دھڑکتا دل


(ایڈگر ایلن پو کی کہانی کا ترجمہ)

مانتا ہوں بابا مانتا ہوں کہ میں خاصہ نروس ہوں۔ اضطراب کا شکار ہو جاتا ہوں۔ آج سے نہیں، ہمیشہ سے۔ مگر تم لوگ مجھے پاگل کیوں سمجھتے ہو۔ میری بیماری نے تو میری حسوں کو اور تیز کر دیا ہے۔ خاص طور پر میری سننے کی حس کو۔ میں وہ آوازیں سن سکتا ہوں جن کا عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مجھے کائنات کی، زمین آسمان کی، جنت دوزخ کی ہر آواز صاف صاف سنائی دے جاتی ہے۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ میں پاگل ہوں۔ اچھا دیکھو میں کتنے سکون سے تمہیں یہ سچی کہانی سنا رہا ہوں۔ کوئی پاگل ایسے سنا سکتا ہے؟

اب غور سے سنو۔ مجھے یاد نہیں کہ اس خیال نے پہلی مرتبہ کب میرے ذہن میں سر اٹھایا لیکن اس کے بعد یہ خیال ایک آسیب کی طرح میرے پیچھے پڑ گیا اور دن رات میرے ذہن کو پریشان کرتا رہا۔ نہ اس کا کوئی مقصد تھا نہ مطلب۔ میں اس بوڑھے آدمی کی عزت کرتا تھا۔ بلکہ اسے پسند بھی کرتا تھا۔ اس نے مجھے کبھی کوئی ضرر نہیں پہنچایا تھا۔ مجھے اس کے دھن دولت سے غرض نہیں تھی۔

لیکن اس کی آنکھیں۔ ہاں یہی بات تھی۔ اس کی آنکھوں کی پیلی رنگت اور ان پر چڑھی جھلی بالکل مردارگدھ کی آنکھوں کی طرح تھی۔ جب یہ مردہ آنکھیں میری طرف دیکھتی تھیں، میری رگوں میں خون منجمد ہو جاتا۔ میر ا سارا جسم جیسے مفلوج ہو جاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ میری قوت برداشت جواب دے چکی تھی۔ بلآخر میں فیصلہ کر لیا کہ اس بوڑھے کی جان لے کر ہی میں ان آنکھوں سے مستقل نجات حاصل کر سکتا ہوں۔

اب دیکھو جو لوگ پاگل ہوتے ہیں نا، انہیں کوئی سمجھ نہیں ہوتی۔ لیکن کاش تم دیکھ سکتے کہ میں نے کس قدر سمجھ، ہوشیاری اور احتیاط سے یہ سار ا منصوبہ بنایا اور کتنی عقلمندی سے اس منصوبے کو ایک ہفتے میں عملی جامہ پہنایا۔ کوئی پاگل ایسے سوچ سکتا ہے؟ ایسے بات کر سکتا ہے؟

اس پورے ہفتے میں دن کے وقت میں اس بوڑھے سے اتنی ہمدردی، رحمدلی تہذیب سے پیش آتا کہ وہ میرا گرویدہ ہو گیا تھا۔ لیکن جب رات آدھی گزر جاتی تو میں بوڑھے کے کمرے کی کنڈی بہت احتیاط سے کھولتا۔ میں نے ایک چھوٹی سی لالٹین بنائی تھی جس کو میں نے اتنی احتیاط سے ڈھانپا ہوتا کہ روشنی بالکل باہر نہ نکلتی۔ میں دبے پاؤں، مکمل خاموشی سے آہستہ آہستہ اس کے بستر کے پاس جاتا اور لالٹین کی ایک شعاع کی روشنی میں بوڑھے کی آنکھوں کو دیکھتا جو ہمیشہ بند ہوتیں۔ میں انتظار کرتا رہتا کہ شاید یہ گھناؤنی آنکھیں کھولے اور میں اپنے پلان کو تکمیل تک پہنچاؤں۔ مجھے بوڑھے سے تو کوئی ذاتی دشمنی تو نہیں تھی۔ میں تو صرف ان کریہہ آنکھوں سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا۔

صبح ہوتے ہی میں پھراس کے کمرے میں جاتا، اس سے پوچھتا کہ کیا رات آرام سے گزری؟ اس کی خاطر تواضع کرتا۔ اس سے ایسی گرم جوشی سے پیش آتا کہ وہ شبہ کر ہی نہیں سکتا تھا کہ میں آدھی رات کو اس کو قتل کرنے کے ارادے سے اس کے کمرے میں گیا تھا۔

بلآخر آٹھویں رات کو جب میں اس کے کمرے میں گیا تو میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ میں ایک جنگلی جانور کی طرح پنجوں پر چل کر اس کی لوہے کی چارپائی کی طرف بڑھا۔ میں نے لالٹین کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپا ہوا تھا۔ شاید لالٹین کی پتلی دھات کا ڈھکن چرمرایا تو بوڑھا جاگا اور بستر میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ”کون ہے“؟ ۔ بوڑھا ایک خوف زدہ آواز میں چلایا۔ میں موت کی طرح وہیں منجمد ہو گیا۔

تھوڑی دیر کے بعد مجھے کراہنے کی آواز سنائی دی۔ لیکن یہ تکلیف یا اداسی کا کراہنا نہیں تھا۔ یہ ایک ایسے خوف کا کراہنا تھا، جو خوف زدہ روح کی گہرائیوں سے اٹھتا ہے۔ جس میں آدمی اپنی طرف بڑھتی ہوئی موت کے قدموں کی چاپ سن لیتا ہے لیکن کچھ کر نہیں سکتا۔ میں س خوف سے مانوس تھا۔ راتوں کی تنہائی میں مجھے لگتا تھا جیسے موت میرے دروازے پر دستک دے رہی ہے۔ لیکن اب مجھے ہنسی آ رہی تھی کہ میری بجائے وہی موت اب اس بوڑھے کے سرہانے پر کھڑی ہے۔

میں بہت دیر خاموش کھڑا رہا۔ اب بوڑھے کے کراہنے کی آواز آنی بند ہو گئی تھی۔ میں نے بہت ہی آہستہ سے لالٹین کو ذرا سا کھولا تاکہ ایک شعاع کی روشنی میں بوڑھے کی گدھ نما آنکھ دیکھ سکوں۔

اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور مجھے گھور رہی تھیں۔ میرا دل ایسے زور سے دھڑکا کہ لگا میرا سینہ پھاڑ کر باہر نکل آئے گا۔ میں غصے سے کانپ رہا تھا۔ وہ بے جان سی آنکھیں جن پر جھلی چڑھی ہوئی تھی۔ جن سے مجھے نفرت تھی۔ مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھیں۔ مجھے اس کا چہرہ نظر نہیں آ رہا تھا۔ لالٹین سے روشنی کی اکیلی لکیر ان آنکھوں پر پڑ رہی تھی۔

میں نے تمھیں بتایا ہے نا کہ میری سننے کی حس بہت تیز ہے۔ مجھے اچانک ایسی آواز سنائی دی جیسے کسی تولئے میں لپٹی ہوئی گھڑی ٹک ٹک کر رہی ہو۔ لیکن مجھے معلوم تھا کہ یہ گھڑی کی نہیں بلکہ بوڑھے کے دل کے دھڑکنے کی آواز تھی۔ اس آواز کا مجھ پر وہی اثر ہو رہا تھا جو ڈھول کی آواز سن کر فوج کے سپاہیوں پر ہوتا ہے۔ جو ایسی آواز کو سن کر جوش میں آ جاتے ہیں۔ جان لینے اور دینے پر تیار ہو جاتے ہیں۔

اب میں نفرت سے بھر پور تھا۔ میرا غصہ عروج پر تھا۔ لیکن پھر بھی میں نے لالٹین کی روشنی کو ان آنکھوں پر مرتکز کیے رکھا۔

بوڑھے کے دل کے دھڑکنے کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی گئی۔ مجھے ڈر لگا کہ کہیں ہمسائے اس آواز کو سن کر جاگ نہ ہو جائیں۔ ایک زوردار چیخ مارکر میں بوڑھے کی طرف لپکا۔ وہ خوف سے چلایا۔ میں نے اسے بستر سے فرش پر گھسیٹا۔ وہ ایک مرتبہ پھر چیخا لیکن میں نے موٹے گدے سے اس کو ڈھانپ کر لوہے کا پلنگ اس پر اوندھا کر دیا۔ دل کے دھڑکنے کی آواز پھر بلند ہوئی لیکن آہستہ آہستہ بند ہو گئی اور پھر سے سناٹا چھا گیا۔ میں نے لوہے کا پلنگ اس کے اوپر سے اٹھایا۔ بوڑھے کی لاش پتھر کی طرح فرش پر پڑی تھی۔ فتح کے نشے میں چور میں نے اس کے دل پر ہاتھ رکھا۔ دل کی دھڑکن ختم ہو چکی تھی۔

میں بوڑھے کی لاش پر کھڑا مسکر ا رہا تھا۔ میں نے کتنی سمجھداری سے یہ سارا مسئلہ حل کر دیا تھا۔ کوئی پاگل تو ایسا نہیں کر سکتا نا؟ اب وہ نفرت انگیز آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی تھیں۔ اب مجھے سکون مل گیا تھا۔

ہاں میں تمھیں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ میں نے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے باورچی خانے سے گوشت کاٹنے کا بڑا چھرا احتیاطا اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ اب میں نے کمرے کے کھوکھلے فرش سے بڑی صفائی سے تین تختے ہٹائے۔ چھرے سے بوڑھے کی لاش کے ٹکڑے کیے اور اسے کھوکلی جگہ میں چھپا کر تختے پھر سے لگا دیے۔ فرش کو ایسی مہارت سے صاف کر دیا جیسے یہاں کچھہ ہوا ہی نہ ہو۔

میں اپنے اس کارنامے پر بہت خوش تھا۔ اب مجھے وہ اطمینان اور سکون نصیب ہو گیا جس کو میں مدت سے ترس رہا تھا۔ میں اسی فرش پر کھڑا مسکرا رہا تھا جس کے نیچے ابھی میں نے ایک لاش کو دفن کیا تھا۔ یہ سارا کام کرتے کرتے صبح کے چار بج گئے تھے لیکن اندھیرا اب تک ایسے تھا جیسے آدھی رات ہو۔

جیسے ہی چار کا گجر بجا، اچانک کسی نے بہت زور سے گھر کا دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔ میں بالکل نہیں گھبرایا۔ دروازہ کھولا تو دیکھا تین پولیس والے کھڑے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک ہمسائے نے چیخ کی آواز سن کر پولیس سے رابطہ کیا تھا۔ میں نے چالاکی سے مسکراتے ہوئے پولیس افسروں کو اندر آنے کی دعوت دی اور انہیں اسی کمرے میں لے گیا جہاں میں نے اتنی مہارت سے ایک نا قابل سراغ قتل کا ارتکاب کیا تھا۔

میں نے انہیں بتایا کہ یقینا ہمسائے نے چیخ سنی ہو گی کیونکہ اپنی اعصابی بیماری کی وجہ سے میں اکثر ڈراؤنے خواب دیکھتا ہوں اور سوتے میں چیخ پڑتا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ بوڑھا دیہات میں اپنی زمینوں پر چند دن کے لئے گیا ہوا ہے۔ میں نے انہیں گھر کا ایک ایک کمرہ دکھایا اور پھر اسی کمرے میں واپس آ کر پولیس والوں کے ساتھ بیٹھ گیا۔ میر ی اپنی کرسی ان تین تختوں پر تھی جن کو ابھی میں نے اکھاڑ کر دوبارہ جوڑا تھا۔

پولیس والے میری کہانی سے بالکل مطمئن ہو گئے تھے۔ میرے پر اعتماد انداز نے ان کو یقین دلا دیا تھا کہ میں نے کچھ نہیں کیا۔ اب وہ بیٹھے دنیا جہان کی باتیں کر رہے تھے، گپ شپ لگا رہے تھے، میں بھی ان کے ساتھ ہنسی مذاق کر رہا تھا۔

لیکن جب اس ہنسی مذاق میں کافی دیر ہو گئی تو مجھے بے چینی ہونے لگی۔ مجھے لگا جیسے میرے بدن میں سوئیاں سی چبھ رہی ہی۔ سر میں کوئی ہلکی سی دھک دھک کی آواز گونج رہی ہے۔ میں نے گفتگو کو ختم کرنے کی کوششش کی۔ لیکن پولیس والے اس زندہ دل گفتگو سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ ان کے جانے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ وہ اسی طرح بیٹھے رہے۔

اب میرے سر میں دھک دھک کی گونج بلند ہوتی جارہی تھی۔ مجھ پر سخت اضطراب کی کیفئت طاری ہونے لگی تھی۔ اس کو چھپانے کے لئے میں نے مزید جوش و خروش کے ساتھ باتیں کرنی شروع کر دیں۔ لیکن میری جھنجھلاہٹ بڑھتی گئی۔ میں دیکھ تو نہیں سکتا تھا لیکن مجھے احساس ہو رہا تھا جیسے میری رنگت پیلی پڑ گئی ہے۔ میری رگوں میں خون خشک ہو گیا تھا۔ یہ پولیس والے دفعہ ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔

اب میری آواز میں ایک تندی اور تیزی آ گئی تھی۔ میں اپنے اندر کے شور کو ڈھانپنے کے لئے جتنی زور سے بات کرتا وہ شور بھی اتنا ہی بلند ہو جاتا۔ لیکن عجیب بات ہے کہ پولیس افسروں کو کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میری سانس اکھڑنے لگی تھی۔ مجھے ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے لیکن پولیس والے اسی طرح باتوں پر ہنس رہے تھے۔ میرے اندر کا شور لمحہ بہ لمحہ بڑھتا جا رہا تھا۔ دل کے دھڑکنے کی آواز اب اتنی بلند ہو گئی تھی کہ لگتا ساری دنیا سن سکتی ہے۔ میں اب بیٹھ نہیں سکتا تھا۔ میں اٹھا اور بے چینی سے کمرے کے ایک کونے سے دوسرے تک تیز تیز چلنا شروع کر دیا۔ لیکن آواز کی گونج بڑھتی جا رہی تھی۔

اوہ خدایا۔ میں کیا کر سکتا تھا۔ ا ب میں باتیں نہیں کر رہا تھا۔ میں چلارہا تھا۔ لیکن میرے اندر کا شور اس سے بھی زیادہ بلند آواز سے چیخ رہا تھا۔ دھک دھک کی آواز بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھی۔

مجھ پر ایک وحشت اور ہذیان کی کیفئت طاری ہو گئی تھی۔ میرے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ دل کی دھڑکن زمین آسمان میں گونج رہی تھی۔ اور میں چلا چلا کر پولیس افسروں کو بتا رہا تھا۔ ہاں میں نے بوڑھے کو قتل کیا ہے۔ ہاں مجھے اس کی گدھ نما جھلی والی پیلی آنکھوں سے نفرت تھی۔ ہاں، کیا تم بہرے ہو گئے ہو۔ کیا تم سن نہیں سکتے کہ اس کا دل ابھی تک دھڑک رہا ہے۔ اس تختے کے نیچے وہ منحوس دل ابھی تک دھک دھک کر رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments