مجھے خلیل الرحمٰن قمر سے ہمدری ہے


آج کل کچھ لوگ بیچارے خلیل الرحٰمن قمر کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں۔ ان کو سوشل میڈیا پر صلواتیں سنائی جا رہی ہیں۔ ایونٹس میں بلا کر پھر آنے سے منع کیا جا رہا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ جو سارے لوگ ہیں نہ، خلیل صاحب کی کامیابی سے جیلس ہو گئے ہیں۔ جو انھیں ”میرے پاس تم ہو“ سے ملی ہے۔ ارے بھائی، ایسا بھی کیا ہو گیا ہے جو انھوں نے اس ڈرامے میں عورت کو بے وفا دکھا دیا ہے۔

کیا عورتیں بے وفائی نہیں کرتی؟ کیا اس سماج میں صرف مرد ہی بیوفا ہیں؟ ان فیمینسٹوں کو تو بس موقع چاہیے ہوتا ہے کہ کوئی ایسی بات ہو اور وہ عورتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ڈھنڈورا پیٹنا شروع کریں۔ اب میڈم طاہرہ عبداللہ کو ہی دیکھ لیں کہ ایک ٹی وی پروگرام میں وہ تو خلیل صاحب پر ایسا چنگھاڑی ہیں۔ ایسی تقریر شروع کی انھوں نے عورتوں کے حق میں کہ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے آج تک عورتوں کے سارے حقوق خلیل صاحب نے ہی غصب کیے ہیں۔

حالانکہ وہ بیچارے بار بار وضاحتیں دے رہے تھے کہ عورتوں کے حقوق کے سب سے بڑے چیمپئین وہ ہیں۔ مگر مجال ہے کہ جو کسی نے ان کی کوئی بات سنی ہو۔ اسی طرح کسی کو اس بات پر اعتراض ہے کہ انھوں نے اپنے انٹرویوز میں یہ کیوں کہا کہ ”عورت کی فطرت میں وفا ہے اور جو بے وفا ہے وہ اسے عورت ہی نہیں مانتے“۔ ان کی ڈکشنری میں وہی عورت ہے جو با وفا اور با حیا ہے۔ جبکہ مرد کی تو فطرت میں ہی بیوفائی ہے مگر وہ بے وفائی بھی کسی دوسری عورت کی وجہ سے ہی کرتا ہے۔

اب بھلا اس میں کون سی اتنی غلط بات کہہ دی ہے انھوں نے۔ صحیح ہی تو کہا ہے۔ مرد بیچارہ تو عورت کے ہاتھوں پاگل بنا ہوا ہے۔ عورت نے اسے سب سے پہلے بہکا کر جنت سے نکلوا دیا۔ پھر اس کی عزت کی دھجیاں بھی عورت ہی بکھیرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اسے غیرت کے نام پر قتل کرنے پڑتے ہیں۔ پھر بے حیا اور بے شرم ہو کر یہ عورت باہر گھومنے آجاتی ہے۔ جس کی وجہ سے بیچارے مرد کو اس کا ریپ کرنا پڑ جاتا ہے۔

عورت مرد پر اتنے مظالم ڈھاتی ہے کہ وہ بیچارہ سارا دن کام کاج کر کے جب گھر آتا ہے تو یہ اسے کہتی ہے کہ میں تمھاری نوکر نہیں ہوں، جاؤ اور اپنا کھانا خود گرم کرو۔ اور اگر وہ اس کے قریب آنا چاہے تو اسے منع کر دیتی ہے۔ اس پر اگر بیچارہ مرد تھوڑا ہاتھ اٹھا دے تو اسے گھریلو تشدد اور میریٹل ریپ کا نام دے دیا جاتا ہے۔ کتنی زیادتی ہے یہ فیمینزم کا پرچار کرنے والوں کی۔

پھر دوستیاں اور تعلق بنانے پر بھی تو مرد کو عورت ہی اکساتی ہے۔ اس کا اچھی طرح استعمال کر کے پھر چھوڑ دیتی ہے۔ اور پھر کسی اور سے شادی بھی کر لیتی ہے۔ مرد تو بیچارہ اتنا معصوم ہوتا ہے کہ اسے اس سب کا پتا ہی نہیں چلتا۔ شادی کے بعد بھی دوسرے مردوں سے تعلق عورت ہی رکھتی ہے۔ اور اگر کسی مرد کی شادی کے بعد کسی اور عورت سے دوستی ہو بھی جائے تو اس کی وجہ بھی دوسری عورت ہی ہوتی ہے نہ۔

مگر کیا کریں ان فیمینسٹوں کا کہ یہ مرد کی اتنی تذلیل کر کے خلیل صاحب کے دل کو چھلنی کر دیتے ہیں۔ وہ پھر مرد کے حق میں ڈرامہ نہ بنائیں تو اور کیا کریں۔ اور ہمارے پیارے عدنان صدیقی نے بھی تو یہی کہا ہے نہ کہ ”میرے پاس تم ہو“ میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی بات ہوتی تو اس کو اتنا پسند کیوں کیا جاتا اور یہ مقبولیت کے سارے ریکارڈ کیوں توڑتا بھلا؟

بس یہ فیمینسٹوں نے خلیل صاحب کے خلاف پروپیگنڈہ شروع کیا ہوا ہے۔ اور یہ خواہ مخواہ ان کو بدنام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے سوائے سچ کے کبھی کچھ لکھا ہی نہیں ہے۔ کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ ان پر الہام کا نزول ہوتا ہے۔ اب بھلا الہام کیسے غلط ہو سکتا ہے۔ دراصل جو لوگ ان پر تنقید کر رہے ہیں وہ ان کے خیالات کو جان بوجھ کر صحیح طرح سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ اس لیے مجھے خلیل صاحب سے بہت ہمدردی ہے۔ وہ ان سب کی پرواہ بالکل نہ کریں اور ہمارے اتنے سچے سماج میں بس سچ لکھتے رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments