قضیہ کشمیر پر ہماری کہانیاں ریاست کھا گئیں


کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا ہو تو دلائل کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے ورنہ منزل سے پہلے یا تو انسان راستہ بھٹک جاتا ہے یا ہار کا جھولا جھولنا پڑتا ہے۔ سفر پر جانے سے پہلے مسافروں سے حالات سفر اور ذرائع سفر کی اچھی طرح سے جانچ بہت ضروری ہوتی ہے، بڑے کام کے لیے بڑی دلیل ضروری ہے۔

مسئلہ جموں وکشمیر کو 73 سال ہونے کو ہیں، 73 سالوں میں ظلم کی لازوال داستانیں رقم ہوئیں، تحریک آزادی کشمیر میں اتار چڑھاؤ آتے رہے، بھارتی سامراج ظلم کرتے تھکا تو تھکا مگر قربانیاں دینے والے نہ تھکے مگر ان 73 سالوں میں آزادی کے بیس کیمپ میں بیٹھی گفتار کی غازی، اقتدار کی زلف گرہ گیر کی اسیر قیادت یہ سوچ کر لیلائے اقتدار کے گیسو سنوارنے میں مصروف رہی کہ مقدمہ کشمیر کے لیے تو وکیل (پاکستان) ہے جانے وکیل اور جانے مقدمہ، وکیل نے مقدمہ تو لڑا ابتداء میں اقوام متحدہ میں کچھ کامیابیاں بھی سمیٹی لیکن ان کا تسلسل وکیل سے برقرار نہ رکھا جاسکا اور اپنے اندرونی مسائل میں الجھ کر وکیل دہائیوں تک مقدمے سے ہی دور رہا۔

پھر یوں ہوا کہ 5 اگست 2019 کو ریاست جموں و کشمیر جس کے مقدمے کا فیصلہ ابھی آنا باقی تھا اس کے ایک حصے (بھارتی مقبوضہ جموں وکشمیر) کو ہندوستان کی فاشسٹ حکومت نے دو لخت کر دیا اور کشمیریوں کو گھروں میں قید کردیا گیا، لاک ڈاؤن، اور میڈیا بلیک آؤٹ کردیا گیا، تب جاکر کشمیریوں کے وکیل نے مقدمے کی فائلز دوبارہ کھولنے کی کوشش کی اور مختصراً یہ کہ اپنی صلاحیت کے مطابق شور شرابا کیا اسی دوران آزادی کے بیس کیمپ کی قیادت کو مقدمہ کشمیر میں اپنا رول ادا کرنے کا خیال آیا اور وزیراعظم آزاد کشمیر جذباتی انداز میں رول کے لئے دوہائی دیتے نظر آتے۔

اور بدقسمتی سے یہ زبانی رونا دھونا ہی رہا، کیونکہ وزیراعظم آزاد کشمیر نے کبھی دلائل سے بات ہی نہیں کی، کبھی یہ نہیں کہا کہ حکومت پاکستان نے آزاد کشمیر میں اقوام متحدہ کے متحدہ کے کمیشن برائے ہندوستان و پاکستان کی قراردادوں کے تحت ذمہ داریاں سنبھالی ہوئی ہیں اور آزاد کشمیر اور پاکستان ان قراردادوں اور آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 کے مشترکہ آئینی تعلقات میں بھی بندھے ہوئے ہیں۔ کبھی وزیراعظم آزادکشمیر نے یہ بھی نہیں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کشمیریوں کے کردار کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہوا ہے اور حکومت پاکستان کا یہ اخلاقی اور آئینی فریضہ بنتا ہے کہ وہ کشمیریوں کی پشت پناہی کرے اور انہیں اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھنے کے لیے تعاون فراہم کرے۔

کچھ ایسا ہی حال ہمارے ہاں کشمیر پر کام کرنے والی این جی اوز اور تنظیموں کا ہے۔ میں نے سینکڑوں سیمینارز اور کانفرنسز اٹینڈ کی جہاں بھارتی ظلم و جبر کے قصے کہانیاں بیان کی جاتی ہیں اور ان کی مذمت کی جاتی اور پھر یہ کہہ کر فرض پورا ہوجاتا ہے کہ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے ذریعے ممکن ہے لیکن کیسے ممکن یہ نہیں بیان کیا جاتا۔ مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی درجن سے زائد قراردادوں پر کام نہیں کیا جاتا، قانونی پہلو کا ذکر نہیں کیا جاتا، 1948 میں رائے شماری کیوں نہ ہوسکی، اگلا قانونی لائحہ عمل کون سا ہے اس پر بات نہیں کی جاتی۔

کچھ ایسا ہی حال ہمارے وکیل کا ہے جو 73 سالوں سے مقدمہ کشمیر لڑ رہا ہے اور ابتداء میں قوی دلائل سے کامیابیاں بھی سمیٹی مگر پھر دلائل کمزور پڑ گئے، دلچسپی ختم ہوگئی کہ 56 سال تک اقوام متحدہ میں کشمیر پر بات تک نہ ہوسکی اور 5 اگست 2019 کا منحوس دن دیکھنا پڑا۔ کشمیریوں کے وکیل نے پھر سے مقدمہ کشمیر کی فائلز اوپن کی اور پاکستان کی ہی درخواست پر اب تک کشمیر کی صورتحال پر دو مرتبہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلایا جاسکا ہے جو پاکستان کی بڑی کامیابی ہے۔ مگر بدقسمتی سے لائحہ عمل پھر بھی نہیں ہمارے پاس، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم 5 اگست کے بعد ماضی کی سنگین غلطیوں سے سبق حاصل کریں ہم قوی دلائل سے تکنیکی پہلو پر بات کرتے، دنیا کو بتاتے اقوام متحدہ پر زور ڈالتے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارتی فوج سرینگر حکومت کے ماتحت کچھ شرائط پر داخل ہوئی تھی اور اس نے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حکومت کشمیر کے ماتحت کام کرنا تھا، مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی موجودگی عارضی تھی اور اس کے لیے وہاں کچھ حدود کا تعین تھا مگر اپنی حدود سے تجاوز کرکے اور اقوام متحدہ کے قوانین کی خلاف ورزی کرکے 1948 کے بعد ہندوستان مقبوضہ جموں وکشمیر پر قابض ہے۔

ہمیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مقبوضہ جموں وکشمیر کی صورتحال کے حوالے سے 1957 کو سلامتی کونسل کی جن ذمہ داریوں کی نشاندہی کی گئی تھی ہمیں سلامتی کونسل پر زور دینا چاہیے تھا کہ وہ ذمہ داریاں نبھائے اور جب تک متنازعہ ریاست کے مشترکہ حل کے لیے فریقین راضی نہیں ہوجاتے سلامتی کونسل حل کی سفارش کرے اور اس پر عمل درآمد کروائے مگر بدقسمتی سے ہم نے جذباتی بیانات پر ہی زور رکھا اور خارجہ محاذ پر تکنیکی پہلو اور دلائل کو نظر انداز کیا جس کی وجہ سے دنیا کو ہم اعتماد میں لینے میں بھی ناکام رہے۔ پاکستان کو کشمیر پالیسی ری وزٹ کرنے کی اشد ضرورت تھی مگر نہ کی جاسکی، آزادی کا بیس کیمپ بھی کہانیاں سناتا رہا، اور کرسی کا کھیل جاری رکھا یہی وجہ ہے کہ قضیہ کشمیر پر ہماری کہانیاں ریاست کھا گئیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments