“جھوٹی کہانی”


یہ ایک بنیادی اصول ہے کہ جب کوئی تنظیم ، کوئی سیاسی جماعت ہو یا کوئی یونین وہ نام تجویز کرتےہوئے اپنے منشور اپنے کردار کا خیال رکھتی ہے۔ پیپلز پارٹی ، جماعت اسلامی اور تحریک لبیک اس کی سادہ مثالیں ہیں ۔
تحریک انصاف بھی ایک سیاسی جماعت ہے۔ ہو سکتا ہے بعض دوست اس نام سے متفق بھی ہوں۔ اور سمجھتے ہوں کہ یہ نام کردار اور منشور کے عین مطابق ہیں ۔ سچ پوچھیں تو اقتدار سنبھالنے سے پہلے خان صاحب کی تقاریر سے متاثر ہو کر میں بھی یہی سمجھتا تھا۔

مگر اقتدار سنبھالتے ہی جب خان صاحب کی تقاریر کو عملی جامہ پہنانے کا وقت آن پہنچا تو پہلی بار میرے زہن نے اس طرف توجہ چاہی کہ ہو نا ہو اس جماعت کا نام کچھ مطابقت نہیں رکھتا۔

لیکن یہ جستجو بہت دیر تک دل میں رہی کہ اس کا ایسا نام کھوج سکوں جو اس کے کردار اور منشور سے مطابقت رکھتا ہو۔ بہت دیر تک اس کھوج نے مجھے الجھائے رکھا۔ کوئی نام تھا کہ سمجھ میں نا آتا ۔ اس دوران بہت سوں نے تحریک ستیاناس جیسے القابات بھی میرےسامنے رکھے۔ میں زاتی طور پہ سمجھتا تھا کہ نہیں جو بھی ہو ایسے الفاظ اخلاقی طور پر کچھ غیر مہذب سنائی دیتے ہیں۔

پھر یہ بھی کہ اگر اس نام کو مان بھی لیا جائے تو کیا یہ نام ان کی کارکردگی کا احاطہ کر پائے گا ۔ جواب نہیں میں ہی سامنے آتا ۔
یہ سچ ہے کہ ان کی حکومت نے ہر محاز پر وطن عزیز کی تباہ کاریوں ہی کی بنیاد رکھی۔ اچھے خاصے چلتے کاروبار اور ادارے تباہ کر دئیے۔ جو پہلے ہی کمزور تھے ان کو موت کے دھانے پر کھڑا کر دیا۔

ملکی معشیت کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ۔ جی ڈی پی ریٹ پانچ اعشاریہ آٹھ سے دو اعشاریہ ایک پر لا کھڑا کیا ۔ مہنگائی اور بے روزگاری اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ غریب مزید غریب ہوتا جا رہا ہے ۔ ان کی حکومت میں یہ قوم روز بروز اخلاقی پستیوں کی طرف گامزن ۔ ٹی وی اخبار روز معصوم بچوں کیساتھ ذیادتی کے واقعات سے مزین ہو رہے ہیں۔ ان سب کے باوجود اس حکومت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ یہ سب دیکھنے کے بعد بھی میرا ذہن “تحریک ستیاناس” جیسے لقب کو ناتمام سمجھتا ہے۔

اس سلسلے میں میں ذاتی طور پر سعادت حسن منٹو صاحب کی طرف رجوع کرتا ہوں۔ یوں تو ہمارے ہاں اکثر لوگ ان کو فحش نگار اور کچھ تو احساس محرومی کے باعث خبطی ہوا شخص بھی تصور کرتے ہیں۔ لیکن ہاں ان کے افسانے اس سب کے باوجود اچھوتے موضوعات کی منہ بولتی تصویر ہے۔

منٹو صاحب اپنے ایک افسانے” جھوٹی کہانی” میں یونینز کی فہرست جاری کرتے اور ساتھ ان کا کچھ مختصر تعارف کرواتے ہیں۔ انکی جاری کردہ فہرست میں ان دنوں یونینز کی پہنچ اور طاقت سےمتاثر ہو کر بنی ایک “غنڈہ یونین” کا بھی زکر ہے۔ یہ یونین غنڈہ گردی ڈاکہ اور چوری کو قانونی اور اخلاقی تحفظ دینے کی تحریک پر کاربند نظر آتی ہے۔

یقین کیجئیے میں نے کئی زاویوں سے اس حکومت کے کردار، گفتار اور اعمال کا مشاہدہ کیا۔ اور ہر پل یہ محسوس کیا کہ اس تحریک کے لئیے منٹو صاحب کی بیان کردہ یونین کا “نام” ہر لحاظ سے مکمل اور جامع دکھائی دیتاہے۔

اس کی وجہ کہ یہ حکومت ہر لحاظ سے اخلاقی ، سماجی ، اور آئینی قواعد و ضوابط کے پرکھچے اڑاتی جا رہی ہے۔ کوئی سوال کرے تو اس سے ذیادتی پر اتر اتی ہے۔ یہ ہر چیز پر ٹیکس کی بھرمار کرتی ہے عوام سوال کرے تو جواب ملتا ہے آپ ٹیکس چور ہو۔
کوئی شخص شوکت صدیقی کی طرح ان کی توجہ عدالتی کارروائیوں میں ہونے والی مداخلت کی طرف کرے تو یہ اسے بطور جج برطرف کر دیتے ہیں۔

کوئی جج ان سے رانا ثناءاللہ کے خلاف جھوٹے مقدمےپر ثبوت مانگے تو یہ اس کی پوسٹنگ کسی اور شہر میں کر دیتے ہیں۔ یہ تو چھوڑئیے کوئی ایس ایچ او ان کے جگری احسن جمیل گجر سے سخت لہجہ اپنائے “تبدیلی” حکومت اس کی تبدیلی کر دیتی ہے۔
کوئی فرد عظمی بخاری کی طرح عوامی ہمدردی میں آٹے کے بحران کی طرف متوجہ کرے تو یہ اسے بے عزت کرنے کے دھر پہ ہو جاتے ہیں۔

اور بھی بہت سے معاملات جن کو بطور مثال سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ مختصرا یہ کہ ان کا ہر رویہ ہر قدم کسی علاقے کے غنڈے اور بدمعاش جیسا ہے ۔ یہ انفرادی اور مجموعی دونوں ہی طرح سے ، کردار اور گفتار دونوں ہی درجوں پر غنڈہ گردی اور بدمعاش رویہ کے پیکر نظر آتے ہیں اس لئیے میرے نزدیک تو “تحریک بدمعاش” ہی ان کے منشور کا عکاس ہو تو ہو کوئی اور نام ان کی ترجمانی کرنے سے عاری۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments