غلام رسول میمن: ادبی، صحافتی اور اشاعتی محاذ کا گمنام سپاہی


پچھلے دنوں، 17 جنوری 2020 ء کو سندھ کے نامور صحافی، اشاعت کار اور نثر نویس، غلام رسول میمن کو ہم سے بچھڑے 6 برس مکمل ہوئے۔ جب ہم غلام رسول میمن کا ذکر کرتے ہیں تو وہ قصہ صحافت کی دُنیا کے اُس گمنام سپاہی کا ہے، جو اپنی زندگی کی 75 بہاریں سندھی ادب، صحافت اور اشاعت کی دُنیا کو سونپ کر چُپ چاپ اس جہاں سے چلے گئے، اور آج اُن کی برسی شان و شوکت کے ساتھ منانے والا کوئی نہیں، کیونکہ یہاں جیتے جی بھی ادبی شامیں اور سالگرہ تقریبات اُن ہی کی منائی جاتی ہیں، جو تونگر ہوں، اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوں، مریدوں کی ایک کثیر تعداد رکھنے والے ہوں یا پھر صاحبانِ اثر و رسوخ ہوں۔

مرنے کے بعد بھی ایسے ہی لوگوں کی برسیاں منائی جاتی ہیں، جن کے لواحقین میں سے کوئی کسی اعلیٰ عہدے پر براجمان ہو۔ میں یہاں جس بے لو ث صحافی اور ادب کی دُنیا کے جس عظیم کارکن کا ذکر کررہا ہوں، وہ نہ تو پیسے والا تھا، اور نہ ہی اُس کے لواحقین میں سے کوئی کسی اعلیٰ عہدے پر فائز ہے۔ اُس سچے صحافی اور جفاکش ادبی کارکن کا نام غلام رسول میمن ہے، جو آج سے 6 برس قبل کراچی کے آغا خان ہسپتال میں اپنی آخری سانسیں لے کر اس دُنیا سے چلے گئے۔

غلام رسول میمن نے اپنی روشنی سے سندھ کی صحافت اور اشاعت کی دُنیا کو جِلا تو بخشی، مگر اُن کا نام گانے والے، اُنگلیوں پر گننے جتنوں سے بھی کم ہیں۔ یہ صرف غلام رسول میمن ہی کی بات نہیں، بلکہ ایسے گمنام ستاروں سے سجی ایک وسیع کہکشاں ہے، جس کی ضیاء سے بہت سارے بے بصارت محروم ہیں۔ یہ بات مُسمّم حقیقت ہے کہ ایسے گمنام ستاروں کو نئی نسل سے ملوانا ہم جیسے قلمکاروں ہی کا کام ہے۔

غلام رسول میمن، میرے والد کے دیرینہ دوست ہونے کی وجہ سے میرے لئے ”چاچا غلام رسول میمن“ تھے۔ میری اُن سے ابتدائی ملاقاتیں 80 ء کی دہائی کے اوائل میں شکارپور کے لکھیدر کے علاقے میں واقع اُن کے پریس (ماڈرن پرنٹنگ پریس) پر اُن دنوں ہوئیں تھیں، جب ”سندھڑی کتابی سلسلے“ کی ابتدائی کتب وہاں کمپوزٹ ہوتی اور چھپتی تھیں۔ اُن دنوں میں نونہال تھا، اس لیے اُس دور میں جب چاچا غلام رسول میمن مجھے اپنے کمپازیٹر سے میرا نام کمپوزٹ کروا کے پرنٹ نکلوا کے دکھاتے تھے، تو میں اپنا نام کاغذ پر چھپائی کے انداز میں دیکھ کر بہت خوش ہوتا تھا، اور اپنے اُس چھپے ہوئے نام والا نیوز پیپر پرنٹ والا کاغذ، مہینوں تک اپنے پاس سنبھال کے رکھا کرتا تھا۔ میں نے اُسی دور سے چاچا غلام رسول میمن کو ایک سچے، کھرے، محنتی اور سیدھے سادے انسان کی حیثیت سے پہچانا، جو متعدد اجتماعی معاملات اور مسائل پر بشمول میرے والد کے اپنے دوستوں کو کھری کھری سُنا دیا کرتے تھے اور اصولی اختلافات سامنے رکھ دیتے تھے۔

19 جنوری 1939 ء کو سندھ کے پیرس، شکارپور میں عبدالرزاق میمن اور حاکم زادی کے گھر میں پیدا ہونے والے، غلام رسول میمن نے (جن کا سرکاری ریکارڈ کے مطابق یومِ پیدائش 2 جنوری 1939 ء ہے۔ ) تعلیم کے ابتدائی مراحل قاضی محلہ شکارپور والے پرائمری اسکول اور گورنمنٹ پرائمری اسکول لاڑکانہ میں حاصل کر کے سیکنڈری تعلیم کے سلسلے کو لاڑکانہ ہی میں جاری رکھا، جہاں وہ گورنمنٹ ہائی اسکول لاڑکانہ میں 4 سال پڑھنے کے بعد میٹرک پاس کرنے ہی والے تھے، کہ اُن کے والد کا انتقال ہو گیا اور وہ یتیم ہو گئے۔

والد کی وفات کے بعد اُن کا شکارپور واپس آنا نا گزیر ہو گیا۔ شکارپور آ کر اُنہوں نے مولوی محمّد عظیم کے چھاپہ خانے میں ربر کی مُہریں بنانے کا کام سیکھا اور اپنی عملی زندگی کا آغاز پرنٹنگ پریس کی مزدوری سے کیا۔ شکارپور میں اُن دنوں کے ”پرنٹنگ ماسٹر“ اُستاد محمّد یوسف جونیجو نے اُن کو چھپائی کا مکمّل کام سکھایا۔ شکارپور شہر چھپائی (پرنٹنگ) کے لحاظ سے پاکستان بننے سے پہلے سے لے کر مشہور رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ برِصغیر کا پہلا چھاپا خانہ (پریس) شکارپور ہی میں لگا۔

”پوکر داس اینڈ سنز“ اور دیگر پریسوں کی چھپی ہوئی اوائلی کتب، آج بھی سندھی اور مقامی انگریزی ادب کا قدیم انمول خزانہ سمجھی جاتی ہیں۔ ایسے ہی پرنٹنگ اور پبلشنگ کے مرکز سمجھے جانے والے شہر نے غلام رسول میمن کی شخصیت میں چُھپے ہوئے صحافی کو اپنے ذوق کے مطابق روزگار، خواہ مشغلے کا خوبصورت موقع فراہم کیا۔

غلام رسول میمن نے صحافت کی دُنیا میں 1965 ء میں قدم رکھا اور جیکب آباد کے ہفتہ وار اخبار ”صداقت“ کے بچّوں کے لیے شایع ہونے والے صفحے کو ایڈٹ کرنے سے اپنے صحافتی سفر کا آغاز کیا۔ ساتھ ساتھ سچل سرمست نیوز سروس سے وابستہ ہو کر، روزنامہ ”ہلالِ پاکستان“ حیدرآباد، روزنامہ ”نوائے سندھ“ حیدرآباد، روزنامہ ”خادمِ وطن“ حیدرآباد اور روزنامہ ”مہران“ حیدرآباد میں جیکب آباد کی خبریں بھیجنے سے فیلڈ رپورٹنگ کا آغاز کیا۔ اُن ہی دنوں میں ( 1965 ء میں ) پاک بھارت جنگ لگی تو جیکب آباد سے روزنامہ ”جہاد“ کا اجراء ہوا، جس کی کمپوزیٹنگ کی ذمہ داری غلام رسول میمن کو سونپی گئی۔ اس طرح وہ اخبارکی ادارت میں غالب لطیف اور عبدالکریم گدائی جیسی شخصیات کے معاون رہے۔

ہم ذکر کر کے آئے کہ غلام رسول اپنے والد کے انتقال کے باعث میٹرک کی تعلیم ادُھوری چھوڑ کر عملی زندگی میں مصروف ہوگئے تھے، وہ تعلیمی سلسلہ اُنہوں نے بعد ازاں ( 1967 ء میں ) پورا کیا۔ میٹرک کا امتحان پاس کر کے وہ 10 مارچ 1967 ء کو سکھر سے شایع ہونے والے اخبار، روزنامہ ”مغربی پاکستان“ کے نمائندھ مقرر ہوئے۔ 1966 ء میں غلام رسول نے، بیدل مسرور بدوی، سلیم چنّہ، عزیز سندھی، نیاز رجبانی اور ندیم قاضی کے ساتھ مل کر ”ادب محل“ پبلیکشن کا اجراء کیا، جس پلیٹ فارم سے سندھی افسانوں کی کئی کتابیں اور ”گلشن سیریز“ کے تحت کئی کتب اور کتابچے شایع ہوئے۔

”گلشن سیریز“ کو ایڈٹ کرنے کی ذمہ داری غلام رسول میمن ہی کے ذمے ہوا کرتی تھی۔ اپنی عملی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے تعلیمی سلسلے کو غلام رسول نے گاہے بہ گاہے جاری ضرور رکھا۔ اس ضمن میں 1969 ء میں اُنہوں نے انٹر پاس کیا، جس کے بعد وہ جنوبی پنجاب چلے گئے، جہاں انہوں نے صادق آباد میں اپنا چھاپہ خانہ کھولا۔ 1975 ء میں گریجویشن کا امتحان پاس کر کے، سکھر میں ”ماڈرن پرنٹنگ پریس“ قائم کر کے، اُسی سال گھر بسایا اور مہرالنساء کے ساتھ رشتہء ازدواج میں منسلک ہو گئے۔ اُنہیں تین بیٹیوں اور تین بیٹوں کی اولاد ہوئی، جن میں سے اِس وقت ایک بیٹی اور ایک بیٹا حیات ہیں۔ تعلیمی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے اُنہوں نے 1977 ء میں گورنمنٹ اسلامیہ کالج سکھر سے اقتصادیات میں ایم۔ اے۔ کیا۔

1977 ء میں غلام رسول میمن نے شکارپور میں اپنے محنتی قلمکار ساتھی نقش نایاب منگی کے ساتھ مل کر ”مہران پبلیکشن“ کے نام سے ایک نئے اشاعتی سلسلے کی داگ بیل ڈالی، جس کے تحت تقریباً 20 اہم ادبی کتب شایع ہوئیں، جن میں سے قابلِ ذکر ”اساں جا ادیب، اساں جا شاعر“ (ترجمہ: ”ہمارے ادیب، ہمارے شاعر“ ) نامی سندھی میں سندھ کے شاعروں اور ادیبوں کے مختصر ذاتی تعارف اور شعری نمونوں پر مشتمل کتب کا سلسلہ ہے۔ سندھ کے اُس دور کے بیشتر نمائندہ شعراء کی ڈائریکٹری کے طور پر اس کتابی سلسلے کو بے حد پسند کیا گیا۔ سندھی زبان کا پہلا انسائیکلوپیڈیا بھی ”مہران پبلیکشن“ ہی کی جانب سے شایع کیا گیا، جو مکمل نہ سہی، مگر سندھی کا کلیدی انسائیکلوپیڈیا ضرور ہے۔

1979 ء میں غلام رسول میمن نے، سکھر والے ماڈرن پرنٹنگ پریس کو شکارپور منتقل کیا۔ 24 فروری 1989 ء سے انہوں نے شکار پور سے ”قربانی“ نامی اور 17 جون 1991 ء سے ”نایاب“ نامی ہفتہ وار اخبار جاری کیا۔ ان دونوں اخبارات کے اجراء سے نہ صرف شکارپور کے صحافتی حلقوں میں تحرک پیدا ہوا، بلکہ شکارپور کے مسائل کو بھی صحافتی قلم کے ذریعے آواز ملی۔ یہ اخبارات شکارپور کے مقامی مسائل کے ابلاغ کے ساتھ ساتھ ادبی خدمت بھی انجام دیا کرتے تھے۔

صحافت اور پبلشنگ کے میدان میں اپنی بے پایاں خدمات انجام دینے والے، غلام رسول میمن ایک منفرد اور بے باک کالم نویس اور افسانہ نویس بھی تھے۔ اُنہوں نے متعدد اخبارات میں پُر اثر کالم اور مضمون لکھ کر، اپنے قلم کے ذریعے عوامی خدمت کی۔ اس ضمن میں روزنامہ ”سندھ نیوز“ حیدرآباد میں جنوری 1977 ء سے ”سکھر سے خط“ کے عنوان سے اُن کے کالموں کا سلسلہ، اکتوبر 1991 ء سے روزنامہ ”ناظم“ شکارپور میں شایع ہونے والے ”گر تو بُرا نا مانے“ کے عنوان کے تحت اُن کے کالموں کا سلسلہ اور جُون 1991 ء سے ہفتہ وار ”نایاب“ شکارپور میں اُن کے مستقل کالم ”گھڑیاں گزاریں جن کے ساتھ“ (جس میں اُنہوں نے اہم ادبی اور صحافتی شخصیات اور امر کرداروں کے ساتھ گزارے ہوئے اپنے قیمتی لمحوں کی یادیں تحریر کرنے کا سلسلہ شروع کیا) سمیت، ”قربانی“ اور ”نایاب“ اخبارات میں اُن کے لکھے ہوئے اداریے قابلِ ذکر ہیں، جو اپنے دور کے مسائل کی آواز اور اُس دور کی تاریخ ہیں۔

غلام رسول میمن، تنظیم کاری اور تنظیم سازی کے حوالے سے بھی ایک متحرک کارکن تھے۔ شکارپور ہسٹاریکل سوسائٹی، کتاب محل پبلیکشن، سندھی لیکھک یاد گار کمیٹی جیسے اداروں کی بنیاد ڈالنے اور ان تنظیموں خواہ تحریکوں میں روح بھرنے کے ساتھ ساتھ وہ ”انجمنِ اصلاح معاشرہ“ اور ”سندھ گریجوئیٹس ایسوسی ایشن“ کے ساتھ بھی سرگرم کارکن کی حیثیت سے وابستہ رہے۔

صحافت کی دُنیا کے یہ جواں مرد سپاہی، جیون کی جنگ لڑتے لڑتے سخت بیماری کی حالت میں پیر 6 جنوری 2014 ء کو شکارپور سے کراچی لائے گئے، جہاں تفصیلی چیک اپ کے بعد اُن کو پھیپھڑوں کے نمونیہ (پھیپھڑوں میں آکسیجن کی کمی) کی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس وبا کو میڈیکل کی زبان میں ”کرونک آبسٹرکٹو پلمونری ڈزیز“ کہا جاتا ہے۔ اُنہیں 8 جنوری 2014 ء کو کراچی کے آغا خان ہسپتال منتقل کیا گیا، جہاں 17 جنوری 2014 ء کو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اُسی دن غروبِ آفتاب سے پہلے سندھ کے اس بے باک صحافی اور بظاہر غریب الحال، مگر دراصل ایک عظیم آدمی کو اپنی جنم بھومی شکارپور میں دھرتی ماں کی آغوش میں سُلا دیا گیا۔ غلام رسول میمن کی اہلیہ، مہرالنساء بھی حال ہی میں 9 ستمبر 2019 ء کو اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملی ہیں۔

غلام رسول میمن کے چَھٹے یومِ وفات پر اُن کی برسی کی تقریب کسی عظیم الشان جلسے کی صورت میں تو منعقد نہیں کی گئی، مگر سندھی ادب اور صحافت کے بظاہر خاموش، مگر دراصل چیختے چلّاتے اوراق اور اُن پر تحریر شدہ الفاظ کی سیاہی، اُن کی قلمی مشقّت کی گواہ ہے، جو اُن کی کی ہوئی محنت کی قدردان بھی ہے، تو اُن کی صحافتی، ادبی، ادارتی اور اشاعتی خدمات کی روشن دلیل بھی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments