میرا وچھڑیا پیکا دیس!


فضیلت کی عمر 22 سال ہے۔ رنگ گندمی، قد درمیانہ اور آنکھوں کے گرد سیاہ ہلکے ہیں۔ چہرہ انتہائی بوجھل، اداس اور جوانی میں بوڑھا دکھائی دے رہا ہے۔ آنکھیں تھکی ہوئی ہیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ ان سے رونے کا بہت کام لیا گیا ہے جبکہ بالوں کی سیاہی بھی ماند ہے۔

پاوں کی جوتی گھس، گھس کے زمین برابر ہوچکی ہے اور کپڑوں کے رنگ بالکل ایسے ہیں جیسے کسی نے اینڈرائڈ موبائل سے تصویر کھینچنے کے بعد بلیک فلٹر لگا دیا ہو۔

اس نے اپنی سب سے چھوٹی بیٹی کو چادر سے ڈھانپ کر اپنے سینے سے لگایا ہوا ہے۔ اس کی ایک نظر بیٹی پر ہے اور ایک نظر سامنے لگے برگد کے درخت پر جہاں کبھی وہ بچپن میں کھیلا کرتی تھی۔ چہرے پر پریشانی اور غم کے ملے جلے تاثرات ہیں۔

یہ صبح 10 بجے کا وقت ہے۔ پچھلے دو دنوں سے جاری بارشوں نے دن کا ٹمپریچر بھی منفی پانچ سینٹی گریڈ تک پہنچایا ہوا ہے۔ ایسے میں اس کے پاس سردی سے بچنے کا واحد حل یہی ہے کہ وہ جانوروں کے باڑے میں چھت کے نیچے بیٹھی اپنے فیصلے کا انتظار کر رہی ہے۔

فضیلت اسی صحن میں کھیل کر بڑی ہوئی ہے۔ وہ اپنے پانچ بہن بھائیوں میں سے درمیانے نمبر پر ہے۔ اسے یاد ہے کہ انہوں نے اپنے بچپن کے دن کس طرح اسی بوہڑ کے گرد کھیلتے گزارے جہاں سے ابا کی ڈانٹ ہی انہیں گھر کی طرف دھکیلتی تھی۔

ابا بڑے رکھ رکھاؤ والے آدمی تھے۔ اچھے خاصے جانور وراثت میں ملے۔ کئی مربع زمین بھی نام آئی جس کا کچھ حصہ امی کی وراثت سے بھی تھا لہذا وہ گاؤں کے وڈیرے اور پنچایتی شمار ہوتے تھے۔

ابا نے ہمیشہ دو ہی شوق پالے تھے ایک تگڑے جانوروں دیکھ بھال اور ان کا بیوپار جبکہ دوسرا ڈیرہ داری والا نظام۔

روز گھر کے باہر ڈٰیرے میں بیٹھکیں آباد ہوتی جس کے لیے 10، 10 کلو دودھ کی چائے بنتی اور یہی وہ موقع ہوتا جب اماں کے ساتھ بیٹھ کر چائے بناتے ہوئے وہ بھی خوب گپ شپ لگاتیں ورنہ تو دن کے کاموں سے اماں کو فرصت ہی نہیں ملتی تھی۔ بیچاری اماں۔ ۔ ۔

فضلیت کو اچانک سے اماں بہت یاد آئی۔ آج وہ زندہ ہوتیں تو شاید وہ ابا کو کچھ بولتی کہ گھر کی بیٹی کو بھینسوں کے باڑے میں کیوں بٹھایا ہے۔ آنکھیں بھر کر اچھلنے لگی تھی لیکن فضیلت نے سنبھال لی۔

باپ کیوں نہیں ماں جیسا سوچتا؟ اچانک سے اس کے ذہن میں سوال آیا لیکن پھر اس نے ایک جھٹکے سے یہ سوال رد کر دیا۔ حالانکہ ساری زندگی خود فضیلت نے ابا کی بڑی خدمت کی اور ان کی ہر بات کو حرف آخر مانا خود اس کی شادی بھی تو انہوں نے اپنی مرضی سے کی حالانکہ نصیر اس سے عمر میں 10 سال بڑا تھا۔

اسے یاد ہے جب اس نے قرآن پاک تیسری بار مکمل کیا تو گھر میں اس کی شادی کی بات نکل پڑی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شادی اور اب گود میں یہ چھوٹی زلیخہ!

وہ شادی بھی کیا شادی تھی۔ فضیلت اس دن اماں کو یاد کر کے بہت روئی تھی اور زیادہ رونے کی وجہ سے اسے شادی کا کوئی شور بھی نہیں سنائی دیا تھا۔ بس یہ تھا کہ وہ نصیر کے گھر آگئی تھی۔

اماں اس سے اکثر کہا کرتی تھیں کہ سسکیاں لے کر رونے سے کچھ دیر کے لیے کان بہرے ہو جاتے ہیں اور صرف اپنی سسکیاں ہی سنائی دیتی ہیں۔ اس نے کئی دفعہ اماں کو بھی ایسے ہی روتے دیکھا تھا اور ایک دن انہی سسکیوں میں وہ اسے اکیلا چھوڑ گئیں۔

اسے یاد تھا اس دن ابا کتوں کی لڑائی دیکھنے دوسرے گاؤں گئے تھے اور چھوٹے چچا بھی ان کے ساتھ تھے۔ گھر میں صرف دادی، اس کی چھوٹی پھوپھی اور باقی بہن بھائی تھے جب کھانسی کے سارے سیرپ گھر میں پڑے ہونے کے باوجود کوئی دوا اماں پے اثر نہ کی اور انہوں نے اس کے سامنے آخری ہچکی لی۔

فضیلت کی آنکھوں میں پھر سے آنسو بھرنے لگے لیکن اس نے ضبط کا سہارا لیا۔

اسی دوران اس نے نصیر کو پنچایت والے کمرے سے غصے میں باہر آتے دیکھا۔ جسے چند لوگ دوبارہ پکڑ کر کمرے میں لے گئے۔ وہ گھبرائی لیکن خاموش رہی۔

نصیر اپنی شادی سے خوش تھا۔ وہ کھاد، اسپرے کی ڈیلرشپ کا کام کرتا تھا لیکن پھر ایک دن اسے مالی نقصان نے آگھیرا۔ اس نے ابا سے کچھ پیسے ادھار بھی لیے لیکن مسلسل نقصان کی وجہ سے نہ ہی پیسے لوٹا سکا اور نہ ہی اپنے کاروبار کو سنبھالا دے سکا۔

ایک دن اس نے فضیلت سے ابا کی وراثتی زمین کے بارے میں پوچھا اور نجانے کن چکروں میں پڑ کے اس کے حق کی زمین مانگ بیٹھا۔ زمین کا سن کر ابا کا خون کھول اٹھا اور انہوں نے کچھ بھی دینے سے انکار کر دیا۔

یہ پہلی لڑائی تھی جس کا فضیلت کو علم تھا۔ اس کے بعد نصیر اور ابا کے درمیان کئی لڑائیاں ہوئیں لیکن وہ ان سے انجان رہی۔ وہ نصیر کو باتوں، باتوں میں سمجھاتی تھی کہ ہم نے کیا کرنی ہے زمین۔ ابا اس بات پر بہت ناراض ہوں گے اور بالا آخر ایک دن اس کی خالہ نے اسے بتایا کہ معاملہ کافی سنگین ہوچکا ہے اور بات پنچایت تک جا پہنچی ہے۔

آج وہی دن تھا۔ نصیر نے فضیلت کی وراثت کے لیے اس کا شناختی کارڈ بنوانا تھا جو کہ اس کے ابا کے نام سے بننا تھا پھر ہی نصیر فضیلت کی وراثتی زمین اپنے نام لگوا سکتا تھا اور آج اسی لیے پنچایت بیٹھی تھی۔

فضیلت نے گھر کے دورازے پر جب ابا کوسلام کیا تو انہوں نے کرخت آواز میں پنچایت کا فیصلہ ہونے تک ڈیرے کے باہر بیٹھنے کا حکم دیا۔

حکم سر آنکھوں پر۔ تب سے فضیلت یہاں بیٹھے اپنے زندگی کی یادوں کو کھنگال رہی تھی۔

لوگ باہر آنا شروع ہوئے تو فضیلت کو لگا کہ پنچایت ختم ہوگی ہے۔ ابا نے 2، 4 ایکڑ نصیر کو یہ کہہ کر دے دیے ہوں گے کہ جاؤ یہی تھا بس میری بیٹی کے نام۔

ابا کیا جانے۔ مجھے تو یہ 2، 4 ایکڑ سے رتی برابر کوئی غرض نہیں لیکن نصیرے کی ضد کے آگے وہ مجبور ہے۔

نصیر کافی غصے میں اس کی طرف بڑھا اور اسے ہاتھ سے پکڑ کر چلنے کا اشارہ کیا۔ وہ گھبرائی ہوئی نظروں سے ابا کی جانب بھی دیکھ رہی تھی جو اسے گھر میں آنے کا کہے بغیر گھر کی طرف جا رہے تھے۔

نصیرے نے بتایا کہ ابا نے ساری پنچایت کے سامنے حلف اٹھایا ہے کہ وہ ان کی بیٹی ہے ہی نہیں انہوں نے وراثتی حق مانگنے پر اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عاق کر دیا ہے اور آئندہ گھر آنے سے بھی منع کیا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں ہمارا فضیلت سے کوئی رشتہ نہیں۔ وہ مر گئی ہے۔

یہ سارا زمین کا حق نہ دینے کا ڈرامہ کا رچایا ہے اس وڈیرے نے۔ نصیرمنہ ہی منہ میں بڑبڑا رہا تھا لیکن فضیلت کو کچھ سمجھ نہ آئی۔

اب کی بار وہ آنسووں کو بہنے سے نہیں روک سکی۔ اسے نصیر کی آواز بھی نہیں آرہی تھی۔ وہ کانوں سے بہری ہوگئی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments