خلیل الرحمٰن قمر کے فیمینزم اور عورت کے بارے میں خیالات


آج کل سوشل میڈیا پر ڈرامہ نگار خلیل الرحمٰن قمر صاحب کا ایک ویڈیو کلپ مردانِ آہن اور دخترانِ مشرق بڑے ذوق و شوق سے شئیر کر رہے ہیں، جس میں موصوف خطیبانہ جوش اور کاملاً مشرقی مردانہ لہجے میں نسائی پسندی یعنی فیمنزم کی زجرو توبیخ میں مصروف عمل ہیں۔ اس کلپ کی توصیف پر مجاہدینِ ملت رٹی رٹائی اسناد اور تنقید پر بلیغ القابات تقسیم کر رہے ہیں۔ خلاصہ ان کے کلامِ لازوال کا یہ ہے کہ انہیں ابھی کچھ سال قبل ہی علم ہوا ہے کہ فیمنزم ہے کس بلا کا نام اور یہ کہ تیس پینتیس عورتیں ہیں جو اس کی آڑ میں محض اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے پورے سماج کو یرغمال بنا رہی ہیں۔

میرا سوال ہے کہ عورتوں کو ایسی عظیم الشان ذہنیت اور سوچ والے مردوں کی موجودگی میں یہ حق کیسے دیا جا سکتا ہے، براہِ کرم ضرور سوچیے گا۔ فی الحال مجھے چھوڑیں موصوف مذکور کو سنیں جو بیانی ہیں کہ ہمارے سماج، مذہب، قوم اور خطے کے متعین معیار اور روایات ہیں، کیا یہ معدودے چند خواتین چند انگریزی کتابیں پڑھ کر ان سے ٹکرا جائیں گی۔ ہرگز نہیں، کوئی اس کی اجازت نہیں دے گا۔ کوئی بھی نہیں دے گا۔ آہو۔ ویسے بات اصولی کی ہے خلیل الرحمٰن قمر صاحب نے کہ صدیوں سے قائم و دائم مردانہ بالادستی فقط چند عورتیں۔ یار فقط چند عورتیں چیلنج کر دیں محض اپنی علمی و شعوری استعداد پر۔ ان کی ایسی کی تیسی۔

محترم لکھاری معترض ہیں کہ یہ کیا بکواس ہیں کہ میرا جسم میری مرضی۔ خدا کا خوف کریں عورت کا جسم، مرد کی مرضی جیسے زریں اصول کی موجودگی میں عورتوں کی جرات کیسے ہوئی ایسا سوچنے کی۔ اور وہ بھی محترم ڈرامہ نگار جیسے مردوں کے سماج میں۔ خبردار، احتیاط، ورنہ۔ آہو۔ قبلہ لکھاری صاحب چتاونی دے رہے ہیں کہ ہمیں مجبور نہ کریں ایسے دور کے احیاء کے لئے جب میرا جسم میری مرضی والی عورتیں بازارِ حسن میں قید کر دی جاتی تھیں۔ بھئی سبحان اللہ، کیا عظیم المرتبت مدلل دھمکی ہے، اللہ کرے زورِ بیاں اور زیادہ۔ محترم مزید فرماتے ہیں کہ مردوں کو گالی دے کر آپ سماج کا بیڑا غرق کرنا چاہتی ہیں۔ جبکہ یہ کام مخصوص ذہنیت کے حامل مرد عورت کو گالی دے کر عرصہِ دراز سے سر انجام دے بھی چکے سو۔ دیکھو مجھے جو دیدہِ عبرت نگاہ ہو۔

پیر و مرشد ڈرامہ نگار بیانی ہیں کہ مرد کی فقط پیدائش کی خوشی منائی جاتی ہے جبکہ باقی ماندہ عمر مرد عورت کی خوشی کے لئے گزارتا ہے۔ اس امر کے ثبوت میں یہ بطلِ جلیل دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں۔ چند ملاحظہ فرمائیے۔ مرد پوری زندگی عورت کی خدمت میں گزار دیتا ہے، بچپن میں ماں کی اطاعت۔ ماں کون ہے، عورت۔ بہنوں کی شادیاں کرتا ہے۔ بہن کون ہے، عورت۔ ان سے فراغت کے بعد خود شادی کرنی ہے یا محبوبہ رکھنی ہے ( یہاں رکھنے کا جواب نہیں۔ داد بنتی ہیں نا! ایک خاص ذہنیت کے نمائندہ جملے کی) ۔ بیوی یا محبوبہ کون ہے، عورت۔ سال بعد بیٹی پیدا ہوتی ہے۔ وہ کون ہے، عورت۔ اور پھر اتوار کے دن بڑھی ہوئی شیو کے ساتھ دہی لے رہا ہوتا ہے۔ جس کے لئے دہی لے رہا ہوتا ہے۔ وہ کون ہے، او ظالمو! عورت۔ آخرش مرثیہ کناں ہیں مکرمی ڈرامہ نگار کہ، اور مرد عورت کے لیے کیا کرے، مر جائے؟ شہنشاہِ جذبات لکھاری کی باتیں سن کر عالم یہ ہے کہ۔ اشکِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو! ۔

لیکن عالیجاہ! چند سوالاتِ تشنہ کام ادھر بھی ہیں۔ ماں جس کی اطاعت وہ کرتا ہے اپنے شوہر کی بیشتر بے چون و چرا اطاعت وہ بھی کرتی ہے، نو ماہ تک بلا امتیاز جنس رحمِ مادر اور ازاں بعد آغوشِ مادر اولاد کو آسودہ رکھتی ہے، وہ ماں جو باپ کے خرید کردہ آٹے کو روٹی اور باپ کے دھن سے آئے اینٹ، پتھر کو گھر بناتی ہے۔ ماں کون ہے، عورت۔ وراثت سے جبراً محروم لیکن باپ اور بھائی کے لئے ہمہ وقت دعا گو بہن۔ بہن کون ہے، عورت۔

آنگن کی مہک، آنکھوں کی ٹھنڈک لیکن بھائی اور باپ کی ہماری فلموں سے ادھار لی گئی مصنوعی غیرت کا شکار بیٹی۔ بیٹی کون ہے، عورت۔ اور ایسے کئی سوال۔ کئی۔ سرکار ایسے نہ کریں، رحم فرمائیں، صدیوں پرانی اخلاقیات کے زیردست پر زبردستی نفاذ سے احتراز کریں، مرد اور عورت کی تقسیم کے بجائے انسان کو انسان سمجھیں۔ ہر طرح کے استحسال کی بلا تمیز جنس مذمت کریں، ہر عادل شخص خواہ وہ مرد ہو یا عورت آپ کے ساتھ ہوگا۔ بلا تمیز جنس سماجی عدل کی بات کریں۔ آپ بھی اور آپ کے فریق بھی۔ خدا را!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments