ہمارا معاشرہ اور اعتدال کا فقدان


جیسا کہ دیکھنے میں آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اعتدال کا فقدان پایا جاتا ہے۔ اب یہ بات بھی اہم ہے کہ معاشرہ ہم ہی سے ہے اور ہماری سوچ اور عمل سے ہی بنتا ہے۔ غلطیاں ہماری اپنی ہوتی ہیں اور ہم سارا ملبہ معاشرے یا سوسائیٹی پر ڈال دیتے ہیں۔

ہم انتہا پسند قوم ہیں اس لیے ہم اعتدال نہیں رکھ پاتے۔ اب معاشرے میں دو طرح کی صورتِ حال دیکھنے میں آتی ہے یا تو ہم بہت زیادہ فیشن ایبل یا ماڈرن ہو گئے ہیں یا پھر دقیانوسی اور بیک ورڈ یعنی درمیانی اعتدال والی صورتحال نہ ہونے کے برابر ہے۔

ایک یونیورسٹی میں جانے کا اتفاق ہوا طالبات کو دو حصوں میں بٹے پایا۔ ایک وہ طبقہ تھا جو خود کو ماڈرن کہلواتا ہے۔ ان کی ڈکشنری میں منہ کو بگاڑ کر انگریزی بولنا ’پھٹی جینز‘ چھوٹی شرٹ پہننا ’ڈوپٹے سے دشمنی رکھنا‘

ویسٹرن سٹائل کو کاپی کرنا ’ماں باپ سے بدتمیزی سے بات کرنا اور چھوٹے بڑے کا خیال نہ کرنا ہی ماڈرنزم ہے۔ پھر دوسرا طبقہ دیکھا جس میں حجاب اور نقاب میں ملبوس خواتین کو دیکھا جو پردے کی پابند تھیں۔ اب درمیانی راستہ یا اعتدال کا راستہ نہیں تھا۔ اب دو انتہا کی صورتحال ہیں ’ہم وہ قوم ہیں جو اعتدال پسند نہیں ہیں۔

ہم غصے میں جلدی آجاتے ہیں۔ بات کو صورتحال کو سمجھتے نہیں ہیں اس پر ردِعمل پہلے جاری کر دیتے ہیں۔ گاڑی ’موٹرسائیکل‘ رکشہ و ویگن چلاتے ہوئے اگر کوئی ایکسیڈینٹ ہو جائے تو ایک دوسرے کے گریبان کو پکڑنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اب یہاں بھی دو طرح کے لوگ آتے ہیں ایک وہ جو لڑنے بھڑنے کا موقع ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں اور پھر وہ جو آنکھ بچا کر نکلنے والے ہوتے ہیں یعنی کوئی معاملے کو سلجھانے والا نہیں ملتا۔

ہم رائے قائم کرنے میں بھی اپنی مثال رکھتے ہیں فوراً انتہا پر پہنچ جاتے ہیں اور تعلق کو ختم کرنے پر آجاتے ہیں۔ معاملے کو سلجھانے والا ’درمیانی راستہ نکالنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ دوسری طرف مظلوم بن کر ستم سہتے چلے جاتے ہیں اور اپنے حق کے لیے بھی بول نہیں پاتے۔

جب ہم موڈرنزم کی بات کرتے ہیں تو پھر ہمیں دو طرح کے لوگ ملتے ہیں ایک وہ جو ماڈرن کہلاتے ہیں اور اپنے بچوں کی تربیت ایسے کرتے ہیں جیسے وہ پرنس چارلس ہوں۔ جبکہ پرنس چارلس کی بھی ایسی تربیت نہ کی گئی ہو گی جیسی ہم پاکستانی قوم اپنے بچوں کی کرتے ہیں۔ امیروں کے ممی ڈیڈی بچے ہوتے ہیں ایسے بچوں کو وقت اور ضرورت سے پہلے ہر چیز مل جاتی ہے جس سے وہ قدر کھو دیتے ہیں۔ ان کو احساس نہیں ہوتا کہ محنت کیا ہوتی ہے بچت کیا ہوتی ہے میانہ روی کیا ہوتی ہے۔ باپ کے پیسے پر عیاشی پروگرام ہوتا ہے بڑی بڑی گاڑیاں لے کر گھومتے ہیں اور تیز رفتاری کرنا سگنل توڑنا ’برانڈڈ اور لاکھوں روپیے کے مہنگے موبائیل استعمال کرنا‘ برانڈڈ کپڑے پہننا ’دوستیاں کرنا‘ پارٹیاں کرنا باپ کے پیسوں کو اُڑانا ان کا بہترین مشغلہ ہوتا ہے۔

پھر آتا ہے وہ غریب طبقہ جو دو وقت کی روٹی پوری کرنے کے چکر میں ساری زندگی چکی پستا رہتا ہے۔ درمیانہ طبقہ نہ ادھر کا رہتا ہے نہ ادھر کا۔ خود سے اوپر دیکھتا ہے تو کمتری کا شکار ہو جاتا ہے امیروں کے بچوں کی دیکھا دیکھی اپنے بچوں کی بہتر پرورش کرنا ان کے لیے محال ہو جاتا ہے اور خود سے نیچے دیکھ کر خوش ہونے کا تصور آج کل پایا نہیں جاتا۔ نہ ہم کسی کی مدد کرنے کے روادار ہوتے ہیں جس سے معاشرے میں اک عجیب سی صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔

ہمارا معاشرہ ہمیں اعتدال میں رہنا سکھاتا ہے میانہ روی کا درس دیتا ہے اپنی چادر کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہمارے پاس دولت آگئی ہے تو اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اس کا بے جا استعمال کریں اپنی اولادوں کو بے لگام چھوڑ دیں کہ وہ اک زناٹے سے گاڑی چلا کر دوسروں کی زندگیوں سے کھیلیں۔ ماڈرن ہونے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم اپنی قدروں کو بھول جائیں اپنی زبان اردو کو اپنے لیے گالی سمجھنے لگ جائیں انگریزی زبان کو ہی اعلی تعلیم کا معیار سمجھنا شروع کر دیں۔

آخر ہم ویسٹرن سٹائیل کو کاپی کیوں کریں ہمارا اپنا کلچر بہت خوبصورت ہے اس کو پروموٹ کیوں نہ کریں۔ ہمارا کلچر ’ہمارا رہن سہن‘ ہمارے طور طریقے ہی ہماری پہچان ہیں یم اس پہچان کو کیوں ختم کر رہے ہیں جو ہمیں باقی قوموں سے منفرد کرتی ہے۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ہمارے لیے کہ ہم انتہاپسندی کو چھوڑ کر اعتدال کو اپنائیں اور اپنی زندگیوں کو آسان بنائیں اور آسانیاں بانٹیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments