کوئٹہ: میں کچھ نہ بولا کیونکہ مجھے نہیں مارا گیا تھا
مارٹن نیمولر ایک جرمن پادری تھا۔ وہ ایڈولف ہٹلر کا حامی تھا۔ وہ یہودیوں کا مخالف تھا۔ لیکن جب نازیوں نے چرچ پر بھی اثر بڑھانے کی کوشش کی تو اس نے نازیوں کی مخالفت کی۔ نتیجے میں مارٹن نے 1937 سے لے کر 1945 تک یہودیوں کے ساتھ ہی نازی کیمپوں میں قید کاٹی۔ وہ موت کے منہ میں جانے سے بال بال بچا۔ قید کے بعد اس نے اظہار ندامت کیا جسے ایک مشہور زمانہ نظم میں بیان کیا گیا، جس کا آزاد ترجمہ کچھ یوں ہے
پہلے وہ سوشلسٹوں کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں سوشلسٹ نہیں تھا
پھر وہ ٹریڈ یونین والوں کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں ٹریڈ یونین والا نہیں تھا
پھر وہ یہودیوں کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں یہودی نہیں تھا
پھر وہ مجھے مارنے آئے
اور کوئی نہیں بچا تھا جو میرے لیے بولتا
ظلم کے خلاف جرمن شہری نہیں بولے اور نیتجے میں جنگ عظیم دوئم کی صورت ان پر بھیانک ظلم ہوا۔ عظیم شہر کھنڈر بن گئے۔ جرمنوں کو اپنی قوم پر لگا ہوا یہ داغ دھونے میں کئی دہائیاں لگ گئیں۔ ہم بھی مارٹن نیمولر کی مانند ظلم کے خلاف اس وقت بولنے سے انکاری ہیں جب کہ اس کی ضرورت ہے۔
ہمارا کوئٹہ شہر مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے بڑے واقعات پر نگاہ ڈالنی ہو تو سنہ 2010 سے لے کر اب تک دہشت گردی کے چوبیس بڑے واقعات میں چھے سو سے زیادہ افراد شہید ہو چکے ہیں اور بارہ سو سے زیادہ زخمی۔ یعنی کم و بیش دس لاکھ کی آبادی والے اس شہر میں ہر پانچ ہزار میں سے ایک شخص براہ راست دشت گرد حملے کا نشانہ بن چکا ہے۔ اس چھوٹے سے شہر میں مشکل سے کوئی شخص ہی ایسا ملے گا جس کے عزیز و اقارب اور جاننے والوں میں سے کوئی دہشت گردی کا نشانہ نہ بنا ہو۔
”افغان جہاد“ کے بعد سے پشاور بھی دہشت گردی کا نشانہ بنتا رہا ہے لیکن اس کے متعلق تو کہا جاتا تھا کہ پشاور قبائلی علاقوں سے متصل ہے اور افغانستان کی سرحد بہت نزدیک ہے اس لئے سیکیورٹی فراہم کرنا مشکل ہے۔ لاکھوں افغان مہاجرین وہاں موجود ہیں اور پتہ چلانا ناممکن ہے کہ کون دشمن کا ایجنٹ ہے۔ لیکن کوئٹہ میں ایسی کیا مشکل ہے؟
خاص کوئٹہ شہر کا رقبہ پونے دو سو مربع کلومیٹر سے بھی کم ہے۔ آدھا شہر چھاؤنی کی حدود میں ہے۔ لمبائی کے رخ اٹھارہ کلومیٹر شہری آبادی ہے تو چوڑائی کے رخ نو کلومیٹر۔ کچلاک اور پشین سے ہوتے ہوئے سڑک سو کلومیٹر دور چمن کے بارڈر پر افغانستان پہنچتی ہے۔ درمیان میں بے آب و گیاہ پہاڑیاں ہیں۔ شہر میں داخلے اور باہر نکلنے کے بنیادی طور پر تین راستے ہیں اور ان راستوں کی نگرانی کرنا آسان ہے۔
پھر کیا وجہ ہے کہ دفاعی لحاظ سے محفوظ یہ شہر تواتر سے اس بری طرح دہشت گردوں کا نشانہ بن رہا ہے؟ کیا وجہ ہے کہ شہر کے محفوظ ترین اور ہائی سیکیورٹی والے علاقوں میں بھی دہشت گرد اس قدر آزادی سے اپنی کارروائیاں کرتے ہیں؟ اگر افغان مہاجرین مسئلہ ہیں کہ دہشت گرد ان کے بھیس میں آ جاتے ہیں، تو پھر ان کو مخصوص علاقوں تک محدود کیوں نہیں رکھا جاتا ہے؟ اگر فاٹا وغیرہ میں سرحد بند کی جا سکتی ہے اور وہاں ویزے کی پابندی سخت کی جا سکتی ہے، تو کیا کوئٹہ کے عوام کے تحفظ کے لئے یہ نہیں کیا جا سکتا ہے؟ اگر یہ حقوق کا مسئلہ ہی ہے، تو شہریوں کو وہ حقوق دینے میں کوتاہی کیوں کی جا رہی ہے جس کی ضمانت ان کو آئین نے دی ہے؟ اگر یہ فرقہ پرستی کا معاملہ ہے، تو فرقہ پرست افراد اور ان کے لیڈروں کو کیوں نہیں پکڑا جاتا ہے؟
اگر ہم شہری حقوق اور قانون کے یکساں نفاذ کے لئے آواز بلند نہیں کریں گے تو اگلی باری ہماری ہی آئے گی۔ آگ کے شعلے کبھی ایک جگہ مقید نہیں رہتے ہیں۔ وہ گرد و نواح کو بھی لپیٹ میں لیتے ہیں۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی اپنی نظم کہہ دیں، مگر مارٹن نیمولر کی طرح مکمل تباہی کے بعد نہیں، بلکہ اسے روکنے کی خاطر اس وقت ہی نظم کہہ دی جائے جب کہ مکمل تباہی کو روکا جا سکتا ہے۔ مذہبی جنونیت ہمارا ہتھیار نہیں ہو سکتا ہے۔ ایسا ہتھیار تو صرف خودکشی کی نیت رکھنے والے ہی استعمال کر سکتے ہیں۔
پہلے وہ اہل تشیع کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں شیعہ نہیں تھا
پھر وہ ہزارہ کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں ہزارہ نہیں تھا
پھر وہ استادوں کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں استاد نہیں تھا
پھر وہ پولیس والوں کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں پولیس والا نہیں تھا
پھر وہ فوجیوں کو مارنے کے لیے آئے اور میں کچھ نہ بولا
کیونکہ میں فوجی نہیں تھا
پھر وہ ہسپتال میں بلاتفریق ہم سب کو ہی مارنے کے لیے آئے
اور کوئی نہیں بچا تھا جو ہمارے لیے بولتا
- ولایتی بچے بڑے ہو کر کیا بننے کا خواب دیکھتے ہیں؟ - 26/03/2024
- ہم نے غلط ہیرو تراش رکھے ہیں - 25/03/2024
- قصہ ووٹ ڈالنے اور پولیس کے ہاتھوں ایک ووٹر کی پٹائی کا - 08/02/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).