کیا مشہور جاسوسی کردار شرلاک ہومز واقعی فرضی تھا؟


شرلاک ہومز سے بچپن ہی میں شناسائی ہو گئی۔ کچھ ہماری طبعیت سے میل کھانے کے باعث وہ ہمارا پسندیدہ کردار بن گیا۔ جب وہ محدب عدسہ تھامے، الجھے ہوئے جرائم کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے پائپ کے کش لگاتا، ڈاکٹر واٹسن کو کچھ ادھوری باتیں جاننے کی ذمہ داری سونپتا، اشاروں کنایوں میں باتیں کرتا، تو ساتھ میں ہماری جان پہ بھی بنی ہوتی۔ شرلاک ہومز کے ساتھ ساتھ ہمارے دماغ میں بھی کھلبلی مچی ہوتی، کون ہے آخر مجرم ؟ کیسے ہوا یہ قتل؟

شرلاک ہومز کی کہانیاں پڑھنے کے بعد یہ نقصان ہوا کہ ہماری پہلےسے متجسس طبعیت تکلیف دہ حد تک سوالیہ نشان میں ڈھل گئی۔ آپا کی کچھ سہیلیوں نے زچ ہو کے ہمارا نام سوالوں کی پڑیا رکھنے کی تجویز دے دی۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ گھر میں ہماری سرگرمیاں پراسرار ہونے لگیں۔ ہمارے ایک بھائی اپنی ایک الماری ہمیشہ مقفل رکھتے اور چابی کہیں چھپا دیتے۔ اب چابی کی تلاش میں ہم سراغرسانی کی اپنی ساری صلاحیتیں بروئے کار لاتے۔ قالین کے کونے، صوفوں کے پیچھے، پلنگ کے نیچے، کتابوں کے درمیان، جیکٹ کی جیبیں اور آخرکار کامیابی ہمارے قدم چومتی۔ اب الماری کھولنے کا مرحلہ درپیش ہوتا۔ تمام احتیاطی تراکیب بروئے کار لا کے ہر ڈائری اور ہر لفافے کی ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے اسے نکال کے پڑھا جاتا اور پھر اسی لحاظ سے واپس جمایا جاتا۔ الماری بند کی جاتی، چابی خفیہ جگہ پہ واپس رکھ دی جاتی اور ہمیں اپنا آپ شرلاک ہومز محسوس ہونے لگتا۔

Basil Rathbone (1892-1967) as Sherlock Holmes

ہمارے گھر ابا نے ایک قانون وضع کیا تھا کہ ڈاک آنے کی صورت میں کوئی کسی کا خط نہیں کھولے گا چاہے کسی بھی بچے کے نام ہو۔ سو سب اپنا اپنا خط کھولتے اور پھر بتا دیتے کہ کسی دوست یا کزن کا خط ہے، پڑھنے کے لئے کوئی کسی سے نہ مانگتا۔

ہم نے جب اپنے آپ کو شرلاک ہومز کا شاگرد سمجھتے ہوئے ٹوہ رکھنے کا راستہ اپنایا، تو ہمیں خط کھولنے اور پڑھنے کی تحریک بھی ہوئی۔ ہم ایک پتیلی پانی سے بھر کے چولہے پہ چڑھاتے، پانی کھولتا، بھاپ چھوڑتا، ہم لفافے کو اس بھاپ کے اوپر رکھتے، گوند پگھل جاتی اور لفافہ کھل جاتا۔ ہماری آنکھیں چمکنےلگتیں، پڑھ کے بہت احتیاط سے ذرا سی گوند پھر سے لگائی جاتی، لفافہ بند ہو جاتا اور ساتھ میں ہمارا مشن مکمل۔

آپا کی گھرکیوں کے باوجود ان کی سہیلیوں میں گھس بیٹھنا ہمیں بہت مرغوب تھا، اپنے سے دس برس بڑی لڑکیوں کی چٹ پٹی باتیں سننے کو ملتیں۔ ایک دفعہ اخب ارخواتین پڑھنے کو بیٹھے تو ش- فرخ کے مسائل کے کالم تک جا پہنچے۔ پہلا مسئلہ پڑھتے ہی ایسا محسوس ہوا کہ یہ تو کچھ سنا ہوا سا ہے۔ بھیجنے والی کا نام دیکھا تور – الف لکھا ہوا پایا۔ یہ تو آپا کی سہیلی معلوم ہوتی ہیں جو آپا سے اس دن کھسرپھسر کر رہی تھیں، ہم بڑبڑائے۔ پھولتے سانسوں کے ساتھ سیدھے آپا کےپاس پہنچے اور انہیں اپنی معلومات سے آگاہ کیا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ مت پوچھیے لیکن اتنا بتاتے چلیں کہ ہمارا حسابی اندازہ درست تھا۔

اب مڑ کے ان دنوں میں جھانکتے ہیں تو ہنسی بھی آتی ہے اور شرمندگی بھی دامن گیر ہوتی ہے۔

Arthur Conan Doyle 1914

بعد کے برسوں میں کتابیں پڑھتے پڑھاتے علم ہوا کہ شرلک ہومز کا کردار گو کہ فرضی ہے، لیکن مصنف آرتھر کونن ڈائل نے یہ کردار جوزف بیل نامی ایک صاحب سے متاثر ہو کے لکھا گیا جو واقعی ان صلاحیتوں کے مالک تھے اور جو سکاٹ لینڈ یارڈ کو مختلف معمے حل کرنے میں مدد دیا کرتے تھے۔ مزے کی بات یہ ٹھہری کہ حضرت جوزف بیل ہمارے ہم پیشہ یعنی ڈاکٹر تھے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ ان کا بچپن ہمارے جیسا روشن تھا یا نہیں۔

ڈاکٹر جوزف بیل (1837-1911) سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے سرجن اور ایڈنبرایونیورسٹی میں استاد تھے۔ ڈاکٹر بیل ملکہ وکٹوریہ کے ذاتی معالج اور میڈیکل کی ابتدائی کتابوں کے مصنف تھے۔ بیل مشاہدے اور باریک بینی کو اپنا بنیادی ہتھیار گردانتے۔ وہ اکثر کسی اجنبی کو راہ چلتے روکتے اور صرف چال ڈھال، حرکات وسکنات اور حلیے سے اس کا پیشہ اور حالیہ سرگرمیاں بتا دیتے۔

شرلاک ہومز کے خالق مصنف آرتھر کونن ڈائل نے 1977 میں رائل انفرمری ہسپتال ایڈنبرا میں بیل کے کلرک کے طور پہ ملازمت اختیار کی۔ آرتھر نے بیل کے ساتھ کام کرتے ہوئے اس کی عادات دیکھیں، اور بیل کو سکاٹ لینڈ یارڈ کے چند مشہور جرائم کے واقعات میں مدد کرتے پایا۔ ان میں مشہور عالم رپر قاتل کا کیس اور Ardlamont mystry شامل تھے۔

Joseph Bell

آرتھر، ڈاکٹر بیل سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے شرلاک ہومز کا کردار تخلیق کر ڈالا۔ آرتھر نے اپنے آپ کو شرلک ہومز کے ساتھی ڈاکٹر واٹسن کا کردار دیا۔ آرتھر کونن ڈائل نے بہت سے اصل واقعات کو قلمبند کیا اور شرلاک ہومز کا کردار شہرت اور پسندیدگی میں شہرت کی بلندیوں پہ جا پہنچا۔ ڈاکٹر جوزف بیل آرتھر ڈائل کی تخلیق اور اس کے پس پردہ اپنی شخصیت کی اصلیت سے آگاہ تھے۔ لیکن انہوں نے مصنف کی تخضلیقی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر اسے ایک خط میں لکھا، “اب میں شرلاک  ہومز نہیں رہا، تم خود اس مرتبے پر فائز ہو چکے ہو”۔

زندگی کے ادوار سے گزرتے گزرتے بہت برسوں کے بعد ہمیں رائل انفرمری ہسپتال ایڈنبرا جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں پہنچتے ہی شرلاک ہومز کی کہانیاں اوراپنا بچپن یاد آ گیا۔ ہم نے اپنی دوست ڈاکٹر فرح سے، جو وہاں کام کرتی ہیں، پوچھنے کی کوشش کی کہ کیا رائل انفرمری ہسپتال نے ڈاکٹر بیل کو یاد رکھا؟ بدقسمتی سے ڈاکٹر فرح قصے کہانیاں پڑھنے سے اتنی ہی دور ہیں جتنے قطب جنوبی اور شمالی، سو ہمیں جواب ملا، کون شرلاک ہومز؟

ہسپتال میں گھومتے گھومتے یونہی ایک دیوار پہ نظر پڑی اور ہم چونک اٹھے۔ ڈاکٹر بیل کی تصویر مع تعارف کے جگمگا رہی تھی۔ شرلاک ہومز سے مماثلت کے متعلق وہی کچھ لکھا تھا جو تاریخ کا حصہ ہے۔

ہم خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے۔ بچپن کی شرارتیں، امی ابا کا گھر، آپا، خط، الماری کی چابی اور ہمارا ہیرو شرلاک ہومز، سب کچھ دماغ کی پردہ سکرین پہ فلم کی طرح چل رہا تھا۔

ہم اپنی کتب بینی پہ نازاں تھے اور اپنے گھر میں آنکھ کھولتے ہی کتاب کو اپنا ساتھی دیکھنے پہ شکر گزار تھے!  احسان مندی کے اس لمحے میں ہم نے خود سے سرگوشی کی، “شکریہ ابا”!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments