قمبر کی بیبی باگڑی اور معصوم ہندو طلبا و طالبات


بیبی باگڑی سندھ کے چھوٹے سے شہر قمبر میں رہتی ہے۔ باگڑی بہت ہی پسماندہ ہندو طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ سندھ کے اکثر علاقوں میں باگڑی قبیلے کے مرد، عورتیں اور بچے بھیک مانگنے نظر آتے ہیں۔ بیبی اپنے شہر کی پہلی باگڑی لڑکی ہے جس نے سماجی تفریق کے باوجود بہت مشکل حالات میں تعلیم حاصل کی اور پھر اس نے باگڑی قبیلے کے بچوں کو تعلیم دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ اسے مقصد کے لئے اسے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ویسے مشکل حالات اس کے لئے نئی بات نہیں۔ اس کے لئے مشکل اور تلخ حالات کا تجربہ اس کی عمر کے برابر کا ہے۔

اس کے خاندان میں ہی نہیں بلکہ اس کے قبیلے میں بچوں کو تعلیم دینے کا تصور ہی نہیں تھا۔ وہ چھوٹی سی بچی تھی تب ان لڑکیوں کو حسرت سے دیکھا کرتی تھی جو سکول کا صاف ستھرا یونیفارم پہنے، ہاتھوں میں کتابیں لیے اس کے گھر کی گلی سے گذرتی تھیں۔ اس کا دل بھی چاہتا تھا کہ وہ بھی کتابیں ہاتھ میں اٹھا کر اور اجلا یونیفارم پہن کر سکول جائے لیکن ایسی کوئی مثال ہی نہیں تھی کہ اس کے شہر کی کوئی باگڑی لڑکی کبھی اسکول گئی ہو۔ اس کے قبیلے کی لڑکی ہی کیا لڑکوں نے بھی کسی اسکول کو صرف باہر ہی سے دیکھا ہوتا تھا کہ اس کے شہر کے باگڑی قبیلے میں تعلیم کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔

بیبی کے دل میں سکول جانے کا سودا سمایا تو اس نے اس بات کا ذکر اپنی ماں بھوراں سے کیا۔ بیبی کی بات سن کر بھوراں پریشان ہو گئی۔ بیٹی کی مسلسل ضد پر بالآخر بھوراں اسے اپنے شہر قمبر کے اقرا اسکول لے گئی، جہاں چھوٹی سی بیبی کو اس شرط پر سکول میں داخلہ ملا کہ وہ ڈیسک کی بجائے زمین پر بیٹھے گی اور پانی پینے کے لئے اپنا گلاس لے کر آئے گی۔

سکول انتظامیہ کی انسانیت سوز شرائط پر بیبی کا نام سکول میں درج ہوا تو باگڑی قبیلے کی کچھ اور لڑکیوں نے بھی سکول میں داخلہ لیا۔ ان تمام لڑکیوں پر بھی وہی شرائط لاگو تھیں کہ زمین پر بیٹھیں گی اور پانی پینے کے لئے اپنا برتن لائیں گی۔ بیبی نے پانچ سال تک اپنے قبیلے کی دوسری لڑکیوں کے ساتھ فرش پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کی۔

پرائمری تعلیم کے بعد دوسری باگڑی لڑکیوں نے تو تعلیم کو خیر باد کہہ دیا لیکن بیبی نے اپنے شہر کے گورنمنٹ گرلز ہائی سکول میں داخلہ لیا، جہاں اسے زمین پر تو نہیں بٹھایا گیا لیکن اس کی بینچ دوسری لڑکیوں سے دور الگ رکھی گئی۔ یہاں بھی پانی پینے کے لئے اسے اپنا گلاس گھر سے ہی لے کر جانا پڑتا تھا۔

سماجی تفریق کے ان حالات میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ابھی وہ ساتویں کلاس میں تھی کہ اس کی شادی اپنی برادری کے نوجوان سے کردی گئی، جس نام پردیسی تھا۔ اس کے محنت کش شوہر پردیسی نے اس کا ساتھ دیا تو بیبی نے میٹرک پاس کر لیا۔ اس کے بعد بیبی اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے ایک فلاحی سکول میں پندرہ سو روپے ماہانہ پر ٹیچر بن گئی۔

بیبی باگڑی ٹیچر لگی تو اس نے باگڑی قبیلے کے سو سے زائد بچوں کو سکول میں داخل کروا دیا۔ اس فلاحی سکول میں ان بچوں سے فیس تو نہیں لی جاتی تھی لیکن باگڑی بچوں سے سکول کی صفائی اور جھاڑو لگانے جیسے کام لئے جاتے تھے۔ بیبی چاہتی تھی کہ باگڑی بچے بھی عام بچوں کی طرح تعلیم حاصل کریں اور ان کے سماجی تفریق کا رویہ نہ برتا جائے۔ وہ چاہتی تھی کہ جن ذلت آمیز حالات میں اس نے تعلیم حاصل کی ہے، ان حالات سے دوسرے باگڑی بچے نہ گزریں۔ اپنے اس خواب کی تکمیل کے لئے اس نے 2015 میں سنت ہیرا لال کمیونٹی سکول قائم کیا۔

اس سکول میں اس وقت باگڑی قبیلے کے انتہائی غریب دو سو پچانوے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، جن میں ایک سو بیس لڑکیاں اور ایک سو پچھتر لڑکے ہیں۔ ان بچوں سے کسی قسم کی فیس نہیں لی جاتی۔ سرکاری سکولوں کو مفت فراہم کی جانے والی درسی کتب ضلع انتظامیہ کے تعاون کی وجہ سے مل جاتی ہیں، جبکہ قمبر کی میونسپل کمیٹی ماہانہ پچیس ہزار امداد دیتی ہے۔ کچھ امداد شہریوں کی جانب سے بھی مل جاتی ہے۔ چھ اساتذہ کی تنخواہ اور دیگر اخراجات کی وجہ سے بمشکل ہی کام چلتا ہے۔ اصل مسئلہ بچوں کے یونیفارم اور جوتوں کا ہوتا ہے، کیونکہ تمام تر بچے اس قدر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے بچوں کو یونیفارم اور جوتے خرید کر نہیں دے سکتے۔ اس کے لئے بیبی باگڑی فیس بک پر ان بچوں کے یونیفارم اور جوتوں کی گذارش کرتی نظر آتی ہے اور اسے مخیر حضرات کے آگے بھی ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے۔۔۔!

کچھ ہفتے قبل اس نے فیس بک پر ایک پوسٹ کے ذریعے اپیل کی تھی کہ اس کے سکول کے ایک سو بیس بچے شدید سردی میں برہنہ پا سکول آتے ہیں، جن کے لئے شوز کی ضرورت ہے۔ فیس بک پر وہ پوسٹ دیکھ کر میں نے سندھی اخبار “کاوش” میں کالم لکھا تھا۔ بیبی نے مجھے بتایا کہ اسی دن ایک صاحب حیثیت شخص نے تمام شوز کے لئے پیسے ادا کر دیے تھے اور خیرپور کے گاؤں سے ایک خاتون سمیت تین افراد نے مشترکہ طور پر اتنی ہی مزید رقم بھجوا دی تھی، جس سے بچوں کو سوئٹرز خرید کر دیے گئے ہیں۔

بیبی کا کہنا ہے کہ اس کے سکول میں KG اور پہلی جماعت کے کم عمر بچوں کو سکول آنے میں بہت دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان بچوں کے لئے وین کی بہت ضرورت ہے۔ اگر کوئی صاحب دل وین کا بندوبست کردے تو ان معصوم بچوں کی مشکل آسان ہوسکتی ہے۔

بیبی باگڑی نے مجھے بتایا کہ باگڑی برادری کے کم از کم ایک سو پچاس مزید بچے سکول میں داخلہ لینا چاہتے ہیں لیکن ان بچوں کے لئے شوز اور یونیفارم کا انتظام نہیں ہو پا رہا جس کی وجہ سے وہ بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر کوئی دردمند انسان اس کا انتظام کر دے تو وہ بچے بھی گلیوں میں آوارہ گردی کی بجائے تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔

قمبر شہداد کوٹ سندھ کا وہ ضلع ہے جہاں چانڈیو اور مگسی قبائل کے سردار رہتے ہیں۔ وہ سردار اپنے علاقوں کے مساکین کے ووٹ سے اقتدار کے ایوانوں میں بھی پہنچتے ہیں لیکن اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے کے بعد ان سرداروں اور نوابوں کے پاس اتنا وقت کہاں کہ پیچھے مڑ کر ذلتوں کے مارے ان لوگوں کی طرف دیکھیں جو ان کی نظر میں انسانوں کی بجائے صرف ووٹ کا درجہ ہی رکھتے ہیں۔۔۔!

غربت کی چکی میں پستے ہویے انسانوں کے معصوم بچوں کو تعلیم دینے کے لیے بیبی باگڑی کا سکول گزشتہ پانچ برس سے کرائے کے ایک مکان میں چل رہا ہے۔ قمبر کے ایک شہری عثمان میمن نے سکول کے لئے پلاٹ تو عطیہ کیا ہے لیکن عمارت بنانے کے وسائل بیبی باگڑی کے پاس نہیں ہیں۔ کاش کوئی مخیر شخص یا ادارہ سکول بلڈنگ تعمیر کروا کر بیبی باگڑی کے خواب کو تکمیل تک پہنچا دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments