلکہ اسے اسلامی نظریات کے خلاف کرنا اور قومی اداروں کے وجود سے متنفر کرنا ہے۔ تاکہ ملک میں ایسے اداروں کے قیام کی ناگزیریت کا خاتمہ کیا جاسکے۔

وجہ صاف ہے کہ اتنے اہم ادارے کا سربراہ اسلامی ذہن رکھنے والا پڑھا لکھا لگایا جاتا ہے، بلکہ اس کے ارکان میں جن مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کو متعین کیا جاتا ہے وہ اپنے علم میں مقبول و معروف شخصیات ہوتی ہیں۔ کونسل کے موجودہ چیئر مین جناب قبلہ ایاز صاحب ایک ممتاز علمی شخصیت ہیں جو ایم اے اسلامیات ہونے کے ساتھ برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی سے مشرق وسطی کی تاریخ و سیاست میں پی ایچ ڈی ہیں۔ لہذا وزیر موصوف کو جاننا چاہیے امور ریاست کے اہم ترین عہدے پر رہتے ہوئے ملک کے آئینی اسلامی ادارے کے وجود کو لایعنی قرار دینا ان کے اپنے بیانیے ریاست مدینہ کے خلاف ہے۔

اگر کسی کو اسلامی نظریاتی کونسل کے نیب قوانین میں سقم کے بارے قو م کو آگاہ کرنے سے پیٹ میں مروڑ اٹھا ہو یا نیب کے تصور احتساب کو اسلام کے تصور احتساب کے منافی قرار دینے سے سر چکرایا ہو تو اس میں اسلامی نظریاتی کونسل کا کیا قصور ہے؟ یہ تو اس ادارے کی آئینی ذمہ داری ہے جو اس نے احسن طریقے سے کسی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیے بغیر بروقت ادا کی۔ کونسل کے ایسے اقدام پر تو حکومت کی طرف سے تھپکی، شاباشی ملنی چاہیے تھی اور اس کی مجوزہ سفارشات کو متفقہ طور پر کھلے دل سے قبول کی سند دینی چاہیے تھی۔

لیکن ہوتا کیا ہے کہ ایک ٹویٹ داغ دیا جاتا ہے کہ : ”اسلامی ں نظریاتی کونسل کی تشکیل کی ضرورت ہی کیا ہے؟ کونسل کی کارکردگی غیر سنجیدہ اور کونسل سے مذہبی طبقات کو اسلامی راہنمائی نہیں مل رہی اس لیے اس پر کروڑوں روپے خرچ کرنا سمجھ سے بالاتر ہے“۔ اگرواقعی ایسا ہے، جیسا کہ وزیر موصوف کی اسلامی نظریاتی کونسل کے بارے میں رائے ہے تو سائنس و ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں اس اہم ترین منصب پر بھی حکومت یاکسی غیر متعصب شخص کو لگائے یا پھر وزیر موصوف صاحب اپنی وزارت پر توجہ دے کر کم از کم سائنس کے میدان میں ہی کوئی قابل قدر کارنامہ انجام دے دیں، کیوں کہ علوم شرعیہ تو جناب کو پسند نہیں ہیں۔

ملک کے آئینی اداروں کے بارے میں سستی شہرت کے لیے ذاتی رائے قائم کرلینا اور پھر اسے میڈیا میں اچھال دیناملک کے مفاد میں درست نہیں۔ اس سے آئینی ادارے پر الزام تراشیاں کرکے اسلام کے تشخص کو نقصان پہنچانا مقصود ہے۔ ان کا بس چلے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان سے لفظ ”اسلامی“ نکال باہر کریں۔ سیکولر ذہنیت کی دلدل میں دھنسا ہوا یہ طبقہ ایک خاص ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوشاں ہے۔ اس کی ہر ممکن کو شش ہے کہ ملک کی فضا ایسی بنائی جائے کہ جس سے عمومی تصور ایسا بن جائے کہ اہم ترین اسلامی اداروں پر عوام کو شک میں مبتلا کر دیا جائے۔ جیسا کہ اس سے پہلے رویت ہلال کمیٹی بارے میں اچھے خاصے مخاصمانہ حالات پیدا کردیے گئے تھے۔ اسی طرح مدارس دینیہ کے نظام کے بارے میں کثیر تعداد ایسی ذہنیت کی موجود ہے جو اس نظام کی تبدیلی کی آڑ میں اسے مکمل ختم کرنے کے درپے ہے۔ لہذا اسلامی نظریاتی کونسل سے جھگڑا کوئی نیا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments