فلمی صنعت کے دو اہم نام آغا جی اے گل اور زیڈ اے زلفی


آغا جی اے گل : ( 1913 سے 1983 )

آغا جی اے گل نے 1937 میں محض 24 سال کی عمر میں ایور نیو پکچرز کا ادارہ قائم کیا۔ کسے معلوم تھا کہ 19 سال کے اندر یہ ادارہ فلم اسٹوڈیوز بھی بنا لے گا۔ اسٹوڈیو ز بھی وہ جو 1956 میں ملک کا ایک مثالی نگار خانہ بننے والا تھا۔ قیامِ پاکستان کے موقع پر مغربی پاکستان میں صرف لاہور ہی میں فلم سازی ہو رہی تھی۔ اس وقت لاہور کے نگار خانوں کی استطاعت کہاں تک تھی، یہ بات آغا صاحب اچھی طرح جانتے تھے۔ آئندہ 25 سال آگے کی سوچ لے کر آغا صاحب نے ذہن میں ایک ایسے اسٹوڈیو کا خاکہ تیار کر رکھا تھا جہاں ایک چھت تلے فلمساز کو تقریباً سب ہی کچھ میسر ہو سکے۔

فوارہ، آ بشار، گاؤں، جھیل، باغ اور دیگر چھوٹی بڑی اشیاء موجود ہوں۔ تا کہ ان چیزوں کے لئے فلمساز ادھر اُدھر جا کر مقامات کے انتخاب میں خوار نہ ہوتا پھرے۔ اسی طرح کہانی کو حقیقت سے قریب تر کرنے کے لئے بعض مناظر کی عکس بندی کے لئے خصوصی سیٹ بھی مہیا ہوں۔ اس طرح اداکاروں اور تکنیکی ماہرین اور ہنرمندوں کو اسٹوڈیو سے عکس بندی کے مقام پر لانے لے جانے اور متفرق اخراجات کی خاصی بچت ہو سکتی تھی۔

ایور نیو فلم اسٹوڈیوز نے اپنے قیام کے بعد جلد ہی لاہور میں اپنی موجودگی تسلیم کروا لی۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ تمام فلوروں پر دن رات فلموں کی عکس بندیاں جاری رہتیں۔ اُدھر پروڈکشن دفاتر کی گہما گہمی الگ۔ یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے ایور نیو فلم اسٹوڈیوز کے عروج کے زمانے کی باتیں براہِ راست علی سفیان آفاقی صاحب سے سنیں۔ انہوں نے بتایا:

” ایور نیو فلم اسٹوڈیوز کا فوارہ، وہ تاریخی مقام ہے جہاں پیسے لینے دینے کے اور دیگر فلمی معاملات و معاہدے طے پاتے۔ سلام دعائیں ہوتیں۔ سر شام اس مرکز پر کوئی نہ کوئی کسی آنے والی فلم، کسی نئی بننے والی دھن، کسی گیت کے مکھڑے، کسی فلم کی کہانی، اداکاروں سے عکس بندی کی تاریخوں کے آگے پیچھے کرنے کی باتیں کرتے ہوئے نظر آتا۔ اور یہ تمام سرگرمیاں آغا صاحب اپنے کمرے میں بیٹھے ایک لمبی چوڑی کھڑکی سے دیکھا کرتے۔ کبھی وہ خود بھی اس ملنے کے مرکز میں آ موجود ہوتے ”۔

لیکن اب یہ سب باتیں قصہ ء پارینہ ہو چکیں۔ آفاقیؔ صاحب سے اس تاریخی فوارے کا ذکر سننے کے بعد جب اس فوارے پر گیا تو ایسا محسوس ہوا گویا میں اُسی سنہری دور میں چلا گیا۔ میرے سامنے نجم نقوی جا رہے ہیں، وہ قتیل ؔشفائی آ رہے ہیں، یہ ماسٹر عنایت حسین گزر رہے ہیں۔ یہ مسرورؔ بھائی مسکراتے ہوئے ہاتھ میں پانوں کی تھیلی لئے چلے آ رہے ہیں، یہ ہاتھ ہلاتے ہوئے میڈم نورجہاں اپنی مخصوص جگہ سے ساؤنڈ ریکارڈنگ کے دروازے سے اندر جا رہی ہیں، سامنے موسیقار نثار بزمی اور موسیقار ناشاد کسی بات پر سر جوڑے بیٹھے ہیں، فلم ایڈیٹر علی صاحب، مشہورِ زمانہ بشیر نیاز، عمل کیمیائی کے پیارے خان، گلوکار مسعود رانا، ہدایت کار اسلم ڈار، الطاف حسین، حسن طارق، ایس سلیمان، ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کون کون یہاں نظر نہیں آیا۔

اسی فوارے پر اداکار وحید مراد، شمیم آرا، ندیم، بابرہ شریف، محمد علی، زیبا اور بہت سے نامور اداکاروں پر ایسے ایسے گانے بھی فلم بند ہوئے جو عوام آج تک یاد رکھے ہوئے ہیں۔

معروف گیت نگار یونس ہمدم ؔ نے بھی کم و بیش یہی بات ایور نیو کے تذکرے میں لکھی ہے کہ خود اُن کو بھی کئی ایک فلموں کی پیشکش اسی تاریخی فوارے پر ہوئی تھی۔

باکس آفس پر فلم کامیاب یا ناکام ہونے کا پیمانہ پہلے بھی عوام تھے خواص کبھی بھی نہیں رہے۔ ملٹی پلیکس اور سائن پیکس کے آنے سے سنگل اسکرین سنیماپر کوئی خاص اثر نہیں پڑا کیوں کہ جدید ملٹی پلیکس اور سائن پیکس سنیماؤں کے ٹکٹ سنگل اسکرین سنیما کے مقابلے میں اس مہنگائی کے دور میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ عام آدمی اپنی فیملی کو اِن سنیما میں فلم دکھانے نہیں لے جا سکتا۔ اِن جدید منی سنیماؤں کو باکس آفس قرار دینا ہی غلط ہے۔

آج بھی دیکھا جائے تو عوام کی ایک بھاری اکثریت سنگل اسکرین سنیماؤں میں جاتی ہے۔ ملک میں کافی تعداد میں سنگل اسکرین سنیما توڑ کر پلازے یا رہائشی اپارٹ منٹس بنا دیے گئے۔ جو رہ گئے اُن کا بھی اچھا حال نہیں۔ برسبیلِ تذکرہ کہتا چلوں کہ سنیما مالکان اگر سنیماؤں کی سیٹیں، واش روم، مجموعی حالت اور ’ماحول‘ بہتر کر لیں اور حکومتِ وقت سنیماؤں پر سے ظالمانہ ٹیکس ختم کر دیں تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سنیما جانے والے 1970 کی دہائی کی طرح ایک بڑی تعداد میں فلم دیکھنے آئیں گے۔

سنہری فلمی دور سنیماؤں کا بھی سنہری دور تھا۔ بیرونی اور اندرونی صفائی ستھرائی میں سنیماؤں کا آپس میں مقابلہ رہتا تھا۔ سالانہ مرمتیں اور تزئین و آرائش بڑے اہتمام سے کی جاتی تھیں۔ سنیما مالکان اگر خصوصی توجہ دیں، ناپسندیدہ حرکات کرنے والوں کا سنیما میں آنا ممنوع کر دیں اور اچھی نیت رکھیں تو کوئی بڑی بات نہیں کہ پاکستانی فلمی صنعت کی نشاطِ ثانیہ ہو جائے۔

آغا جی اے گل کا فلمی سفر:

آغا جی اے گل نے پاکستان میں بطور فلمسازاپنا فلمی سفر، پنجابی فلم ”مُندری“ ( 1949 ) سے شروع کیا۔ اُن کی دوسری فلم ”دُلا بھٹی“ ( 1956 ) کھڑکی توڑ ثابت ہوئی۔ آغا صاحب کے تذکرہ نگار کہتے ہیں کہ اس فلم نے اُن کو اتنا نوازا کہ ملتان روڈ لاہور میں اپنے فلم اسٹوڈیوز کی داغ بیل ڈال دی۔ ایور نیو فلم اسٹوڈیوز سے پہلے بھی لاہور کی فلمی دنیا کا غیر منقسم ہندوستان میں ایک نام و مقام تھا۔ بڑے بڑے نامور فنکار، گیت نگار، موسیقار، فلمساز و ہدایتکار یہاں سے ہی بمبئی گئے تھے۔

ایور نیو فلم اسٹوڈیوز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد یہ پہلا فلم اسٹوڈیو قائم ہوا۔ اس کی بہت تاریخی اور ثقافتی اہمیت ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مجموعی طور پر فلمی صنعت اور نگار خانوں میں میسر سہولتیں زمانے کا ساتھ نہ دے سکیں۔ ترقی کرتی اور تبدیل ہوتی ہوئی فلم تکنیک میں ہمارے نگار خانے کہیں پیچھے رہ گئے۔

اِس سلسلے میں ایک دلیل دی جاتی ہے کہ فلمی صنعت کے زوال کا باعث ٹیلی وژن، وی سی آر اور ڈِش ہے۔ اگر یہ بات درست مان لی جائے تو پھر ہالی ووڈ امریکہ کے نگار خانے تو کبھی کے بند ہو جانے چاہیے تھے۔ کیوں کہ وہاں تو ہم سے بھی کہیں پہلے ٹیلی وژن اور ڈشیں موجود تھیں۔ نہیں صاحب! صرف یہ ہی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہاں تو اب بھی گراموفون ریکارڈ، آڈیو کیسٹ اور سی ڈیز بن بھی رہی ہیں اور دستیاب بھی ہیں۔

ہاں البتہ یہ صحیح ہے کہ ہمارے ہاں جو فلم بین طبقہ تھا اُس کی ایک بہت بڑی تعداد سنیما آ نا چھوڑ چکی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دوسروں کی کیا بات کروں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود میں 1973 سے 1980 تک ہفتہ میں بلا مبالغہ کم از کم ایک نئی فلم سنیما میں جا کر ضرور دیکھتا تھا کبھی دو بھی۔ عید پر تو تین تین اور چار چار بھی دیکھیں۔ مزہ بھی آتا تھا۔ فلموں کا ایک صحتمند مقابلہ تھا۔ اور اب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اب وہ بہاریں کہاں۔ ۔ ۔ ۔ ۔

لیکن ترقی یافتہ ممالک میں ایسا نہیں ہوا۔ وہاں ہر دور میں بڑی اسکرین پر سنیما دیکھنے والے موجود تھے اور اب بھی ہیں۔ ہمارے ہاں ایسا کیوں ہوا! صد افسوس کہ کبھی فلمی دنیا کے سرکردہ افراد نے اِس معاملے کی سنگینی کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ نہ ہی اس سے نبٹنے کے لئے کوئی پیش بندی کی۔ رہی حکومت! تو کسی بھی حکومت کو کبھی بھی فلمی صنعت کی فلاح و بہبود کی کوئی فکر نہیں رہی۔ کوئی ڈھنگ کی فلم پالیسی آج تک سامنے نہ آ سکی۔

آغا صاحب کی بحیثیت فلمساز مشہور فلمیں :
نمبر شمار، فلم، ہدایت کار، سال

1 * مُندری ( پنجابی ) داؤد چاند 1949

2 منام،  انور کمال پاشا، 1954

3

›اتِل

انورکمال پاشا

1955

4

دُلا بھٹی

محمد شفیع ڈار

1956

5

نغمہ ء دِل

نجم نقوی

1959

6

رانی خان

ایم جے رانا

1960

7

عذرا

مُنشی دل

1962

8

قیدی

نجم نقوی

1962

9

محبوب

! انور کمال پاشا

1962

10

زرینہ

آغا حسینی

1962

11

اِک تیرا سہارا

نجم نقوی

1963

12

ڈاچی

اسلم ایرانی

1964

13

شباب

منشی دل

1964

14

ائلہ

شریف نیر

1965

15

باغی سردار

ظہور راجہ

1966

16

پائل کی جھنکار

نجم نقوی

1966

17

جانِ آرزو

قدیر غوری

1968

18

نجمہ

مسعود پرویز

1970

19

سلامِ محبت

ایس ٹی زیدی

1971

20

دارا سکندر

رحمت علی

1981

آغا صاحب کے تذکروں میں یہ بات ملتی ہے کہ وہ محض اسٹوڈیو مالک یا ایور نیو پکچرز کے فلمساز ہی نہیں تھے بلکہ عملاً فنون کے سر پرست تھے۔ اپنی فلموں کی تیاری میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ مجھے علی سفیان آ فاقیؔ صاحب نے خود بتایا کہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ایور نیو اسٹوڈیوز میں بحیثیت فلمساز کسی بھی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو آغا صاحب نے اپنے اور اسٹوڈیو کے پیسے کو محفوظ رکھتے ہوئے کوئی لچک دار فارمولا پیش کیا۔ آفاقی صاحب کہتے تھے کہ آغا صاحب کامیاب بزنس مین اور اپنے اسٹوڈیو بزنس کو رواں رکھنے کے لئے فلمسازوں کو اپنے اسٹوڈیو میں فلمیں بنانے کے لئے کریڈٹ / اُدھار کی بھی کئی صورتیں نکال لیتے تھے۔ میرے خیال میں یہ ہی ایک چیز ایور نیو اسٹوڈیو زمیں دن رات فلموں کی عکسبندی قائم رکھے ہوئے تھی۔ بہت ہی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ تجارتی لچک دار سوچ، کراچی کے نگار خانوں میں سرے سے موجود نہیں تھی۔

اپنی فلموں کو جازبِ نظر بنانے کے لئے انہوں نے ہمیشہ خوبصورت گیتوں اور دل پذیر موسیقی پر زور دیا۔ شاید اسی لئے ان کا زیادہ تر انتخاب موسیقار رشید عطرے اور ماسٹر عنایت حسین رہے۔ قتیلؔ شفائی اور دیگر فلمی گیت نگاروں نے بھی آغاصاحب کی فلموں میں خوب خوب لکھا۔

پاکستانی فلمی صنعت کے نامو ر فلم ایڈیٹر زیڈ اے زلفی:

” مشہور اداکار اکمل اور اجمل میرے ماموں تھے۔ میر ے ایک اور عزیز رحمت علی فلم ایڈیٹر تھے۔ ان کی مشہور فلم رضا میر کی“ ناگ منی ” ( 1972 ) ہے۔ یہ ہی مجھے فلم ایڈیٹنگ کی دنیا میں لائے۔ میں ہمیشہ بدر منیر کا مشکور رہوں گا۔ انہوں نے مجھے فلم ایڈیٹر کی حیثیت سے پہلی فلم“ دہقان ” ( 1974 ) دلوائی تھی۔ وہ پشتو فلم تھی۔ میں نے تقریباً سب ہی فلمی ہدایتکاروں کے ساتھ کام کیا۔ مجھے سنگیتا کی فلم ’‘ مٹھی بھر چاول“ ( 1978 ) پر پہلا نگار ایوارڈ حاصل ہوا ”۔ اپنے بارے میں باتیں کرتے ہوئے زیڈ اے زلفی نے بتایا۔

” میں نے تقریباً 300 فلمیں کی ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اُس وقت کام ہی اتنا زیادہ تھا کہ کیا کہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسٹوڈیو سے رات کو گھر جانے والے جب اگلی صبح اسٹوڈیو آتے تو مجھے بدستور کام کرتا ہوا پاتے۔ کئی لوگ تو سمجھنے لگے کہ میں یہیں سوتا بھی ہوں“۔

ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا: ”بعض گانوں اور منظر ایڈیٹ کرتے ہوئے مزہ آتا تھا۔ خاص طور پر بغیر مکالموں کے منظر“۔

” میں 1969 سے 1973 تک کراچی میں رہا۔ یہاں میں نے اے سعید صاحب سے فلم ایڈیٹنگ کی الف ب اور ضروری اسرار و رموز سیکھے۔ ویسے تو اپنے کزن رحمت علی سے بھی ابتدا میں کام سیکھا لیکن صحیح معنوں میں مجھے سعید صاحب ہی نے کام سکھایا۔ میں ان ہی کو اپنا استاد مانتا ہوں۔ میں نے کراچی میں اشتہاری فلموں کا بہت کام کیا۔ ایسٹرن اور مارڈرن فلم اسٹوڈیوز میں کام کیا۔ یہاں میں نے فلم“ انسان اور گدھا ” ( 1973 ) ، “ ہنی مُون ” ( 1970 ) ، سندھی فلم“ چانڈیوکی ” ( 1969 ) اور“ گھونگھٹ لاہے کنوار ” ( 1970 ) ، “ روپ بہروپ ” ( 1971 ) ، “ آ خری حملہ ” ( 1972 ) ، “ رِم جھِم ” ( 1971 ) ، “ گُڑیا ” ( کچھ وجوہات کی بنا پر حمایتؔ علی شا عر صاحب نے اپنی یہ فلم نمائش کے لئے پیش نہیں کی ) ، “ جلے نہ کیوں پروانہ ” ( 1970 ) ، اقبال اختر کی سُپر ہِٹ فلم“ نادان ” ( 1973 ) ، “ انہونی ” ( 1973 ) اور بہت سی فلمیں کیں“۔

” نادان“ اور ”انہونی“ کی زبردست کامیابی کے فوراً بعد ہماری پوری ٹیم ہی لاہور منتقل ہو گئی۔ یہاں ہم نے سُپر ہِٹ فلم ”پھول میرے گلشن کا“ ( 1974 ) ، ”پردہ نہ اُٹھاؤ“ ( 1974 ) ، سُپر ہِٹ فلم ”محبت زندگی ہے“ ( 1975 ) اور کئی ایک فلمیں کیں ”۔

ایک سوال کے جواب میں زلفی صاحب نے بیساختہ کہا: ”میں نے یہ سب کام اپنی بساط سے کہیں زیادہ کیا۔ اب سوچتا ہوں تو خود حیران ہوتا ہوں کہ یہ کام کیسے کر لیا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “۔

موجودہ فلمی صنعت کے خراب حالات کے ذکر پر انہوں نے کہا: ”ہماری فلمی صنعت میں 1980 کی دہائی میں بھی بحران آیا تھا۔ یہاں لاہور میں اتنا برا حال ہوا کہ میں دوبارہ اشتہارات کے کام کے لئے کراچی چلا گیا۔ وہاں کمرشلز کی ایڈیٹنگ کی۔ اداکار ندیم نے داڑھی رکھ لی۔ تب ہدایتکار پرویز ملک نے اپنی سُپر ہٹ فلم“ قربانی ” ( 1981 ) کے لئے ہم دونوں کو لاہور بلوا لیا۔ اداکار ندیم اس فلم میں داڑھی میں نظر آ ئے۔ میں نے پرویز ملک صاحب کی فلم“ پہچان ” ( 1975 ) کی ایڈیٹنگ میں معاونت کی تھی۔ مصنف، فلمساز اور گیت نگار مسرورؔ انور اور ہدایتکار پرویز ملک کی فلم“ پاکیزہ ” ( 1979 ) ، ڈوسانی فلمز کے انیس ڈوسانی کی“ انمول ” ( 1973 ) ، نگار پکچرز کی سُپر ہِٹ“ میرے ہمسفر ” ( 1972 ) جو لاہور میں پرویز ملک کی پہلی فلم ہے، میں یہ سب فلمیں پرویز ملک صاحب کے ساتھ کر چکا تھا“۔

زلفی صاحب پاکستان کے خوش قسمت فلم ایڈیٹر ہیں جن کو اپنے میدان میں سب سے زیادہ نگار ایوارڈ حاصل ہوئے۔

زیڈ اے زلفی کو ملنے والے نگار ایوارڈ:

نمبر شمار

šلم

ہدایتکار

سال

1

مُٹھی بھر چاول

’نگیتا

1978

2

) ہانگ کانگ کے شعلے

جان محمد

1985

3

آگ ہی آگ

$محمد جاوید فاضل

1988

4

%انسانیت کے دشمن

حسنین

1990

5

۔ جو ڈر گیا وہ مر گیا

اقبال کاشمیری

1995

6

دیواریں

سید نُور

1998

7

چوڑیاں

سید نور

1998

8

ڈاکو رانی

سید نور

1999

9

تیرے پیار میں

حسن عسکری

2000

10

مہندی والے ہتھ

سید نُور

2000

گفتگو کے دوران یہ بھی علم ہوا کہ انہیں 10 نیشنل فلم ایوارڈ، گریجویٹ، بولان، باہو اور کئی ایک دوسرے ایوارڈ بھی حاصل ہوئے۔

اپنے کام کے بارے میں زیڈ اے زلفی نے بہت خوبصورت بات کہی: ”ہر ایک فلم ایک نیا امتحان ہوتی ہے۔ میں نے جب فلم ایڈیٹنگ کا کام سیکھنا شروع کیا تو میری والدہ نے ایک روز پوچھا کہ یہ کیسا کام ہے؟ مشکل تو نہیں؟ اس پر میرے منہ سے بیساختہ نکلا کہ یہ کوئی کام ہے؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ تو میں ایک ماہ میں ہی سیکھ لوں گا۔ دیکھ لیجیے آج اپنی والدہ کو کہے ہوئے اُس جملے کو 51 سال ہونے کو آئے لیکن میں اب بھی کام سیکھ ہی رہا ہوں“۔

” آپ کے ایک نہیں دو دو ماموں پہلے ہی فلمی دنیا میں نامور تھے۔ آپ کے ایک کزن بھی مستند اور جید فلم ایڈیٹر تھے۔ تو پھر آپ کو ایڈیٹنگ میں اپنی جگہ بنانے مین کوئی دشواری پیش نہیں آئی ہو گی؟ “۔ میں نے سوال کیا۔

” کچھ لوگ تو پوچھ لیتے ہیں جب کہ بہت سے یہ سوچتے ہیں ( جو بعد میں کی جانے والی ملاقاتوں میں بتا تے بھی ہیں ) کہ میں نے اگر ایڈیٹنگ میں کوئی تھوڑی بہت کامیابی حاصل کر بھی لی تو یہ صحیح معنوں میں تو کوئی کامیابی نہیں۔ ایسے لوگوں کے خیال میں مجھے فلم ڈائریکٹر میرے ما موؤں اکمل اور اجمل کی وجہ سے ہی کام دیتے تھے ورنہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں ایک بات جانتا ہوں کہ تعلق داری اور سفارش پر ایک آدھ کام تو مل سکتا ہے مگر زیادہ نہیں۔

۔ ۔ ۔ ۔ فلمساز اور ہدایتکار کی فلم کے اچھے یا برے ہونے میں اور عوامل کے ساتھ فلم کی ایڈیٹنگ کی بڑی اہمیت ہے۔ ایک ہی فلم کافی ہے۔ پھر تو آپ کو آپ کے کام نے چلانا ہے۔ کوئی سفارش تعلق داری کام نہیں آتی۔ کون اپنا لگایا ہوا پیسہ کسی تعلق داری نبھانے یا کسی دوست کی سفارش پر فضول قسم کی ایڈیٹنگ پر برباد کرے گا؟ ”۔

فلمساز اور ہدایتکار جان محمد کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا: ”میں نے کیمرہ مین، فلمساز ا ور ہدایتکار جان محمد کی ساری فلمیں ایڈیٹ کی ہیں۔ جیسے“ ہانگ کانگ کے شعلے ” ( 1985 ) جس پر مجھے اُس سال کے بہترین فلم ایدیٹر کا نگار ایوارڈ بھی حاصل ہوا تھا“۔

” سنیما میں پیسے خرچ کر کے فلم دیکھنے والے سنیما بین ہی کی بات حتمی ہوتی ہے کہ فلم اچھی ہے یا بری۔ کہانی، ہدایتکاری، کیمرہ مین کی مہارت، اسٹوڈیو میں لائٹنگ کیمرہ مین کا اچھا کام، گانے، موسیقی، رقص یہ سب یقیناً اپنی اپنی جگہ اہم ہیں لیکن اچھی ایڈیٹنگ فلم کی رفتار کو قائم کرتی ہے“۔

” لوگ موجودہ فلمی بحران کو فلمی صنعت کے لئے ’جھٹکا‘ کہہ رہے ہیں۔ میرے خیال میں تو یہ ’زلزلہ‘ ہے۔ فلم دیکھنے والے اور بنانے والے دونوں ہی بدل گئے ہیں۔ اب سرمایہ کراچی میں ہے۔ لاہور میں اب بھی کام کرنے کی گنجائش ہے۔ یہاں اپنے اپنے میدان میں بہترین ہنر مند دستیاب ہیں۔ بس جس چیز کی اشد ضرورت ہے وہی نہیں ہے۔ وہ ہے ’لچک‘ ۔ یہاں یہ خیال پرورش پا رہا ہے کہ سب کچھ لاہور ہی کا ہو۔ اسٹوڈیو مالکان بھی فلم بنانا چاہتے ہیں لیکن اس خواہش کو کیا کیجئے کہ اداکار، ٹیکنیکل افراد، ہنرمند وغیرہ سب لاہور ہی کے ہوں“۔

زیڈ اے زلفی سے فلمی دنیا کے موجودہ حالات پر اور بھی باتیں ہوتیں لیکن وقت محدود تھا۔ بہرحال یہ طے ہے کہ ماشاء اللہ زلفی صاحب کے پاس بیٹھ کر مجھے ہمیشہ بہت اچھا لگا۔ فلمی دنیا کی معلومات کا یہ خزینہ ہیں۔ عملاً یہ آج کل ایور نیو فلم اسٹوڈیوز میں اسٹوڈیو منیجر کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اور پُر اُمید ہیں کہ اچھا وقت بھی آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments