منفی سوچ کے حامل لوگوں سے بچنا کیوں ضروری ہے؟


منفی سوچنے والے یا قنوطیت پسند وہ لوگ ہوتے ہیں جو مثبت بات میں بھی تاریک پہلو ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ ایسے لوگں کی کچھ خاص نشانیاں ہوتی ہیں ان سے بچنا ضروری ہے کیونکہ ایسے لوگ آپ کی مثبت سوچ کو نگل لیتے پیں اور آپ کو ذہنی بیمار کر دیتے ہیں۔

پہلی نشانی یہ ہے کہ وہ آپ کے متعلق آپ سے زیادہ فکر ظاہر کرتے ہیں۔ انہیں اپنی زندگی سے زیادہ آپ کی زندگی پہ کمانڈ حاصل ہوتی ہے اور آپ کو مشورہ دیتے رہیں گے کہ ایسے کرو، ویسے کرو، یہ نہ کہو وہ نہ کہو۔ ہمارے جاننے والوں میں ایک حضرت ایسے گزرے ہیں جو پہلے مکمل غور و فکر سے جائزہ لینے کے بعد فرمایا کرتے تھے۔ آپ کچھ پریشان لگ رہی ہیں۔

انہیں لاکھ کہیں کہ ایسا کچھ نہیں پھر بھی اصرار کرتے نہیں نہیں کوئی بات تو ضرور ہے۔ آپ ہنستی ہیں لیکن آنکھیں اداس ہیں۔ تب کم عمری تھی تو ان کی نحوست کا اتنا سایہ ضرور پڑ جاتا تھا کہ مجھے واقعی بلا وجہ کی اداسی ہونے لگتی تھی۔ دراصل یہ لوگ منفی سوچ اور عزائم کے حامل ہوتے ہیں اور دوسروں کی خوشی اور پازٹیو انرجی کو کھا جاتے ہیں۔

اہسے لوگ ہمیشہ گومگو کی کیفیت میں رہتے ہیں دوسرے الفاظ میں انہیں نادیدہ خوف میں رہنے کی عادت ہوتی ہے خود فیصلہ لینے میں کمزور ہوتے ہیں اور دوسروں کو بھی الجھن میں مبتلا کر کے خوش ہوتے ہیں۔ سادہ الفاظ میں

ارادے باندھتا ہوں سوچتا ہوں توڑ دیتا یوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہو جائے
کی عملی تفسیر ہوتے ہیں

تیسری علامت یہ ہے کہ وہ کسی نہ کسی کو خواہ وہ ان کے زیادہ قریب نہ بھی ہو بہت رازدان ظاہر کرتے ہیں۔ اپنی حقیقت کو چھپاتے ہیں اور گیدرنگ میں بھی اپنے آپ کو الگ یا پھر کسی کے ساتھ بہت کلوز ظاہر کر کے تنہائی رکھتے ہیں۔

بری خبر ان کے لیے ایک اچھا موقع ہوتی ہے بات کرنے کا۔ وہ بری خبر پھیلا کے خوش ہوتے ہیں۔ کہیں بھی ہوں انہیں جیسے ہی کوئی بری جبر ملے گی وہ جنگل میں آگ کی طرح پھیلائیں گے۔

پانچویں علامت یہ ہے کہ وہ اپنی انا یا عزت نفس کو لے کر بہت ہی ذود رنج اور غیر ضروری حساس ہوتے ہیں۔ کوئی مذاق میں کہی گئی بات یا کسی اور کے حوالے سے کہی گئی بات کو وہ خود سے منسوب کرکے اسے اپنی عزت نفس پہ چوٹ مان لیتے ہیں۔ مطلب ایویں خوامخواہ ان کی بے عزتی ہو جاتی ہے اور بات کرنے والے کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اس سے کوئی گناہ سرزد ہو گیا ہے۔

شکوہ شکایت، گلہ، ان کا مرغوب مشغلہ ہوتا ہے۔ منفی سوچ کا یہی نقصان ہے کہ وہ آدھا خالی گلاس دکھاتی ہے نصف بھرا نظروں سے اوجھل رہتا ہے۔ اسی لیے وہ ہمیشہ شکوہ شکایت سے بھرپور رہتے ہیں۔

نئے لوگوں سے ملنا، نئے تجربات کرنا، درایافت کرنا انہیں سخت نا پسند ہوتا ہے۔ انہیں اپنے محدود سرکل میں رہنا شدت سے پسند ہوتا ہے۔

اہسے لوگوں کو لفظ ’لیکن‘ سے محبت ہوتی ہے۔ جیسا کہ اگر وہ آپ کو اپنی زندگی سے مطمئن دیکھیں تو کہیں گے سب اچھا ہے لیکن اگر یہ بھی ہوتا تو اچھا تھا۔ وہ دوسروں میں احساس محرومی پیدا کرکے خوش ہوتے ہیں۔

وہ نہ تو نئے مقصد پیش نظر رکھتے ہیں نہ ان کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ مستقبل کے حوالے سے نہ خواب سجاتے ہیں نہ انہیں سینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس لیے کافی حد تک ناکام ہوتے ہیں۔

انہیں اپنی زندگی سے، سٹیٹس سے، ازدواجی حیثیت سے، ملازمت اور کاروبار ہر چیز سے شکایت ہوتی ہے۔ اور ان سب میں قصور ہمیشہ دوسروں کا نظر آتا ہے۔

وہ اچھی خبر کو بھی برے انداز سے پیش کرتے ہیں۔ گویا مکمل خوشی ان کے لیے قابل قبول نہیں ہوتی۔

ایک اور شدید بری عادت بلیم گیم کھیلنے کی ہوتی ہے۔ پہلی بات وہ کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اگر ان سے تعلق رکھنے والے لوگ معاملہ سنبھالتے ہوئے جھکنے کی غلطی کر بھی لیں تو وہ الزام کی بوجھاڑ شروع کرتے ہیں تاکہ دوسرا انسان ہی خود کو مجرم سمجھے اور یہ خود کو مہان ثابت کرتے رہیں۔

ایسے لوگوں سے بچنا ضروری ہے کیونکہ وہ آپ کی کام کرنے کی توانائی، اچھا سوچنے کی صلاحیت، نئے خواب دیکھنے اور حاصل کرنے کے حوصلے، اپنی صلاحیتوں کو پہچاننے اور سنوارنے کی خوبی، خوش اور مطمئن رہنے کی عادت، محبت وپیار کے جذبے کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں اور آپ کو احساس تک نہیں ہو پاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments