مرشد! حور والا انجیکشن کہاں سے ملے گا؟


کپتان کی قیادت میں ڈیڑھ سال کا عرصہ بیت چکا، اس عرصے میں اتنی بڑی تبدیلی آئی کہ آنکھیں بند کر کے بھی محسوس کی جا سکتی ہے۔ سونا نوے ہزار فی تولہ سے بھی تجاوز کر چکا ہے، ڈالر کو پر لگ گئے، بجلی اور گیس کی قیمتیں تقریباً دگنی ہو چکی ہیں۔ پیٹرول ایک سو اٹھارہ روپے فی لیٹر سے بھی زیادہ ہو چکا، روز مرہ استعمال کی ہر چیز حد سے زیادہ مہنگی ہو چکی ہے، عام آدمی کے لیے جینا محال ہے اس کے باوجود عوام چیخ و پکار سے گریزاں ہیں کیوں کہ وہ کپتان کی محبت سے معمور ہیں۔ انہیں کامل یقین ہے کہ کپتان ’رحونیت‘ کے بل پر سب کچھ ٹھیک کر دے گا۔

آٹے کی قیمت بڑھی پھر آٹا مارکیٹ سے غائب ہو گیا۔ نان بائیوں نے روٹی کی قیمت میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔ مگر کپتان کے کھلاڑی اور صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی نے کہا کہ روٹی کی قیمت میں کسی صورت اضافہ نہیں ہونے دیں گے۔ ایک حکومتی رکن کی طرف سے یہ تجویز دی گئی کہ روٹی کا وزن کم کر دیا جائے مگر قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے۔ یعنی ایک روٹی کے آٹے سے دو روٹیاں بنائی جائیں۔ کتنی ذہانت سے یہ مسئلہ حل کیا گیا۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی نے بذاتِ خود ٹی وی چینل پر گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ آٹے کے بحران جیسی کوئی چیز نہیں، سب کہانیاں ہیں۔ ملک میں وافر مقدار میں آٹا اور گندم موجود ہے۔ ظاہر ہے ان کی بات درست ہے۔ یہ دکاندار وغیرہ تو یوں ہی مذاق کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ عوام کی قوتِ خرید بہت کم ہو گئی ہے۔ کرپشن میں اضافہ ہوا ہے اورغربت میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے۔ مثلاً چینی کی قیمت میں اضافہ ہونے سے شوگر ملز کے اونرز نے اربوں روپے کمائے ہیں۔ اب وہ ترین، زردار یا شریف ہوں، ہیں تو پاکستانی، اور بقول حکومتی ترجمان جس طرح ٹماٹر مہنگے ہونے سے ہمارے اپنے کئی پاکستانی بھائیوں کو فائدہ ہوا تھا۔ بس اسی طرح لسٹ بناتے چلے جائیں تومہنگائی سے آپ کو فائدہ ہی فائدہ نظر آئے گا۔

نظر آنے سے یاد آیا ہے کہ ایک انجیکشن لگنے سے کپتان کو حوریں نظر آنے لگی تھیں۔ کپتان نے یہ واقعہ سناتے ہوئے 2013 کے الیکشن میں سٹیج سے گرنے کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ان کے جسم میں بے حد درد تھا، پھر ڈاکٹر عاصم نے انہیں ایک انجیکشن لگایا اور درد غائب ہو گیا۔ نرسیں حوریں لگنے لگیں، درد و غم کی جگہ مسرت و شادمانی نے لے لی۔ کپتان نے وہ حظ اٹھایا کہ اس کے بعد ڈاکٹر عاصم کو دھمکایا بھی کہ مجھے وہی انجیکشن دوبارہ لگاؤ لیکن ڈاکڑ عاصم نے وہ انجیکشن نہیں لگایا۔

جب سے یہ بات سنی ہے بے روزگاری، مہنگائی، نا انصافی، لاقانونیت، پولیس گردی، بھوک اور ننگ کے ستائے ہوئے تمام افراد اس انجیکشن کی تلاش میں ہیں۔ دکھی دلوں کو چین پانے کا راستہ ملا ہے۔ پسے ہوئے، ستائے ہوئے اور مرتے ہوئے لوگوں کو جینے کی امید ملی ہے۔ ایک انجیکشن، صرف ایک انجیکشن نہ صرف ان کے دکھ درد کا خاتمہ کر سکتا ہے بلکہ حوروں کی زیارت بھی کرا سکتا ہے۔

ذرا تصور کیجیے اگر ایک بیروزگار نوجوان یہ انجیکشن لگوا کر باہر نکلے گا تو کسی دفتر میں انٹرویو میں ناکامی کے بعد منہ لٹکا کر نہیں بلکہ ہنستا ہوا باہر آئے گا۔ ایک ایک راہ گیر کو روک روک کر بتائے گا۔ ”بھائی صاحب! ارے بھائی صاحب! سنئیے میں ناکام ہو گیا۔ ہی ہی ہی میری جگہ ایک سفارشی کو نوکری مل گئی۔ ہاہاہا کتنی عجیب بات ہے، روٹی مہنگی ہے اور میں نے تین دن سے روٹی نہیں کھائی۔ “ ایسے میں اگر کسی بھکارن نے اس سے دس روپے مانگ لیے تو مسکرا اٹھے گا۔ ”جانِ من! تم نے مانگا بھی تو کیا مانگا، دس روپے کا نوٹ۔ دس روپے میں تو ایک روٹی بھی نہیں ملتی۔ دس روپے تو ایک بھکارن بھی نہیں لیتی اور تم توحور ہو حور۔ اے پھولوں کی رانی! اے حسن کی ملکہ! تو کہے تو میں لال حویلی تیرے قدموں پہ نچھاور کر دوں، تو کہے تو تجھے بنی گالہ کے کسی محل میں رکھوں۔ “

بھکارن اتنی تعریف سن کر خوشی سے بے ہوش ہو جائے گی اور نوجوان پیسے نہ دینے پر شرمندگی سے بھی بچ جائے گا۔ بیویوں کے ستائے ہوئے شوہروں کے لیے بھی یہ انجیکشن کسی نعمت سے کم نہیں۔ ایسا شوہر جب بھی ذرا تیار ہو کر باہر جانے لگے تو اکثر بیویاں منہ پھاڑ کر ایک ہی سوال کرتی ہیں کہ اتنا سج سنور کر کس چڑیل سے ملنے جا رہے ہو؟ شوہر جل کر بس اتنا ہی کہہ پاتا ہے کہ مجھے کسی چڑیل سے ملنے کی کیا ضرورت ہے ’میرے پاس تم ہو‘ ۔

اگر شوہر حور والا انجیکشن لگوا لے تو اسے بیوی ہی حور نظر آئے گی۔ وہ مہنگائی کا رونا رونے اور حکومت پر تنقید اورملامت کرنے کی بجائے اپنی بیوی کی شان میں قصیدے پڑھتا رہے گا۔ بیوی بھی خوش رہے گی اور حکمران بھی یکسو ہو کر چین کی نیند سو سکیں گے۔ چناں چہ حور والا انجیکشن قوم کی ضرورت ہے۔ ایک سچا قلم کار محروم طبقوں کی آواز ہوتا ہے۔ چناں چہ خاکسار وزیراعظم سے ملتمس ہے۔

مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجیے

مرشد میں آج آپ کو دکھڑے سناؤں گا

مرشد ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہو گیا

مرشد سابقہ حکمرانوں نے ہمیں حور والے انجکیشن کے بارے میں کچھ نہیں بتایا تھا۔ آپ نے ہماری لائف بنا دی۔ مرشد پلیز بس اتنا بتا دیں۔ مرشد حور والا انجیکشن کہاں سے ملے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments