خُدا بخش سانگی۔ سندھ کے گمنام تعلیمی خدمتگار


سندھ کی یہ خوشقسمتی رہی ہے کہ یہاں ہر دور میں ہر شعبے میں نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات پیدا ہوتی رہی ہیں، مگر ساتھ ساتھ یہ ہماری بد قسمتی بھی رہی ہے کہ سوائے چند شعبوں میں اپنی خدمات انجام دینے والوں کے، باقیوں کے بارے میں بہت کم لوگ جانتے ہیں، کیونکہ ادب، صحافت اور ایسے ہی چند اور شعبوں کے علاوھ باقی لگ بھگ تمام شعبوں سے وابستہ شخصیات کے حوالے سے نہ اُن کی زندگیوں میں کچھ لکھا جاتا ہے، نہ ہی بعد از مرگ۔

ایسے شعبوں میں سائنس، سماجی خدمات، کھیل اور تعلیم جیسے کئی ایک شعبے ہیں، جن کے لا تعداد سپاہیوں اور جاں فشانی سے اپنا کام، فرض کی طرح انجام دینے والی ہزاروں شخصیات کو ہماری نئی نسلیں نہیں جانتیں۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے بجاء طور پر فرمایا تھا کہ اگر سندھ کے ہر گاؤں کا کوئی ایک پڑھا لکھا شخص اپنے گاؤں اور اُس کے گرد و نواح کی ایک ایک صفحے پر مشتمل ہی تاریخ بھی لکھے، تو سندھ کی تاریخ ایک دن میں محفوظ ہو سکتی ہے۔

سندھ میں ایچ۔ ایم۔ خوجہ کو تو امر جلیل اور قمر شہباز جیسے طالب العلم ملے، جنہوں نے اپنے اس مثالی اُستاد کے بارے میں لکھ کر نسلوں کو بتایا، کہ خوجہ صاحب کون تھے! یا پھر قاضی خضر حیات جیسے شاگرد نے اپنے اُستاد، ڈاکٹر اے۔ کیُو۔ کے۔ افغان کی حیات و خدمات کے حوالے سے کتاب ترتیب دے کر تو اپنے اُستاد کو تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئے محفوظ کردیا، مگر ضلع لاڑکانہ کے شہر نوڈیرو میں پیدا ہونے والے مثالی اُستاد، تعلیمدان اور تعلیمی منتظم، خُدا بخش سانگی کو شاید ایسا کوئی طالب العلم نہیں ملا، جو اُن کی تدریسی اور انتظامی خدمات کو قلمبند کر کے اُن کی ذات کے اُجالے کو آنے والی نسلوں تک پہنچاتا۔

یکم جولائی 1934 ء کو لاڑکانہ ضلع کے تعلقہ رتودیرو میں نؤں دیرو شہر کے قریب ”موہیل“ نامی چھوٹے سے گاؤں میں پیدا ہونے والے خُدا بخش سانگی کے والد کا نام بلاول خان سانگی، جبکہ والدہ کا نام ”سیانی“ تھا، جو تھیں بھی واقعی سیانی! سانگی صاحب کے آباء و اجداد کا تعلق جنوبی پنجاب سے تھا، جو اُس وقت سندھ ہی کا حصّہ تھا۔ یہ بزرگ ملتان کے گرد و نواح سے، سانگی صاحب سے تقریباً چھ پشتیں قبل، اس نواح میں نؤں دیرو کے قریب گاؤں ”وڈا موہیل“ میں آکر آباد ہوئے، جہاں کے راشدی پیروں کے خانوادے سے ان کی محبّت اور اپنائیت کا ایسا تعلق جُڑا، جو آج تک نسل در نسل چلتا آ رہا ہے۔

خُدا بخش سانگی کا بچپن، گاؤں موہیل کی اُس پِیروں والی حویلی میں ”پیر زادوں“ کی طرح گزرا، جس حویلی کی وُسعت کا سوچ کر کسی آرٹ مُووی کا کوئی پُر سکون منظر ذہن میں آتا ہے۔ اُن کا بچپن جس حویلی میں گزرا، اُس کی وسعت کا اندازہ آپ اِس سے لگا لیں کہ اُس حویلی کے اندر کھجور کے 12 درخت، امرود کے 7 پیڑ اور اُس کے علاوہ بے شمار پھول پودے اور درخت تھے۔ سانگی صاحب کی والدہ اُن کے بچپن میں ہی یہ جہان چھوڑ کر چلی گئیں، جب سانگی صاحب بمشکل چار برس کے تھے، جبکہ اُن کے والد نے، سانگی صاحب کے جوان ہونے تک اُن کا ساتھ نبھایا۔

سانگی صاحب کے والد، بلاول خان متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور شہر کے معززین میں اُن کا شمار ہوتا تھا۔ ان کی اپنی تھوڑی سی زمین بھی تھی، جس کے کچھ حصّے پر وہ خود ہل چلاتے تھے، اور کچھ پر اُن کے کسان۔ خُدا بخش سانگی شروع ہی سے اپنے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے والد کا اُن کے روزگار میں بھی ہاتھ بٹاتے رہے۔ تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے حوالے سے خُدا بخش سانگی نے 1949 ء کے قریب گورنمنٹ پائلٹ اسکول لاڑکانہ سے میٹرک اور 1951 ء کے قریب گورنمنٹ ڈگری کالج لاڑکانہ سے انٹر کا امتحان پاس کرنے کے بعد 1953 ء کے قریب جامعہ سندھ جامشوروسے گریجوئیشن اور 1955 ء کے قریب اُسی مادرِ علمی سے انگریزی ادب میں ایم۔

اے۔ کا امتحان پاس کیا۔ بچپن ہی سے ”اُستاد“ بن کر قوم کے نونہالوں کو علم کے زیور سے آراستہ کرنے کا خواب آنکھوں میں سجانے والے خُدا بخش سانگی 50 ء کی دہائی کے اواخر میں ”ہائی اسکول ٹیچر“ (ایچ ایس ٹی) کی حیثیت سے شعبہء تعلیم میں قدم رکھنے کے بعد، اپنی اعلیٰ تعلیمی قابلیت کی وجہ سے جلد ہی ہیڈ ماسٹر کے عہدے پر فائز ہوئے اور اپنے آبائی شہر نؤں دیرو کے ساتھ ساتھ باڈھ، باقرانی، دھامراہ، وگن، پکھو، خیرپور جُوسو، قنبر، قبو سعید خان، کوٹ لعل بخش مہیسراور وارہ سمیت ضلع لاڑکانے کے دیگر کئی شہروں اور قصبوں کے ہائی اسکولوں میں ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے اپنی پُرخلوص اور بے لوث خدمات انجام دیں۔

سانگی صاحب کے اعلیٰ انتظام کے حوالے سے دو باتیں بڑی مشہور تھیں۔ ایک: ویران اور بے رونق اسکولوں کو اپنے شوق، دلچسپی اور اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کی بدولت مثالی اسکول بنا دیتے۔ دوئم: جب بھی کسی اسکول کا چارج چھوڑ کر جانے لگتے، تو اُس اسکول کے بینک اکاؤنٹ میں ایک اچھی خاصی رقم سَرپلس چھوڑ جاتے، جو اُس ادارے کی فلاح و بہبُود کے لئے اُن کے جانے کے بعد بھی استعمال ہوتی رہتی تھی۔ مذکورہ بالیٰ اسکولوں میں سے کافی اسکولوں میں سانگی صاحب کی تعیناتی صرف اور صرف اُن اسکولوں کی تباہ حالی کو ترقی میں تبدیل کرنے کی غرض سے کی گئی، جس کی سب سے بڑی مثال آج کا مثالی ادارہ ”گورنمنٹ ہائی اسکول نؤں دیرو“ ہے، جس کا چارج جب پہلی بار خُدا بخش سانگی صاحب نے سنبھالا، تو کہا جاتا ہے کہ اُس وقت تک یہ ایک تباہ حال ادارہ تھا، جس کو اعلیٰ تعلیمی معیار اور معیاری انتظام کی جلا بخش کر سانگی صاحب نے اپنے شہر کے اسکول کی خدمت انجام دے کر اپنا فرض بھی نبھایا، اور اس ادارے کو قابلِ رشک اور قابلِ دِید بھی بنایا۔

وہ اس ادارے میں مختلف ادوار میں کم و بیش ایک دہائی اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اپنے دورِ انتظام میں اسکولوں کے اندر والدین کے دن منانے اور اساتذہ کی والدین کے ساتھ طلبہ کے امور پر مستقل ملاقاتوں کی روایت ڈالنے میں سانگی صاحب پیش پیش رہے، جس سے بچّوں کے والدین، بچّوں کی درسی خواہ ہم نصابی سرگرمیوں کے حوالے سے آگاہ اور باخبر رہنے لگے۔ ساتھ ساتھ خُدا بخش صاحب نے طلبہ میں مباحثوں، تقریری مقابلوں اور دیگر صحت مند سرگرمیوں کی ہمّت افزائی کر کے، اُن کو عام کر کے، ایک کامیاب تعلیمی منتظم ہونے کی روشن دلیل بھی قائم کی۔

خُدا بخش سانگی کو ضلع کے کامیاب تعلیمی منتظمین میں شمار کیا جاتا تھا، جس وجہ سے وہ لاڑکانہ کے ”سب ڈویژنل ایجوکیشن افسر“ (ایس ڈی ای او) ، ”ڈویژنل ایجوکیشن افسر“ (ڈی ای او) ، ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن اور ڈائریکٹر ایجوکیشن کی جُز وقتی خواہ کُل وقتی ذمہ داریوں کو وقتاً فوقتاً انجام دیتے رہے اور اُن کو بخوبی نبھاتے بھی رہے۔

60 ء اور 70 ء والی دہائی میں نؤں دیرو شہرکے معززین میں سے، شہید ذوالفقار علی بھٹو کی نظر میں نمایاں توقیر اور مقام رکھنے والے، خُدا بخش سانگی کو (جن کو شہید بھٹو نے اپنے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں پاکستان سے باہر جانے، ایجوکیشن اسپیشلائزیشن کی تربیتیں سرکاری اخراجات پر کر کے آنے اور پروموشن جیسی آفرز بھی کیں، جو سانگی صاحب نے اپنے بچّوں کے کم عمر ہونے اور گھر کو اکیلا نہ چھوڑ سکنے کی وجوہات کی بنا پر قبول نہیں کیں ) ، محترمہ بینظیر بھٹو کے دونوں ادوارِ اقتدار میں پیپلز پارٹی کے نام نہاد جیالوں کی چاپلوسی نہ کرنے کی پاداش میں نہ صرف محترمہ بینظیر بھٹو سے دُور رکھا گیا، بلکہ اُن کی صلاحیتوں سے فائدہ نہ اُٹھاتے ہوئے، ایسے عہدوں پر فائز رکھا گیا، جو اُن کی سینیارٹی اور انتظامی مان اور مرتبے کے شایانِ شان نہیں تھے اورایسی ذمہ داریاں دینا ایک کارآمد کارکن کو ضائع کرنے کے مترادف تھا (جس کی ایک مثال اُنہیں ضلع کے ایک اعلیٰ تعلیمی انتظامی عہدے سے ہٹا کر گورنمنٹ کالج وارہ کے پرنسپل کے طور پر مقرر کیا جانا بھی تھا) ، جس پر اس خوددار اور اصول پسند انسان نے اپنی ریٹائرمنٹ کی عمر پوری ہونے سے دو سال پہلے ہی 1992 ء میں ریٹائرمنٹ لے کر، شعبہء تعلیم کو خیر باد کہا۔

اعلیٰ انسانی اوصاف اور اُونچے کردار کے مالک اس عظیم انسان کے معمولاتِ زندگی میں جہاں زُہد و تقویٰ بدرجہء اُتم موجود تھا، وہیں اپنوں پرایوں کی مدد، خلقِ خدا کی خدمت اور اُن کے حقوق کی ادائیگی، خوش لباسی اور صفائی جیسے اوصاف اُن کی شخصیت کا خاص حصّہ تھیں۔ اپنی زندگی میں والی بال کھیلنا، خُدا بخش سانگی صاحب کی شاموں کا روزانہ معمول تھا۔ اپنی غیر متنازع طبعیت اور اعلیٰ انسانی اقدار کی پاسداری کا ہُنر جاننے کی وجہ سے مقامی لوگوں کے دلوں میں اُن کا اس حد تک احترام قائم تھا، کہ بہت ساری براردریاں غیر اعلانیہ طور پر اُن کو اپنا رہبر مانتی تھیں اور اُن سے اپنے چھوٹے موٹے جھگڑوں اور تکراروں کے فیصلے کراتی تھیں۔ یہی نہیں بلکہ اُن کے منصفانہ فیصلوں پر ”آمنا صدقنا“ کہہ کر گردن جُھکا کر عمل بھی کیا جاتا تھا۔

خُدا بخش سانگی کو زندگی میں ”نسیم اختر“ جیسی شریکِ حیات ملی، جن سے وہ 1965 ء میں رشتہء ازدواج میں منسلک ہوئے۔ اُنہیں 8 بچوں کی اولاد ہوئی، جن میں سے 5 سلامت رہ سکے، جو آج مختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

اپنی کامیاب عملی زندگی گزار چکنے کے بعد، خُدا بخش سانگی نے حج کا ارادہ کیا، کیونکہ تب تک اُن کے بڑے بچّے تعلیمی مراحل کو کامیابی سے پار کر کے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کا آغاز کر چکے تھے۔ 1966 ء میں حج کے لئے قرعہ اندازی میں اُن کا نام بھی نکلا اور ذی القعد میں اُن کو حج کی سعادت کے لئے روانہ ہونا تھا۔ حج کی تیاریاں اپنے آخری مراحل میں تھیں کہ 23 برس قبل، 1997 ء کے اوائل میں 25 جنوری کو، جب رمضان المبارک کی 15 تاریخ تھی، تو اُس رات عشاء کی نماز کے لیے وضو کرنے کے بعد، دل کا دورہ پڑنے کے باعث، راہِ ربّانی اختیار کر کے چلے گئے، اور اپنے پیچھے گائے جانے کے لئے اپنے ”گُن“ چھوڑ گئے۔ اُن کا انتقال نؤں دیرو میں ہوا اور اُنہیں اپنی جنم بھومی، گاؤں ”موہیل“ میں اپنی نسبتی بہنوں (راشدی بیبیوں ) کے گھر کے قریب ”راشدی پیروں کے قبرستان“ میں سپردِ خاک کیا گیا۔

خُدا بخش سانگی، بظاہر تو 63 برس کی پیغمبری عمر پا کر طبعی طور پر چلے گئے، مگر اپنے ہر طالب العلم کی صورت میں اُن کی ذات اور فکر کا حوالہ، برسوں تک جگمگاتا رہے گا اور ہر ذی احساس دل، قدردانی کرتے ہوئے، خُدا بخش سانگی اور اُن جیسے لا تعداد کرداروں کی کمی، زمانے کی مصروفیت کے باوجُود محسوس کرتا رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments