زرا سوچئے!! معاشرے میں بچوں پر بڑھتے جرائم کا سدباب


میں سمجھنے سے قاصر ہوں۔ قرآن شریف کو گھروالے، نانی، دادی، دادا یا نانا یا ماں، باپ گھر پر نہیں پڑھا سکتے؟

وہ بچوں کے اسکول کا ہوم ورک کیسے کراتے ہیں؟

گھر میں تربیت کیا معنی رکھتی ہے؟

تربیت کیا ہے؟

کیا والدین کے لئے بچے محض ان کے میاں بیوی ہونے کا ثبوت ہے اور اس سے زیادہ بچوں کی ماں باپ کی نظر میں کوئی وقعت اہمیت نہیں۔ ہے تو کیا؟

کیایہ بھی سیاسی و ریاستی معاملہ ہے؟

کیا تربیت اس کا حصہ نہیں۔

اسکول یا مدرسے بھیجنا ہی ان کی ذمہ داری ہے اور بس۔

مدرسوں کا وجود تو ضیاء الحق کے دور میں پروان چڑھا۔

اس سے پہلے بچے بچیاں کیسے دینی تعلیم حاصل کرتے تھے۔

میں نے اپنے گھر میں بچپن سے یہی دیکھا کہ نانی اماں قرآن شریف پڑھاتی تھیں۔ پڑھنے کا ایک وقت مقرر تھا۔ آس پڑوس میں کہلا بھیجتیں کہ بچے، بچیوں کو قرآن شریف پڑھانا ہو تو اس وقت صاف سھترے کپڑے پہنا کے بھیج دیا جائے۔ یہ بھی نانی اماں اس غرض سے کیا کرتیں کہ نماز عصر کا وقت ہوا تو بچوں کو ساتھ ساتھ نماز بھی سیکھا دیں گی۔ نہ کسی کو یہ ڈر تھا کہ بچے کہیں دور جاریے ہیں نہ یہ دھڑکا کہ جہاں بچوں کو بھیجا جا رہا ہے وہاں مرد ہی مرد ہوں گے (اگر یہ دھڑکا نہیں تھا تو اب ہونا چاہیے۔آج کیوں اندھے اعتماد کا سلسلہ جاری ہے ) ۔ وقت سے بچے آتے اور وقت سے ہی واپس گھروں کو چلے جاتے۔

یہ اس کراچی کی بات ہے۔ جہاں بیس پچیس سال پہلے ان نانی دادیوں کی جگہ قاری، مولوی صاحبان نے لے لی۔ جن گھروں میں یہ سلسلہ شروع ہوا ممکن ہے وہاں دینی تعلیم ہی بقیہ مندہ سفید پوش اور ان گھروں کی تمیز و تہذیب دیکھ کر روش کے طور پر اپنائی گئی ہو لیکن حالات تب بھی آج کے حواس باختہ معاشرے سے انتہائی بہتر تھے۔

آج بچوں کے ساتھ تعلیم سے جڑے جن گھناؤنے جرائم کی ہوس پھیلی ہے وہ دور جاہلیت کی بھی نہیں ہے۔ جس کا سدباب لاکھ حکومتی سطح پر ہوجائے، ہر ایک مجرم کو پھانسی ہو جائے تو کیا یہ سب احتیاط و سد باب، سزائیں ملکر والدین کی تربیت کا متبادل ہوسکے گا؟

خواتین اتنی ذمہ داری تو لے لیں کہ اپنے بچوں کا ہاتھ پکڑے آپ ہی ان کی حفاظت کے لئے کافی ہوں۔

خیبر پختون خوا میں جہاں پٹھان بھائیوں کے بقول عورت انتہائی محفوظ ہے تو اس محفوظ عورت کے تحفظ میں ہی بچوں کو اسکول بھیج دیا کریں۔

اگر آپ کی طرز معاشرت کسی بودہ نظام پر کھڑی کھڑی دم توڑ چکی ہے تو جہاں اتنی تبدیلی لائے۔ وہاں معاشرے کے بودہ پن کی بھی تو شناخت کریں۔ معاشرے میں عورت کا کردار بھی تو جانیں!

اسلامی نظریات سے ہی جان لیں!

کس نے کہا آپ کو شعور کے لئے کراچی کی ٹرین میں بیٹھنا ضروری ہے؟

(میں پنجاب کی بات اس لئے نہیں کررہی کہ وہاں تو مذہبی و دینی سارا شعور مدرسے میں بند ہے۔ اور وہاں سے سارے مدرسوں کے کرتا دھرتا کراچی کی ہی ٹرین میں سوار کرائے جاتے ہیں لاہور بھی تو شہر ہے، قریب بھی ہے وہاں کیوں آئے دن احتجاج کرنے والے احتجاج نہیں کرتے؟ جب کے ساری مذہبی تنظیموں کے بانیان پنجاب میں پیدا ہورہے ہیں۔ )

جرگہ، عوامی عدالت بناتے۔ (جہاں شک و شبہات، ذاتی عناد پر صرف عورت کو سزائیں نہ سناتے ) گھناؤنے جرائم، بچوں کے خلاف جرائم پر کڑی سزا دیتے۔

شک اور قتل میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ شک پر معافی کی گنجائش ہے اور قتل پر، ’انسانیت کا قتل‘ ہو رہا ہے۔

کہیں سے تو بچوں کے خلاف ان گھناؤنے درندوں کو پھانسی ہو۔

تعلیم و شعور عورت کا گہنا ہے، زیور ہے۔

پنجاب میں عورت کا استعمال ہوتا ہے، سندھ میں عورت کیا مرد کا بھی استحصال جاری ہے، بلوچستان میں بقول بلوچ بہن کے الفاظ ”بلوچ صرف بلوچ ہیں عورت مرد کوئی نہیں“ (بحوالہ آرٹ کونسل میں منعقدہ تقریب)

باقی سندھ و پنجاب کی عورت کے بارے میں مذکورہ بالا میری اپنی رائے ہے۔ ممکن ہے میں غلط ہوں۔

کراچی ہے تو سندھ کا شہر، الگ سے بات مجھے نہیں کرنی چاہیے پر لکھ رہی ہوں، کیونکہ یہاں عورت شعور و تعلیم رکھتی ہے، اندرون جیسا معاملہ نہیں، البتہ عورت کے حوالے سے دہقانی ادب، مسلسل، ٹی وی ڈرامے کی صورت، کراچی پر اپنی جڑیں جمانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

زرا سوچئے! ملکر سوچیں۔

تعلیم ضروری ہے تو کیوں؟

مجھے تو ضروری اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ تعلیم و تربیت، عورت و مرد کی آرا، باہمی اتفاق ہی ملکر درست اور محفوظ معاشرے کی بنیاد ڈال سکتے ہیں۔

پھر عمل کریں۔ اسی میں ہمارے معاشرے کی بنیاد بھی ہے مضبوطی بھی۔ اور اسی سے تمام جنسی و ذہنی جرائم کا خاتمہ بھی ممکن ہے۔ اپنے بچوں کے محفوظ مستقبل کے لئے اکٹھے ہونا ناگزیر ہے اس میں کسی معاشرے کی تقلید شرط نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments