سوشل میڈیا اور سماجی تبدیلی کا ایجنڈا


دنیا بھر میں سماجی، سیاسی او رمعاشی تبدیلیوں کے تناظر میں سوشل میڈیا کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ تبدیلی سے جڑے افراد یا ادارے یا عملا رائے عامہ بنانے والے ادارے اس سوشل میڈیا کی مدد سے مختلف امور پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ جو کچھ سماج میں مختلف عمل کے تناظر میں ہمیں دیکھنے کومل رہا ہے اس میں سوشل میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارا رسمی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بھی بڑا انحصار اسی سوشل میڈیا سے جڑا نظر آتا ہے۔ دنیا میں جو بڑی سیاسی اور سماجی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ان میں بھی اہل علم یا دانش اسے سوشل میڈیا کے کردار سے جوڑ کر دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ یہ عمل محض نئی نوجوان نسل تک ہی محدود نہیں بلکہ اب بڑے لوگ بھی اس میڈیا کی اہمیت کو سمجھ کر خود کو اس سے جوڑ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔

یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ اب دنیا میں تبدیلی کا عمل روایتی یا سست روی سے زیادہ نئے نئے انداز میں سامنے آرہا ہے او رجو لوگ بھی تبدیلی کے عمل کو آج کی جدید ترقی اور جدید عمل کے ساتھ جوڑ کر کام کررہے ہیں وہ کچھ بہتر نتائج بھی حاصل کرتے ہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کے تناظر میں دو رائے موجود ہیں۔ اول جو سوشل میڈیا کی اہمیت کو سمجھتے ہیں او راس میں بہتری یا اصلاحات کی مدد سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں او ران کے بقول اس نئے میڈیا کی مدد سے ہمیں اپنی سیاسی وسماجی ترقی کی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی۔ دوئم وہ طبقہ بھی موجود ہے جو سوشل میڈیا کو بہت زیادہ اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں او ران کے بقول یہ ایک غیر سنجیدہ عمل ہے اور عمومی طور پر لوگ اس کو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کرتے ہیں جو شواہد سے زیادہ جذباتیت یا منفی عمل سے جڑا ہوتا ہے۔

ایک زمانے میں میڈیا پرنٹ او رالیکٹرانک تک محدود تھا۔ لیکن سوشل میڈیا نے اس میڈیا کی دنیا میں نہ صرف ہرفر د کو رسائی دی بلکہ اس میں نئی جہتوں کو بھی متعارف کروایا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے دنیا بھر سمیت پاکستان میں اس کا پھیلاؤ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ خواندہ ہو یا ناخواندہ وہ کسی نہ کسی شکل میں اسی سوشل میڈیا کی دنیا سے منسلک ہے او را س کو بنیاد بنا کر لوگوں میں اپنی رائے کو دوسروں تک پہنچا رہا ہے۔ ایسے میں سوشل میڈیا کی اہمیت کو نظرانداز کرنے یا اس کے بارے میں منفی تاثر قائم کرکے اس کی نفی کرنے کا عمل کی حکمت عملی درست نہیں۔ ہمیں عملا واقعی سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر ایسی اصلاحات، پالیسیاں اور سماجی شعور کو آگے بڑھانا ہے جو اس عمل کو منفی عمل کی بجائے ایک بڑے مثبت عمل میں سب کے سامنے پیش کرے۔

پچھلے ایک دہائی میں ہماری سیاسی او رمذہبی جماعتوں نے اس سوشل میڈیا کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خود کو اس سے جوڑا ہے۔ لیکن یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری سیاسی سوچ او رفکر لوگوں کی فکری آبیاری یا ان کے سماجی و سیاسی شعور کو آگے بڑھانے کی بجائے اس کو بنیاد بنا کر اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ایک بڑے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی و سماجی کارکنوں سمیت نئی نسل کے لوگ اس کو نہ صرف اپنے مخالفین کے خلاف ہتھیار کے طور پر مہم چلاتے ہیں بلکہ اس عمل میں ہمیں سیاسی، سماجی او رمذہبی انتہا پسندی سے جڑاعمل بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ لفظوں او راظہار کو بنیاد بنا کر ہم جو منفی بنیادوں پر پرتشدد رجحانات کو تقویت دے رہے ہیں وہ ایک بڑے خطرنا ک رجحان کی نشاندہی کرتا ہے۔

سوشل میڈیا کے بارے میں جو اہل علم میں تنقید بڑھ رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ مادرپدر اظہار کی آزادی اور سوچ وفکر کے عمل میں ایک غیر ذمہ دارانہ عمل ہے۔ تعصب، نفرت، غصہ، بے صبری، بغیر شواہد او رتحقیق کے بات کو آگے پہنچانا، کردار کشی، الزام تراشی، کسی کی حب الوطنی پر شک کرنا، مذہبی و سیاسی فتوے جاری کرنا، گالم گلوچ کا کلچر، خود کو مسیحا ثابت کرنا اور دوسرو ں کو کمتر یا ان کی حیثیت کو چیلنج کرنا، فرقہ وارنہ، لسانی او ربرادریوں کی بنیاد پر تفریق کرنا، عورتوں کی کردار کشی یا نازیبا الفاظ یا جنسی خوف ہراس پھیلانا ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ ایک طرف سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ اور دوسری طرف اس کے استعمال کے بارے میں شعور کی آگاہی کا نہ ہونا یا کم ہونا یا سائبر کرائم سے عدم آگاہی یا سیاسی او ر سماجی طور غیر ذمہ دارانہ رویہ یا طرز عمل ہے۔

سوشل میڈیا میں جو کچھ ہورہا ہے اس کا اثر محض انفرادی سطح پر لوگوں تک محدود نہیں بلکہ ہماری ریاست، حکومت او رادارے بھی سوشل میڈیا میں ہونے والی غیر ذمہ داری کی وجہ سے متاثر ہورہے ہیں۔ ہم نے ریاست او رحکومت کے درمیان بنیادی نوعیت کے فرق کو سمجھنے یا اس میں فر ق رکھنے کی تمیز سے محروم نظر آتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تنقید کو بنیاد بنا کر اداروں کے بارے میں بھی تضحیک کا پہلو یا اسے کمزور کرنے یا اسے بدنام کرنے کا ایجنڈا بھی غالب ہے۔

تنقید برا عمل نہیں لیکن تنقید کو بنیاد بنا کر تضحیک کرنا اور ایک شعوری عمل کے ساتھ اداروں کو تضحیک کا نشانہ بنانا بھی کوئی درست حکمت عملی نہیں۔ اس وقت دنیا بھر میں ایک سائبر جنگ جاری ہے اور دنیا میں بڑی طاقتیں اس سوشل میڈیا کو بنیاد بنا کر اپنے مخالفین کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا بھی کررہی ہیں او رہم بھی اسی کھیل سے کہیں جڑے نظر آتے ہیں۔

اگرچہ پاکستان میں سائبر کرائم بل یا قانون موجود ہے۔ لیکن اول تو اس کی کوئی آگاہی نہیں اور نہ ہی اس کو بنیاد بنا کر ہم نے اپنے تعلیمی عمل میں اسے تعلیم یا نصاب سے جوڑا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تعلیم کے نظام میں اس سوشل میڈیا کو باقاعد ہ ایک مضمون کے طور پر پڑھایا جائے۔ ہمارے میڈیا میں بھی اس کی آگاہی بہت کم ہے۔ مسئلہ محض سوشل میڈیا تک ہی محدود نہیں بلکہ رسمی میڈیا میں بھی ہمیں منفی میڈیا کا عمل بہت غالب نظر آتا ہے۔

سیاسی او رمذہبی جماعتیں اس کی مدد سے کچھ مثبت پہلووں پر کام کریں اور عام لوگوں میں مثبت شعور کی مہم کو چلائیں نہ کی منفی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے۔ انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے جو ملک میں نیشنل ایکشن پلان موجود ہے اس میں بھی سوشل میڈیا پر توجہ دی گئی ہے، لیکن اس تناظر میں جو کام وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کرنا ہے اس کی کمی نظر آتی ہے۔

مسئلہ یہ نہیں کہ سوشل میڈیا میں ہونے والی منفی سرگرمیوں کو طاقت کے زور پر روکا جائے کیونکہ یہ عمل اور زیادہ انتہا پسندی کو طاقت دے گا۔ ہمیں یقینا قانون کی حکمرانی کو مضبوط بنانا ہے اور جو بھی قانون کی پاسداری کرنے کی بجائے اس کا منفی استعمال کرے اس کے خلاف کچھ ہونا چاہیے۔ لیکن اس سے قبل لوگوں میں سیاسی او رسماجی شعور کو بھی اجاگر کرنا ضروری ہے۔ یہ دونوں کام بدتدریج چلیں گے تو ہمیں اس کے مثبت آثار دیکھنے کو ملیں گے۔ ہمیں اس میں نئی نسل کو خاص طور پر شامل کرنا ہوگا او ران کو سوشل میڈیا کے درست استعمال میں ایک بطور سفیر کے طور پر شامل کرنا ہوگا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں بطور ریاست یا حکومت یا سماج جو داخلی اور خارجی سیاسی، سماجی، معاشی او رانتظامی چیلنجز ہیں ہمیں ان کا بہتر مقابلہ اس سوشل میڈیا کی مدد سے کرنا ہے۔ ہم ثبت انداز میں تنقید کو بنیاد بنائیں او رخود کو مسئلہ بنا کر پیش کرنے کی بجائے مسئلہ کے حل کے طو ر پر پیش کریں۔ ہمارا مسئلہ بگاڑ نہیں بلکہ اصلاح کا پہلو ہونا چاہیے۔ ریاست او راداروں کو کمزور کرنا خود ہمار ے ریاستی مفاد کے برعکس ہے۔

تعلیم صحت، غربت، روزگار، انصاف، ناہمواریاں، ماحول، عورتوں او ربچوں کے حقوق، اقلیتیں، کسان او رمزدور سمیت عام آدمی کے مسائل اس سوشل میڈیا میں جاری بحث و مباحثہ کا حصہ ہونا چاہیے۔ ہمیں ریاست او رحکومت پر بلاوجہ تنقید یا چاپلوسی کرنے کی بجائے ملک میں حکمرانی کے نظام کی شفافیت، وسائل کی منصفانہ تقسیم، امیری او رغریبی میں بڑھتی ہوئی تقسیم، ریاست او رشہریوں میں تقسیم سے جڑے سوال اٹھاکر ایک بڑے دباؤ کی سیاست کو پیدا کرنا ہے، لیکن یہ کام قانونی دائرہ کار میں ہونا چاہیے او ر اس کی بنیاد لوگوں کو مختلف فرقوں یامنفی تقسیم کرنے کی بجائے جوڑنے کی سیاست ہونی چاہیے او راسی کی بنیاد پر ہم اپنا ایک مثبت قومی بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments