ظ سے ظلم۔۔۔ د سے دنیا۔.۔ پ سے پالتو!


پس پردہ کہیں دور سے آواز آ رہی ہے۔۔

اپنی کہانی۔ ۔کیسے کہیں گے اپنی کہانی۔۔

رات کو وہ گریباں پکڑ لیتا ہے۔ آنسوؤں سے بھیگا چھوٹاسا چہرہ کہ اس کے آنسو مجھے اس کے چہرے کی جسامت سے بڑے دکھائی دیتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر اپنے ننھے ہاتھوں سے وہ میرا گریباں پکڑ لیتا ہے۔ میں ہڑ بڑا کر اٹھنا چاہتا ہوں لیکن نہ جانے اس تین فٹ کی زندگی کے اندر کیسی طاقت ہے یا میرے اندر عجب کمزوری کہ میں اٹھ نہیں پاتا۔ میں بے بسی سے اس سے نظریں چرانا چاہتا ہوں وہ زبردستی بڑے بڑے آنسوؤں سے لبریز مجھے اپنا چہرہ دکھانا چاہتا ہے۔۔۔

ایک کمزور سی آواز نکال کر میں اتنا کہہ پاتا ہوں۔ ۔۔کیا چاہتے ہو؟

کہتا ہے” نوحے لکھنے کیوں بند کر دیے ہیں؟ ”

یہ کہتے ہوئے اس کی ٹھوڑی لرز رہی ہوتی ہے آنکھوں میں نمکین آبشاروں کی نئی تند لہریں اس کے گالوں پر نئے راستے بناتی ہیں۔ پرانے راستوں کے دو اطراف خشک نمک کے انبار بھی نمایاں ہیں۔

”جانتے ہو نہ میرے ساتھ 100 دفعہ ظلم ہوا۔ پڑھا ہے ناں کہ کیسے سو دفعہ میری آنتوں میں آگ گھسائی گئی۔ تم نے جب بھی فیس بک پر میری کہانی مع میری مورت دیکھی تمہارے انگوٹھے میں سرعت آئی اور میری کہانی ہی پلٹ دی۔۔۔ کہانی اور میری تصویر پر ٹھہرے کیوں نہیں؟ مجھے دیکھا کیوں نہیں؟ مجھ پہ کچھ کہا کیوں نہیں؟ جانتا ہوں مجھ پر ہونے والا ظلم، تمہارے بونے لفظوں سے بلند تر ہے۔ ۔۔ لیکن اپنی نیت اور دکھ تو رجسٹرڈ کروا لیتے”

میں مشکل سے ہمت جمع کرتا ہوں۔ مشکل سے آواز نکلتی ہے۔ جب مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ یہ آواز میری ہی ہے تو اس سے کہتا ہوں۔ ”تمہاری تصویر کو دیکھ کر اس لیے کہانی پلٹ دیتا تھا کہ میں مرنا نہیں چاہتا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ تمہاری معصومیت کو روندنا تو ایک طرف کوئی تمہاری طرف بد نیت سے دیکھے بھی تو کچھ نہ کر سکنے کی صورت میں میرے مرنے کا جواز پیدا ہو سکتا ہے۔ تمہارے ساتھ تو نہ جانے کتنی بار ایسا ظلم ہوا کہ کائنات کے پس پردہ غیر مرئی پردہ لرز اٹھا۔ تو میرا مرنے سے انکار کیا معنی رکھتا ہے۔ میں اس لیے مرنا نہیں چاہتا کہ براہ راست میری ذمہ داری میں تمہاری جیسی دو معصوم روحیں ہیں۔ میرے ارد گرد لاکھوں بلکتے بچے ہیں۔ میں کم ظرف نہیں ہوں کہ مرنے سے فرار حاصل کرتا ہوں میں فقط اس لیے مرنا نہیں چاہتا کہ شاید کبھی میرا یہ گوشت پوست وجود زمین پر فقط بوجھ بننے کے بجائے اپنے ہونے کے معنی سے روشناس ہو سکے۔ ہو سکتا ہے یہ بے وقعت وجود اپنے ہونے سے کسی دن علت و معلول کی کوئی نئی مثبت زنجیر کی پہلی کڑی کی بنیاد رکھ دے۔ بس یہ ایک موہوم سی ایک امید ہے کہ زندہ رہنے کی تہمت لیے پھرتا ہوں”

بچہ خاموش ہو جاتا ہے۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہتا ہے۔۔”کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ میں زندہ ہوں اس لیے تم نے میرا نوحہ لکھنا ضروری نہیں سمجھا۔ جانتے ہو ایسی قیامت کے بعد مر جانا آسان ہے، لیکن ایسے ظلم کے بعد بھی جس کی سانس کی زنجیر نہ ٹوٹے، نوحے اس پر لکھنے چاہییں”

میں سرجھکائے کہتا ہوں، ” ایسا کیوں بولتے ہو، میں نے زینب کے بعد کس پر لکھا ہے؟ اس کے بعد ہزاروں بچیاں اور بچے تندور میں جھونک دیے گئے۔ آگ میں جلنے کی ابتدا وقت ان کے چیخ و پکار کرتے ہاتھ پاؤں دیکھتا رہا، ان کی آنکھیں مجھ پر ٹکی ہوئی تھیں جب آگ نے ان کو پگھلانا شروع کیا تھا۔ میں نے کچھ نہیں لکھا۔ نوحے کمزوروں کے یتیم ترانے ہوتے ہیں اور بس۔ ان سے کچھ حاصل نہیں ہوتا”

بچہ خاموش ہے۔ پھر مایوسی سے لبریز لہجہ لیے بولتا ہے، ” پر تمہیں اس قیامت کا ادراک نہیں فقط تمہارے پاس لفظ ہیں۔ تم جیسے ذلیل کو معلوم نہیں کہ بچہ جن چہروں میں پدرانہ شفقت ڈھونڈتا ہے وہ چہرے جب آگ گھسیڑتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟ تمہارے آس پاس لوگ میری کہانی سے اس لیے متاثر ہوئے کہ کہانی میں 100 کا ہندسہ تھا۔ ایک دو دفعہ تو ہوتا رہتا ہی ہے لیکن اب کے کسی بچے کے ساتھ 100 دفعہ ہوا۔ 100 سے وہ ایسے متاثر ہوئے جیسے وہ بیٹھے گن رہے تھے۔ تمہارے یہ لوگ اگلی دفعہ 1000 کے ہندسے سے متاثر ہوں گے۔ اس سے کم کا ہندسہ انکی حساسیت کو بیدار نہیں کر سکے گا”

میں اقرار کرتے ہوئے کہتا ہوں، ” میں ادراک نہیں رکھتا۔ میں ہم دل کی ساری طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے بھی تمہارے ساتھ ہونے والے ظلم کا دس فیصد بھی محسوس نہیں کر سکتا۔ لیکن تمہیں ادب کے ساتھ صرف ایک بات بتاتا ہوں۔ تمہارے ایک بابا تھے، جو 1632 میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام جان لاک تھا۔ انہوں نے ایسے نظریات پیش کیے جن سے پسے ہوئے اور سوئے ہوئے طبقوں میں ظلم کے خلاف بیدار ہونے کی نشانیاں اجاگر ہونے لگیں۔ پھر دو سو سال بھیڑیوں کے ساتھ جنگ کا آغاز ہوا۔ پسے ہوئے طبقے کے افراد جن میں بیدار ہونے کی نشانیاں تھیں چن چن کر مارا گیا۔ پھر ایک وقت آیا بھیڑیے آپس میں لڑ پڑے۔ پہلی لڑائی کو تین دہائیاں بھی نہیں گزری تھیں کہ بھیڑیے آپس میں پھر الجھے اس کو انہوں نے جنگ عظیم دوئم کا نام دیا۔ اب کی دفعہ ایسے لڑے کہ سب بھیڑیے زخمی ہو گئے۔

دو قدم پیچھے ہٹے۔ پسے ہوئے طبقے نے عارضی طاقت پکڑی اور تمہارے بابا جان لاک کے نظریات پر مبنی کچھ باتیں منوا لیں۔ انہیں باتوں کو بنیاد بنا کر کچھ ادارے بھی بنوا لیے۔ ہوا کا ایک عارضی خوشگوار جھونکا آیا لیکن ان بھیڑیوں کے زخم جیسے ہی ٹھیک ہوئے انہوں نے اپنی سرزمینوں سے پار تیسری دنیا کو میدان جنگ بنا لیا۔ وہاں اپنے پالتو بھیڑیوں کی مدد سے جنگ کی لذت سے لطف اندوز ہونے لگے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے پالتو بھیڑیوں نے کچھ پالتو کتے پال لیے اور پسے ہوئے طبقے نے کتوں کو اپنا نمائندہ سمجھ لیا۔ اکثریت جانتی ہی نہ تھی کہ کتے کو ہڈی کون ڈال رہا ہے۔

تیسری دنیا میں پالتو بھیڑیوں نے ہمیں بتا دیا کہ وہ ہماری حفاظت پر مامور ہیں اگر وہ نہ ہوں تو سرحد پار کے پالتو بھیڑیے ہمیں کھا جائیں گے۔ تیسری دنیا کے پسے طبقے نے جب بھی ذلت کا رونا رویا تو پالتو کتوں کے چہرے سامنے لائے گئے کہ یہ ہیں وہ جو تمہاری ذلت کے ذمہ دار ہیں۔ ہم یہ جان ہی نہ پائے کہ اصل بھیڑیے اپنی سر زمینوں سے بہت دور کیسے جنگ سے لطف اندوز ہوتے رہے ہیں۔ بھیڑیوں کی آپس کی جنگ کو نصف صدی سے زائد عرصہ بیت گیا۔ اب وہ اس قدر منظم ہیں کہ وہ اپنے جبر پر مبنی نظام کو خوبصورت بنا کر پیش کر رہے ہیں”

”اس بکواس کا میرے ساتھ ہونے والے ظلم سے کیا تعلق؟” بچے نے پوچھا۔ بچے کے چہرے پر مایوسی کے بجائے غصے نے سایہ کر دیا تھا۔

”ہم اب اس امید پر زندہ ہیں کہ دنیا کے سارے بھیڑیے آپس میں لڑ پڑیں۔ ہماری امید اس لیے بے جا نہیں ہے کیونکہ لڑنا ان کی خصلت میں ہے۔ یہ کسی دن لڑیں گے اور خود کو شدید زخمی کر لیں گے۔ جب یہ لڑیں گے تو آگ ان کی پرامن زمینوں تک بھی جائے گی۔ پھر جب یہ زخمی ہو کر اپنے زخم چاٹ رہے ہوں گے تو ان کی پرامن سر زمین والے اور تیسری دنیا کے پسے ہوئے لوگ جان لاک کے نظریات کو قائم کرنے کے لیے نئے تقاضے کریں گے۔ ایسے میں زخمی بھیڑیوں کے پاس کوئی چارہ نہیں ہو گا کہ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ تقاضے پورے کریں گے۔تم پر جو ظلم ہوا اس کو روکنے کے لیے ہمیں سماجی بندوبست کو ہاتھ میں لینے کی ضروت ہے لیکن اس کے لیے ہمیں بھیڑیوں کی براہ راست لڑائی کا انتظار کرنا ہو گا”

”اس لیے نوحے لکھنا بند کر دیے” بچے نے پوچھا

”ہاں شاید” میں نے جواب دیا

”لعنت تمہاری سوچ پر” بچے نے میرے چہرے پر تھپڑ رسید کرتے ہوئے کہا

لیکن میں اب اطمینان میں ہوں۔ اب وہ کبھی رات کے پچھلے پہر میرا گریبان نہیں پکڑے گا۔ اس نے جاتے ہوئے عجیب سی نظروں سے دیکھا تھاجیسے اس کو میری شکل کسی پالتو کتے میں بدلتی ہوئی نظر آ رہی ہو۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments