بھارتی مسلمان، اور تین طلاق کا تنازع


\"malike-ashter\"بھارت ميں ان دنوں، تين طلاق کا معاملہ شدت سے زير بحث ہے۔ ايک بار ميں تين طلاق دينے کو ملک کي سب سے بڑی عدالت ميں چيلنج کيا گيا ہے۔ مسلمانوں کي کچھ تنظيميں تين طلاق کي حمايت ميں ميدان ميں کود پڑی ہيں۔ ظاہر ہے اب جرح، دلائل اور ثبوتوں کی پرکھ کا سلسلہ چل نکلے گا، تب کہیں جاکر کوئی فیصلہ آئے گا۔ اس درمیان، میں نے کچھ ماہرین قانون کے مضامین پڑھے، جن میں انہوں نے کہا، کہ مسلم پرسنل لا کو آئینی حیثیت حاصل ہے۔ اس لیے اس میں عدالت کی مداخلت غلط ہوگی۔ خیر جو ہوگا، سو ہوگا اور جب ہوگا، تب ہوگا۔ ابھی تو ہمیں کچھ باتوں پر خود غور کرنا ہے۔ پہلا سوال تو یہ، کہ کیا واقعی ایک وقت میں تین طلاقوں کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟ کیا پرسنل لا سے متعلق قوانین واقعی حکم خدا ہیں اور کیا اصلاحات کے نام پر اس قدر بدک جانا مسلمانوں کو نقصان پہنچا رہا ہے؟

تین طلاق کے سلسلہ میں بڑی الجھن یہ ہے، کہ ہم اس سے مراد، ایک بار میں تین طلاق لیتے ہیں، یا مرحلہ در مرحلہ تین طلاق کے عمل کو تین طلاق سمجھتے ہیں! اگر اس سے مراد وہ عمل ہے، جس کو قرآن نے بیان کیا ہے اور جس کے مطابق ہر طلاق کے بعد ایک طہر (حیض کے بعد غسل جو عام زبان میں ایک مہینہ مانا جا سکتا ہے) کا وقفہ ہے، جس میں بیوی اور شوہر کو رجوع کی اجازت ہے، اور تیسری بار یہ رجعی طلاق، طلاق بائن بن جاتی ہے۔ جس کے بعد رجوع کی اجازت نہیں، اور علاحدگی کا حکم ہے۔ تو یقینا یہ ایک قرآنی حکم ہے اور اس سلسلے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔ مندرجہ بالا طریقہ کار قرآن نے عین انسانی نفسیات کے مطابق رکھا ہے، جس میں دونوں کے لیے سوچنے سمجھنے کا وقت، مصالحت کی گنجائش اور پھر سے ایک ہونے کی صورتیں نکالی گئی ہیں۔ اس طریقہ کار میں نہ تو غیض میں آکر کسی کو طلاق پڑ جانے کی صورت نکلتی ہے، اور نہ ہی مصالحت کی تمام گنجائشیں بیک جنبش لب ختم ہوتی ہیں۔ لیکن اگر تین طلاق سے مراد یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اگر تین مرتبہ طلاق طلاق طلاق کہہ دے تو اس کی بیوی اس پر حرام ہو گئی اور یہ طلاق، طلاق بائن مانی جائے گی تو اسے ماننے میں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو تامل ہے۔ دراصل اسی کے خلاف عدالت عظمیٰ میں بعض عرضیاں داخل ہیں، جن میں استدعا کی گئی ہے، کہ اس قسم کی طلاق کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔

بیک جنبش لب صرف تین بار بولنے سے تین طلاق پڑ جانا خلاف شرعی ہے، اس پر مسلمانوں کے مسالک کے درمیان اختلاف ہے، شیعہ اور سنیوں کے بھی کئی بڑے فرقے مانتے ہیں کہ کوئی شخص چاہے جتنی بار طلاق کہے وہ ایک ہی مانی جائے گی اور رجعی کے حکم میں آئے گی۔ البتہ کچھ مسلمانوں کا خیال ہے کہ اگر ایک بار میں تین بار طلاق بول دیا گیا تو وہ طلاق بائن ہوگی اور تین طلاقیں مانی جائیں گی۔ میرے خیال میں مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ کہہ کر بڑی نا انصافی کی ہے کہ تین طلاق الہامی قانون ہے۔ یہ دراصل ایک مکتب فکر کے یہاں قابل قبول ہے اور بیش تر مسالک اس کے خلاف ہیں۔ پھر پرسنل لا بورڈ سارے مسلمانوں کے نام پر کیسے پرچہ پھاڑ سکتا ہے۔ کیا صرف اس لیے کہ مخصوص مکتب فکر کا اس بورڈ پر غلبہ ہے؟

ایک بار میں تین طلاق پڑ جانے کا حکم اس لیے بھی سمجھ سے بالاتر ہے، کہ قرآن مجید کے سورہ بقر کی 229 ویں آیت طلاق کے عمل کو تفصیل سے بیان کر چکی ہے۔ ایسے میں کسی اور روایت یا حکم کی گنجائش نہیں رہتی۔ مسلمانوں کے لئے حکم خدا کا اولین اور معتبر ترین منبع کتاب الٰہی ہے، اور کسی اور چیز کی ضرورت تب ہوتی ہے جب کوئی واضح حکم قرآن میں نہ مل پا رہا ہو۔ تین طلاق کے حوالے سے یہ بات بھی دل چسپ ہے کہ یہ حکم اپنے آپ میں بڑا غیر منطقی معلوم ہوتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایک بار میں ایک سے زیادہ طلاق کیسے ممکن ہے، جب کہ پہلی بار لفظ طلاق کہتے ہی طلاق ہو گئی، اب دوسری طلاق تب ہی وقوع ہو سکتی ہے، جب کہ دونوں پھر سے رجوع کرکے شوہر بیوی بن جائیں۔ جب تک رجوع نہیں ہوگا، تب تک یہ عورت اس شخص کی بیوی نہیں ہوگی، اور جب بیوی نہیں ہوگی، تو دوسری اور تیسری طلاق کیسے پڑ سکتی ہے؟

اب رہا سوال ، پرسنل لا کے الہامی قانون ہونے کا۔ اس میں کسی کو شک نہیں کہ وہ معاملات جن میں اسلام نے واضح احکامات دے دیے ہیں، ان میں کسی قسم کی تبدیلی قابل قبول نہیں۔ دو خدا نہیں مانے جا سکتے، نماز کی جگہ کوئی اور عبادت نہیں اپنائی جا سکتی، رمضان شوال یا شعبان میں نہیں ہو سکتا، وغیرہ۔ یہ وہ قوانین ہیں جن پر کسی کلمہ گو کو اختلاف نہیں، لیکن بات جب فروعی معاملات کی آتی ہے، تو اس میں ضروری نہیں کہ ہر حکم سب مسلمانوں کے درمیان قابل قبول ہی ہو۔ مثال کے طور پر نماز کے دوران ہاتھ باندھنے ہی کا مسئلہ لیں، اس میں پانچوں مکاتب فکر کے درمیان فرق ہے، کسی کے یہاں ہاتھ باندھنے کا حکم ہے تو کسی کے یہاں نہ باندھنے کا جب کہ کسی کے درمیان ہاتھ کہاں باندھا جائے، اس پر اختلاف رائے ہے۔ اسی طرح کچھ اور مسائل ہیں۔ مطلب یہ کہ مجتہدین، فقہا اور علما جب کسی مسئلے پر حکم شرعی جاننے کی سعی کرتے ہیں، تو اپنی اپنی جستجو اور غور و فکر کے مطابق حکم بتاتے ہیں۔ چوں کہ ان کا یہ عمل نیک نیتی پر مبنی ہوتا ہے، اس لیے مقلدین اس حکم پر عمل کرتے ہیں۔ مسائل میں اختلاف ایسا معیوب عمل نہیں ہے، جسے شجر ممنوعہ مانا گیا ہو، بلکہ یہ غور و فکر اور اجتہاد کا مظہر ہے۔ ایسے میں یہ بالکل نہیں کہہ سکتے، کہ جو احکامات آج ہمارے سامنے ہیں، وہی حرف آخر ہیں، اور ان میں تبدیلی ممکن نہیں۔ حالات و واقعات کے مطابق احکامات کا استنباط ہوتا ہے، اور یہ صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ مطلب یہ کہ کسی حکم پر از سر نو غور کیا جا سکتا ہے۔ جب کہ وہ بنیادی اسلامی عقائد سے متصادم نہ ہوتا ہو۔ تین طلاق کے حوالے سے بھی غور و فکر کی گنجائش موجود ہے اور اس پر بحث سے بھاگنا، مسلمانی روایات کے شایان شان نہیں۔

مسلمانوں نے جس طرح قوانین میں اصلاحات کے نام پر بدکنا شروع کر دیا ہے، یہ کوئی اچھی عادت نہیں۔ اب حالت یہ ہے کہ مسلمانوں سے مزے لینے کے لیے اور انہیں چڑانے کے لیے بھی لوگ اسلامی قوانین میں تبدیلی کی پھری چھوڑ دیتے ہیں۔ اگر ہمیں اپنی شریعت کی آفاقیت پر اتنا ہی بھروسا ہے، تو ہم عدالتوں سے گھبراتے کیوں ہیں؟ عدالت میں کسی شرعی حکم پر بحث سے بھاگنا دو ہی چیزوں کی طرف اشارہ کرتا ہے، یا تو ہمیں اپنی شریعت پر بھروسا نہیں ہے، یا پھر ہم میں اتنی استطاعت ہی نہیں ہے، کہ ہم عدالت میں شرعی حکم کی تفہیم کر سکیں۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments