بوٹ کی عزت، بوٹ کی بےعزتی


کیا ہی اچھا ہو کہ جب ایک سینیئر اینکر اپنے میز پر بوٹ کو دیکھ کر اپنے حواس کھو بیٹھے، جب حزب مخالف کے زیرک سیاستدان کھڑے ہو کر مائیک اتارنے اور کانوں کو ہاتھ لگانے لگے جیسے کسی پردہ دار گھرانے میں بغیر دروازے پر دستک دیے کوئی مشٹنڈہ گھس آیا ہو، کاش اس وقت بوٹ خود ہی بول اٹھتا۔

آپ کہیں گے کہ بوٹ جیسے بول سکتا ہے تو عرض ہے کہ جہاں فیصل واوڈا بول سکتا ہے، راقم جیسا نیم خواندہ شخص یہ کالم لکھ سکتا ہے، جہاں خلیل الرحمان قمر اپنی بصیرت کے موتی بکھیر سکتا ہے وہاں بوٹ کیوں نہیں بول سکتا؟

پیمرا کے کون سے قانون کی کون سی شق میں لکھا ہے کہ ٹی وی پر بوٹ کا آنا اور بولنا منع ہے۔ بوٹ بول پڑتا ہے تو قوم کے دانشوروں اور عوام کا درد رکھنے والے سیاستدانوں اور ہیٹروں کے پاس ٹھٹھرتے دفاعی تجزیہ نگاروں کو یہ بحث نہ کرنا پڑتی کہ ٹی وی پر آ کر بوٹ کی عزت ہوئی ہے یا بےعزتی۔

کیا ٹی وی پر بوٹ کو بےپردہ کر کے فیصل واوڈا نے ہمارے سب سے بڑے قومی راز سے پردہ اٹھا دیا ہے یا بوٹ کی چمک سے شرما کر بھاگ جانے والے سیاستدانوں نے بتا دیا ہے کہ اگرچہ ہم تیرے ہو چکے صنم لیکن کیا ہماری بے عزتی کے لیے فیصل واوڈا ہی بچا ہے۔ کسی ایسے ریٹائرڈ صاحب کو ہی بلوا لیا ہوتا جسے کم از کم ان بوٹوں کے تسمے اپنے ہاتھوں سے باندھنے کا تجربہ تو ہوتا۔

بوٹ کو مائیک دیا جاتا تو وہ شاید یہ کہتا ہے کہ کچھ دیر کے لیے آسان باش ہو جاؤ۔ یہ لیٹے اور چاٹنے کی باتیں بند کرو، گھروں میں بیٹھے بچے اور بیبیاں بھی یہ پروگرام دیکھ رہی ہیں۔

بوٹ کسی اچھے بزرگ کی طرح اچھے دنوں کو یاد کرتا جب عسکری اداروں میں انگریز کے زمانے کا لایا ہوا ایک کارندہ ہوتا تھا جسے بیٹ مین کہتے تھے۔ اس کا کام صاحب کی وردی استری کرنا، صاحب کی چائے میں چینی کی درست مقدار ڈالنا اور کبھی کبھی سر پر تیل ڈالر کر مالش بھی کرنا تھا لیکن اس کی سب سے اہم ڈیوٹی تھی کہ بوٹ کی چمک میں کبھی کوئی کمی نہ رہ جائے۔ جب تک صاحب کو اپنے چہرے کا عکس بوٹ میں نظر نہیں آتا تھا بیٹ مین کا کام پورا نہیں ہوتا تھا۔

کچھ سال پہلے بات چلی تھی کہ یہ ایک نوآبادیاتی نظام ہے۔ بیٹ مین کا کام انسانی وقار کے منافی ہے تو یہ عہدہ ختم کیا جائے یا اسے کوئی اچھا سا نام دیا جائے جیسے تم لوگوں نے چپڑاسی کو قاصد کہنا شروع کر دیا یعنی وہ کسی بابو کے دفتر کے باہر بیٹھا مزدور نہیں بلکہ عاشقوں اور معشوقوں کے بیچ پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔

بوٹ کہتا کہ ہم اپنے عسکری اداروں کو 21ویں صدی میں لے جا رہے ہیں جہاں ہائیبرڈ جنگیں نصف شب کو ٹوئٹر پر لڑی جاتی ہیں، جہاں دشمن کا ہر ٹھکانہ ہمارے غوری کے نشانے پر ہے، جہاں ہمارے مستعد افسر سمندر میں بجری ڈال کر آپ کے لیے لگژری اپارٹمنٹس بنا رہے ہیں، جہاں ہم فوج جو جدید ہتھیاروں سے لیس کر رہے ہیں، جہاں ہم نوجوان ذہنوں کی ایسی تربیت کر رہے ہیں کہ ان کے خون کی بوند سبز رنگ کی ہو چکی اور جو اپنے سمارٹ فونوں پر 24 گھنٹے گالی گلوچ کر کے ہماری نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہیں وہاں تم لوگ اس دقیانوسی سوچ کے مالک ہو کہ یہ بحث چھیڑ کر بیٹھ گئے کہ بوٹ کی عزت کیسے بڑھتی ہے، بوٹ کی بےعزتی ممکن ہے یا نہیں۔

بوٹ کو اگر اپنی بات جاری رکھنے کا موقع دیا جاتا تو وہ یاد کرواتا کہ بوٹ سرحدوں پر پہرہ دیتا ہے، مرغزاروں میں ڈیوٹی کرتا ہے۔ کبھی جنگلوں، بیابانوں میں پٹھو اٹھا کر مارچ کرتا ہے۔ کبھی کہیں آنے والے کو، جانے والے کو گارڈ آف آنر پیش کرتا ہے۔ کبھی کسی زندان کے دروازے پر ٹھڈا مار کر کہتا ہے اوئے تمہیں ہم یہاں سونے کے لیے لائے ہیں۔

بوٹ کا جتنا بھی احترام ہو، کمرشل بریک تو کمرشل بریک ہے۔ جب آتی تو سب میز پر پڑے بوٹ کی طرف لپکتے اور اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے ہم آواز ہو کر گاتے کہ ’میرے پاس تم ہو‘۔

اور شاید اتنی دیر میں اینکر کی آواز واپس آ جاتی اور اگر اسے مجید امجد سے تھوڑا سا شغف ہوتا تو وہ معذرت کے ساتھ یہ شعر پڑھتا

وہ گیا گونجتا خلاؤں میں

بوٹ کا ایک قہقہہ تنہا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).