چاند اور سورج نے مِل کر غم بڑھا دیا


شمسی لحاظ سے سال 2020 عیسوی میں 29 جنوری کی تاریخ اور قمری لحاظ سے سال 1441 ہجری کے مہینہ جمادی الثانی (جمادی الآخر) کی 3 تاریخ اس مرتبہ ایک ہی دن اکٹھی ہوئی ہیں۔ 29 جنوری اور 3 جمادی الثانی کو اگر ماضی میں دیکھیں تو ان دونوں تواریخ میں دو عظیم غمناک سانحہ ملیں گے، ایسے سانحے کہ اگر پردے ہٹا دیے جائیں تو تمام کائنات سوگوار و اشکبار دکھائی دے گی۔ اگر شمسی کلینڈر کے حساب سے دیکھیں تو 29 جنوری 661 عیسوی حضرت علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت کی تاریخ ہے اور قمری کلینڈر کے مطابق 3 جمادی الثانی 11 ہجری شہادتِ بنتِ مصطفٰیﷺ، زوجۂ علی المرتضٰی، جنابِ فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیہا کی تاریخ ہے۔

اگر غور کریں تو ان دو تاریخوں کا ایک ہی دن آنا کوئی عام بات نہیں ہے، اگر اسے ”اتفاق“ کہیں تو بھی اعتراض ہوگا کیونکہ اس کے متعلق ڈاکٹر غلام جیلانی برق صاحب اپنی کتاب ”من کی دنیا“ میں لکھتے ہیں کہ ”اس کائنات کے نوّے فیصد پہلو ہماری آنکھوں سے اوجھل ہیں اور جو کچھ نظر آرہا ہے وہ بہ مشکل دس فیصد ہے۔ برق صاحب اس کے بعد یہ بھی ثابت کر رہے ہیں کہ کائنات میں اتفاقات کی کوئی حقیقت نہیں۔ “ (برق صاحب کے اس نظریہ سے کسی کو بھی اختلاف کا حق حاصل ہے۔ )

ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ان دو عظیم سانحوں کو جو سورج اور چاند نے جوڑ دیا ہے تو ہم اس کی حقیقت کو جان گئے ہیں، لیکن بحیثیت مسلمان یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کائنات کی ان دو عظیم ہستیوں کا تذکرہ کرنے کا اس سے مناسب موقع اور کیا ہوگا کہ دو علیحدہ غم و الم کی تاریخ آج اکٹھی ہو گئی ہوں۔

اگر حضرتِ علی المرتضٰی کرم اللہ وجہہ الکریم اور جنابِ سیدہ فاطمۃ الزھرا سلام اللہ علیہا کے فضائل و مناقب کی بات کی جائے تو قرطاس و قلم میں اتنی طاقت و وسعت نہیں ہے کہ اس کا احاطہ کر سکیں۔ ہاں اس یومِ شہادتین پر ان پاکیزہ نفوس کے تذکرہ سے اپنے دامن کو رحمتوں سے ضرور بھرا جا سکتا اور اپنی آنکھوں کو نم کیا سکتا ہے۔

حضرتِ آدمؑ و بی بی حوّاؑ کے بعد یہ وہ ہستی ہیں کہ جن کا نکاح عرش پر خود اللہ نے پڑھایاہے۔ (البتول، صفحہ 105 ) حضرت عبداللہ ابن عباس سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمۃ الزھراؑ سے فرمایا کہ تمہارے لئے اہل بیت کے بہترین شخص کا انتخاب کیا ہے، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں مجھ محمدﷺ کی جان ہے، میں نے تمہارا نکاح دنیا میں سردار شخص کے ساتھ کیا ہے اور وہ آخرت میں صالحین سے ہے۔ (المعجم الکبیر)

اُم المومنین جناب اُم سلمہؒ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ کو میں نے دیکھا کہ آپؐ کی گود مبارک میں حسنینِ کریمین علیہم السلام بیٹھے ہیں، پھر ایک پہلو میں آپؐ نے مولا علی المرتضٰیؑ کو اور ایک پہلو میں جناب فاطمۃ الزھراؑ کو لیا اور دونوں کو چومنے لگے۔ (مسند احمد)

محبوبِ خداﷺ کی ان دو محبوب ہستیوں کے مصائب و تکالیف کا احساس کرنا انسان کے لئے ناممکن ہے، رسول اللہﷺ کی بیٹی اپنے بابا کے دنیا سے رحلت فرمانے کے بعد کس غم و الم سے گزری اس کی ایک بہت ہی معمولی سی جھلک آپؑ ہی کے ان اشعار میں حساس و پاکیزہ قلب محسوس کر سکتا ہے، سیدہؑ فرماتی ہیں : (ترجمہ) جس نے میرے بابا کے مزارِ اقدس کی خاک کو سونگھ لیا تو اس کا کیا کہنا وہ آئندہ کبھی بھی کسی قسم کی خوشبو نہیں سونگھے گا اور مجھ پر جو مصیبتیں پڑی ہیں اگر وہ دِنوں پر پڑتیں تو وہ راتوں میں تبدیل ہو جاتے۔ (الوفا:ابن الجوزی) بی بی فاطمۃ الزھراؑ اپنے قلب پر غم و الم کا کوہ گراں لئے اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔

دوسری جانب جنت کے شہزادوں کے پدر باغات میں مزدوری کر کے اپنا گزر بسر کرتے رہے اور جب امیر المومنینؑ مولا علیؑ نے ظاہری خلافت کی ذمہ داری سنبھالی تو آپ کی خلافت کے چار سال اور نو مہینوں کے اس دورانیے میں لاتعداد فتنوں نے سر اُٹھا لیا، جس کی سرکوبی میں ہی آپ کے شب و روز گزرے اور ان مصائب سے گزرتے ہوئے ایک دن آیا کہ دشمن اس امام عادل پر ضربت لگانے میں کامیاب ہوا۔ جس کے بعد حضرت مولا علی المرتضٰیؑ نے تاریخی جملہ کہا کہ: ربّ کعبہ کی قسم! آج (علیؑ) کامیاب ہوگیا۔

ایسے لمحات کے لئے ہی جناب میر تقی میرکہہ گئے تھے :

آثار دُکھ کے ہیں در و دیوار سے عیاں

چھایا ہے غم زمین سے لے تا بہ آسماں

کچھ میرہی کے چہرے پہ آنسو نہیں رواں

آیا ہے ابر شام سے روتا ہی زار زار


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments