دو ٹکے کی عورت یا ٹکے ٹکے کی عورت!


گزشتہ چند برسوں میں ٹیکنالوجی کے باعث دنیا میں بڑی تیزی سے ترقی ہوئی ہے۔ سوشل میڈیا نے تو جیسے ساری دنیا کو چھوٹے سے موبائل میں لاکر اکٹھا کردیا ہو۔ مگر اس معاشرے میں رہنے والے لوگوں کے ذہن بھی انتی تیزی سے ترقی کر گئے ہیں کہ یہ جان کر بڑی حیرت ہوئی جب اے آر وائے ڈیجٹل کے مشہور ڈرامہ سیریل ”میرے پاس تم ہو“ کے بارے میں چھڑی بحث دیکھی۔ ”رائیٹر نے مہوش کو دو ٹکے کی عورت“ کیوں کہا؟ کہا جارہا ہے کہ اس لفظ سے تمام عورتوں کی تذلیل ہوئی ہے۔

یہ بحث صرف سوشل میڈیا پر ہی محدود نہ رہ سکی بلکہ ٹی وی پر بھی کئی ٹاک شوز کیے گئے۔ یہاں اس مقام پر حیران کن بات یہ ہے کہ یہ وہی معاشرہ ہے جہاں آج تک اگر عورت سے کوئی اختلاف ہو تو سب سے پہلے اس کے کردار ہر انگلی اٹھانا فرض سمجھا جاتا ہے۔ یہ فرض چار دیواری اور باہر کی دنیا میں خوب نبھایا جاتا ہے۔ اگر شوہر کے معیارات پر بیوی پوری نہ اتر پاے تو اس کی اوقات ٹکے کی کر دی جاتی ہے پھر کسی بھی عورت کو طلاق ہو جاے تو اس کی بہنوں کے رشتوں میں مشکلات ایک عام بات ہے اس مقام پر بھی عورت خود اپنی ہی نظروں میں ٹکے کی ہو جاتی ہے۔

عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر عورت مارچ میں ”میرا جسم میری مرضی“ کو اسی سوسائٹی نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ میں نے اپنے ساتھ کام کرنے والے بظاہر روشن خیال مردوں کو یہ کہتے سنا کہ یہ بے غیرت، بے حیاء ٹکے ٹکے پر بکنے والی عورتیں ہیں جو نعرے لگارہی ہیں۔ عورتوں کو حراساں کرنے کی سوشل میڈیا مہم me too کو شدید تنقید کا نشانہ آج تک بنایا جارہا ہے اور اگر کوئی عورت حراساں کرنے کا مقدمہ عدالت میں لے جاے تو یہ جملہ زبان زد عام ہوتا ہے کہ ایسی ٹکے ٹکے کی عورتوں کو نہ اپنی عزت کا خیال ہے نہ ہی دوسروں کی۔

دفتر میں اگر کوئی عورت اپنی اچھی کارکردگی کے باعث ترقی کر لے تو وہاں موجود مردوں کی اکثریت یہ بات کرتی نظر آتی ہے کہ عورت ہے نا اس وجہ سے ترقی کرلی کیونکہ ترقی کے لیے اس کی ادائیں ہی کافی ہیں۔ ٹکے ٹکے کی ہوتی ہیں ایسی عورتیں۔ اوپر بیان کردہ تمام مثالیں قدیم زمانے کی نہیں بلکہ حال ہی کی ہیں مگر عجیب بات یہ ہے کہ عورت کو ہر بات پر ٹکے ٹکے کے طعنے دینے والے لوگوں کو مہوش کو دو ٹکے کی عورت کہنے پر اتنا برہم کیوں ہیں۔

راتوں رات ان کی غیرت اتنی کیسے جاگ گئی ہے؟ یہ ایک انتہائی فضول قسم کی بحث ہے جس کا نہ سر ہے نہ پیر، اپنی ٹانگیں اٹھانے میں مصروف ہیں۔ چلیں اگر مان بھی لیا جائے کہ ایک ٹی وی ڈرامے نے ان کی غیرت جگا کر انقلاب برپا کر ہی دیا ہے تو پھر اس طرح کی آواز اے آر وائے ڈیجیٹل پر ہی نشر ہونے والے ڈرامہ سیریل ”رسوائی“ کی سمیرہ کے لیے یا اس جیسی بے شمار لڑکیوں کے لیے کیوں نہیں اٹھائی جارہی ہے۔ ( سمیرہ ڈارمے کی ہیروئن جس کو گینگ ریپ کا نشانہ بنایا گیا ہے ) ۔ اگر مہوش سے قوم کو اتنی ہمدردی ہے تو بے چاری سمیرہ جو واقعی ہمدردی کی مستحق ہے اس کا ذکر تو کہیں بھی نہیں؟ شاید اس لیے کہ عورت کو ٹکے ٹکے کی عورت کہنے والے افراد صرف دو ٹکے کی عورت کی حمایت میں اتنا مشغول ہیں کہ اور کوئی انہیں یاد ہی نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments