جمہوریت: ایک غیر معیاری نشہ


بچپن کا دور امیجینیشن کا دور کہلاتا ہے۔ اس دورمیں جو فلمیں چھپ چھپ کردیکھیں، ان میں ہیروز کو اپنی رومانوی ناکامیوں پرسگریٹ یا شراب کے جام سے غم مٹاتے دیکھا۔ جس سے جانے ہمیں کیوں لگنے لگا کہ یہ نشہ ہماری بھی تمام معصومانہ خواہشات کے قتل عام پر کاری گر ثابت ہوسکتا ہے۔ پرایک تو بچپن کی قدرتی بزدلی تھی تو دوسرا گھر والوں کو اپنی اچھی تربیت کا زعم کہ ان کی کڑی نگرانی نے دوا جانچنے کا موقع تو نہیں دیا۔ لیکن دماغ کے کچے سلیٹ میں دکھوں سے مداعوے کا یہ فلسفہ نقش ضرور ہو گیا۔

خیر زندگی کی سیڑھیاں قدم بہ قدم پھلانگتے پھلانگتے لڑکپن کی شعوری دہلیز پر پہنچے۔ جہاں پر معاشرے نے اپنے سینے میں پنپتی محرومیوں سے آگاہ کیا۔ اس آگاہی نے جہاں سیکھنے سکھانے کو بہت کچھ دیا اس نے ایک گھٹن کا احساس پیدا کیا۔ اب اس اندرونی گھٹن کا مدعوا کیسے کرنا تھا، فلسفہ تو پاس تھا ہی سہی بس موقع کی تلاش تھی۔

پہلے نشے کا جائے وقوعہ کالج کینٹین میں دھویں کے غول اڑاتے ہم جولیوں کا گروپ تھا۔ شاہانہ طریقے سے پہلا کش کھنیچتے ہی جانے کیوں کھانسی کا ایسا شدید دورہ پڑا کہ لگا پھیپڑے حلق سے باہر نکلنے کو ہیں۔ اس ناکامی پر چند حرف بھیجتے ہوئے سگریٹ کو پیروں سے مسلا اور اسے ایک سستا نشہ قرار دیا۔ شاید ہمارا یہ بیانیہ پاس کھڑے دوست کے لئے باعث تکلیف تھا، اس نے فورا سگریٹ کو ایک مشکوگ مواد سے بھر کر ہمیں نسبتا مہنگے نشے کی افادیت کے بارے میں آگاہ کیا۔

پر استعمال کے بعد اندازہ ہوا کہ دلی ابھی ہنوز دور ہے۔ یوں وقت گزرہا تھا، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقل و شعور کی پختگی لازمی تھی۔ ملک کو درپیش مسائل بہتر نا ہو سکنے اور بہتر نا کر سکنے کے باعث، سوتے جاگتے ضمیر کو کچوکے لگا رہے تھے۔ بے چینی اور بے سکونی بڑھ رہی تھی۔ ایسے میں کسی سیانے کا قول سنا کہ مہ نوشی، سگریٹ نوشی کا استاد ہے۔ پر من وعن عمل کرنے پر معلوم پڑا کہ ہمارا مرض تو دوا کا استاد تھا۔

بد دلی سے مایوسی کو کفر مانتے زندگی اپنے دن بیتا رہی تھی۔ اب سوچ کے ساتھ مسائل میں بھی پختگی نظر آتی تھی۔ گھٹن، کرب میں بدل رہی تھی کہ جانے کہاں سے ایک دن سیاست کے ایک سرکریدہ رہنما کے نام کو بطور نشہ سنا۔ دربدر ٹھوکریں کھانے کے بعد اتنے شکوک و شبہات کا جنم ہو چکا تھا کہ یہ معاملہ بھی اونچی دکان پھیکی پکوان والا لگ رہا تھا۔ لیکن نہیں استعال کے بعد تمام اندازے غلط ثابت ہوئے۔ نشہ نا صرف خالص تھا بلکہ ان تمام دکھوں کا مدعوا بھی تھا جس میں ملک و قوم جکڑی ہوئی تھی۔

گھٹن آلود فضا میں ووٹ کو عزت کی مہک اتنی دل گرویدہ تھی کہ لوگ حصول کے لئے جوک در جوک قطاروں میں لگ رہے تھے۔ جس نے نا صرف مخالفین کے سینوں میں مونگ دلنا شروع کر دیں تھیں بلکہ ان کے چھکے چھڑوا دیے تھے۔ گھٹن کے بادل چھٹنے کی امید برسوں بعد پیدا ہوئی۔ پر شریکے کہاں خاموش رہنے والے تھے انہوں نے قوم کی فلاح کے نام پراس نشہ کا توڑ ڈھونڈنا ہی تھا۔ پہلے تشہیر پر پابندی لگا دی گئی پھر ترسیل پربھی رکاوٹیں کھڑی کر دی گئیں۔

باوجود اس کے کہ خالص نشہ اپنی تاثیر دیر تک قائم رکھتا ہے لوگوں کی طلب میں اضافہ ہورہا تھا۔ مقتدر حلقوں کو مزید خطرہ محسوس ہوا تو انہوں نے شہرت خراب کرنے کے لئے اس میں ملاوٹ کرنا شروع کردی۔ پر شاید وہ بھول گئے کہ ڈوبتوں کو تنکے کا سہارا بھی اچھا لگتا ہے۔ امید کا دامن ابھی بھی ہاتھ سے نہیں چھوٹا تھا۔ پر دوسری طرف منظرعام سے غائب ہونے کی وجہ سے نشہ خود اپنی افادیت سے آگاہ نہیں تھا۔ اسی لاعلمی میں اس نے اپنا وجود اس کردار کے حوالے کر دیا جو معاشرے کی گھٹن کی بڑی وجہ تھی۔

یوں آخروہ ہی ہوا جو برسوں سے ہوتا آ رہا تھا۔ مرض نے دوا کے ساتھ سازباز کرکے اس جمہوری سوچ کی جان لے لی جس کی امید برسوں بعد بر آ رہی تھی۔ اس تجربے سے یہ ضرور سیکھنے کو ملا کہ نشہ تو ویسے بھی ایک نقصان دہ شہ ہے پر اگر غیر معیاری ہو تو مزید نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments