گورنر پنجاب کی کہانی؟


وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سمیت پورے ملک میں وزیراعظم عمران خان کے اس بیان کو توجہ سے پڑھا اور سنا گیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ میری حکومت شفاف ترین ہے، لوگ اخبار نہ پڑھیں نہ ٹی وی ٹاک شوز دیکھیں، سب ٹھیک ہوجائے گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ حکومت کو گزشتہ ڈیڑھ سال سے میڈیا کی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا مطلب گھبرانا نہیں ہے۔ میڈیا اور خان میں یہاں تک کہانی کے موڑ میں دلچسپ صورتحال یوں ہے کہ وزیراعظم خان اور میڈیا کی محبتوں کی کہانی کو کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے بلکہ کوئی ڈیڑھ دوسال پہلے تک کپتان کو میڈیا میں سب اچھا نظرآتا تھا کیوں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کے سیکنڈلز ٹی وی چینلوں پر دیکھنے اور اخبارات میں پڑھنے کو مل رہے تھے۔

لیکن جونہی تحریک انصاف کی حکومت عمران خان کی قیادت میں اسلام آباد پہنچی تو پھر مثبت رپورٹنگ سمیت میڈیا کو اپنی حکومت بالخصوص وزیروں کے سیکنڈلز کے حوالے سے ذرا ہتھ ہولا رکھنے کے مشورے ملنا شروع ہوگئے تھے۔ ادھرتحریک انصاف کی حکومت جوکہ عمران خان کی قیادت میں تبدیلی کے نام پر عوام کے لئے دودھ اور شہد کی نہروں کے وعدے کرکے آئی تھی، اس کی کارکردگی کھل کر یوں سامنے آگئی کہ عوام کو میٹھی گولی کی بجائے کڑوی گولی دنیے کا سلسلہ پہلے اوور میں ہی شروع کردیاگیا۔

اب میڈیا کہاں تک وزیراعظم عمران خان کی لفاظی میں عوام کودودھ اور شہد کی نہریں نکال کردیتا یا پھر ان کو سبز رنگ کی عینکیں تحفہ میں دے کر سب ہرا ہرا دکھاتا۔ وہ کہتے ہیں نا، گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کیا؟ صحافی کا جو کام ہے اگر وہ نہیں کرے گا تو کیا کرے گا۔ حکومت کا طلبہ نواز بننے سے تو میڈیا کا کردار ہی ختم ہوجائے گا۔ لیکن یہ بات وزیراعظم خان کو کون سمجھا سکتا ہے کہ حضور میڈیا کے سچ چھپانے سے بھی حکومت کے ایشو حل نہیں ہونے ہیں بلکہ حکومت کی حقیقی معنوں میں کارکردگی بہتر کرنے سے معاملات سلجھ سکتے ہیں۔

تبدیلی سرکار مطلب وزیراعظم خان کی حکومت کے حوالے سے جو مختصر لیکن جامع تبصرہ معروف تجزیہ نگار سلیم صحافی نے کیا ہے، اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ موصوف نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔ سلیم صافی کا کہنا ہے جہانگیر ترین جتنی زیادہ حرکت کرتے ہیں، اتنا ہی زیادہ عوام کا بیڑا غرق ہوتاہے، جیسے گنا سستا خریدا جاتاہے اور چینی مہنگی بیچی جاتی ہے اور اسی طرح گندم اور آٹا کا معاملہ ہے۔

ادھر تحریک انصاف کی قیادت نے پنجاب کی تقسیم بالخصوص جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالے سے وہی ڈرامہ، اداکاری اورکہانی شروع کردی ہے، جس کے بارے میں اس خطے کے لوگ بڑی دیر سے عادی ہوچکے ہیں لیکن پھر بھی اس دھرتی کے معصوم لوگ سیاستدانوں کی چلاکیوں اور بات پر یقین کرلیتے ہیں۔ اس بات کے باوجود کہ یہ بات لکھی پڑھی ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا ہے۔ لیکن داد دینی پڑے گی جنوبی پنجاب اوربہاولپور صوبہ کے حامیوں کو پیپلزپارٹی کی قیادت سے لے کر مسلم لیگ نواز کی لیڈرشپ تک سے دھوکہ کھانے کے بعد تحریک انصاف کی تبدیلی پر اندھا دھندہ اعتماد کیا اور اب معاملہ وہی چل رہا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت بھی صوبہ کے معاملے پر ہاتھ کرگئی ہے۔

مطلب سو دن میں پنجاب کی تقسیم کی کہانی، اب کہانی ہی رہ گئی ہے۔ ایک کے بعد ایک تبدیلی کا لیڈر جو جنرل الیکشن 2018 ء میں بات، بات پر مسلم لیگ نواز اور پیپلزپارٹی کے جنوبی پنجاب صوبہ کے حوالہ سے بات کرتا تھا اور طنزیہ جملوں سے چسکا لیتا تھا۔ اب وہی غائب ہے۔ پنجاب کی تقسیم کی بات چلے تو وہ برا مان جاتا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ یا پھر پنجاب کی تقسیم گپ بن چکی ہے، جیسے آصف زرداری نے سرائیکی صوبہ کے حوالے اقتدار کے دنوں میں گپ کی تھی، لیکن اقتدار سے پہلے آخری جھٹکا سرائیکی صوبہ کی کہانی کو گیلانی ہاؤس ملتان میں بیٹھ کر یہ دیا تھا کہ ہمارے پاس تو اکثریت نہیں ہے وغیرہ وغیرہ، یوں سرائیکی قوم کو سرائیکی صوبہ کی بجائے سرائیکی بنک بنا کر دیتے ہیں لیکن آج تک سرائیکی قوم آصف علی زرداری کے سرائیکی بنک کا انتظار کررہی ہے لیکن پیپلزپارٹی اپنی اقتدار کی اننگز کھیل کر جا چکی ہے۔

اس بات کو سب جان چکے ہیں کہ اقتدار کی خاطر سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ باآواز بلند پنجاب کی تقسیم کے پیچھے کھڑی ہوتی ہیں لیکن جونہی حکومتوں کی صفحوں میں جگہ ملتی یا پھر وزرات کا قلمدان مل جاتا ہے۔ فورا اسی پرانے سلیبس کے پیچھے چل پڑتے ہیں جوکہ پنجاب کی تقسیم تو درکنا راس کی بات کرنے سے بھی روکتا ہے۔ جنوبی پنجاب صوبہ پر تبدیلی سرکار کے مرکز اور پنجاب کے وزیر اور چھوٹے بڑے تو بڑی دیر سے اکثریت اور دیگر ایشوز کو جواز بنا کر کہانی سنا چکے ہیں کہ یہ ان کے بس میں نہیں ہے، مطلب ہماراکام نواز لیگ اور پیپلزپارٹٰی کی طرح الیکشن میں مینڈیٹ حاصل کرنا تھا جوکہ کرلیا ہے۔

اس ایشو پر اب ایک نئے انداز میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے منہ پکا کرکے جنوبی پنجاب صوبہ کے معاملے میں انٹری ڈالی ہے۔ موصوف کا سچ کسی بھی طرح معلومات اور مزاح سے خالی نہیں ہے۔ ا ور اس سے بڑا مذاق نہیں ہوسکتا ہے جوکہ موصوف نے اپنے تئیں سچ کی ملائی مار کر رام لیلاسنائی ہے۔ اور انٹرویو کرنیوالی خاتون ہکا بکا رہ گئی ہے۔

گورنر پنجاب چوہدری سرور سے کراچی میں ایک ٹی وی انٹرویو میں سوال ہوا کہ تحریک انصاف نے کہا تھا کہ سو دن میں جنوبی پنجاب صوبہ کی طرف جائیں گے لیکن ڈیڑھ سال ہوگیا ہے، اب اس پر خاموشی نظر آرہی ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ گورنر پنجاب چوہدری سرور کا کہنا تھا، اگر میں کہوں گا تو بہت سارے لوگ ناراض ہوجائیں گے، آپ بتائیں نا، اگر سچی بات کرنی ہے تو میں کراچی میں کردیتا ہوں۔ دیکھیں میرا اپنا جو خیال ہے۔ جو ساوتھ پنجاب کے لیڈرز ہیں، ان کی اپنی فیملیز لاہور میں رہتی ہیں، ان کے بچے لاہور میں پڑھتے ہیں۔

جوایلیٹ ہے۔ جو سیاست پہ حاوی ہیں۔ جومیں تجزیہ کرکے دے رہاہوں۔ ایک جملہ میں ہے۔ جب صوبہ بن جائے گا، ساوتھ پنجاب کا، ان کے بچے لاہور میں ہوں گے اور وہ سیاست کریں گے اور رہائش رکھیں گے ملتان میں۔ میرا خیال ہے جب تک وہ دل سے نہیں چاہیں گے، جب تک وہ اپنے بچوں اور فیملیز کی قربانی نہیں دیں گے، اپنے صوبہ کے لوگوں کے مفادات زیادہ مقدم ان کی اپنی فیملی ہوگی، تب تک یہ نہیں ہوگا۔ گورنر پنجاب چوہدری سرور یہ پورا سچ جوکہ انہوں نے کراچی میں جاکر ایک ٹی وی انٹرویو میں اب بتایا ہے۔

اس کو اتنا عرصہ سینہ سے لگا کر خاموش کیوں رہے ہیں؟ انہیں تو اس وقت ہی ایک ایمانداراور سچے سیاستدان کی طرح جنرل الیکشن 2018 ء سے قبل اسلام آباد میں جنوبی پنجاب صوبہ محاذ اور تحریک انصاف کی الیکشن کے لئے اتحاد واتفاق کی پریس کانفرنس میں کھڑے ہوجانا چاہیے تھا۔ جس میں ان کے نواز شریف کے بعد کے قائد موجودہ وزیراعظم عمران خان زبانی کلامی نہیں بلکہ جنوبی پنجاب صوبہ کے قیام حوالے سے ایک تحریری معاہدہ پر دستخط کرنے جارہے تھے۔

اور چوہدری سرور باآواز بلند بھری پریس کانفرنس میں اس بات کا اعلان کرتے کہ خان صاحب جنوبی پنجاب صوبہ کا وعدہ نہ کریں کیوں کہ یہ وعدہ اس وقت تک پورا نہیں ہوگا جب تک وہاں کے با اثر سیاستدانوں کو لاہور سے بچوں اور فیملی سمیت واپس ملتان نہیں بھجوایاجاتا ہے۔ اور کہتے ہمیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ نواز کی قیادت کی صف میں کھڑے ہونے کی بجائے سچے وعدے کے ساتھ سیاست کرنی چاہیے وگرنہ ہمارے لیے بھی انہی الفاظ کا چناؤ ہوگا جوکہ آپ آصف زرداری اور نواز شریف کے لئے ڈی چوک میں لوڈ اسپیکر پر کھڑے ہوکر تے ہیں۔

چلو گورنر پنجاب چوہدری سرور بولے تو سہی وگرنہ جو خسرو بختیار اور دیگر کی طرح لمبی لمبی جنوبی پنجاب صوبہ کے لئے پریس کانفرنسیں کرتے تھے اور کہانیاں سناتے تھے، وہ تو اس موضوع پر وزراتوں کے قلمدان ملنے کے بعد خاموش ہیں۔ چوہدری سرور نے دل بہلانے کے لئے کوئی تو کہانی ڈال ہی دی جوکہ بڑے چاہ سے ایک کامیاب فلم کے سین کی طرح دیکھی اور سنی گئی ہے، چاہے یہ تحریک انصاف کا جنوبی پنجاب صوبہ پر یوٹرن ہے جوکہ گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کراچی جاکر لیا ہے۔

اور راقم الحروف جنوبی پنجاب کے سیاستدانوں جن کے بارے میں گورنر پنجاب چوہدری سرور نے کراچی بیٹھ کر اپنے تئیں پوری حقیقت بیان کی ہے، ان کی وضاحت کا منتظر ہوں کہ واقعی چوہدری سرور نے سچ کہا ہے یا پھر صورتحال اس کے برعکس ہے۔ آخر پر لیہ کے موضع سمرا نشیب میں اوقاف کی سو ایکٹر اراضی پر مقامی سیاستدان کے قبضہ کی کہانی سے ضلعی انتظامیہ پردہ اٹھائے، تاکہ وزیراعظم عمران خان کی اوقاف کی زمین پر یونیورسٹی بنانے کے اعلان کو حقیقی شکل مل سکے۔ ادھر لیہ میں قبضہ مافیا کی حوصلہ شکنی ہوسکے وگرنہ یہ تاثر مزید گہرا ہوگا کہ طاقتور مافیا نے تبدیلی سرکار کو ماموں بنایا ہواہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments