” کافر سوالات “


راجھستان کے ایک علاقے میں نچلی ذات کی ہندو عورتیں ایک مخصوص پیشے سے وابستہ ہیں جن کا کام امیر اور بڑی ذات کے لوگوں کے مرنے پر معاوضے کے عوض رونا ہے۔ جن کو مقامی زبان میں ”ردھالیاں“ کہا جاتا ہے یہ ردھالیاں اپنے کسی عزیز کے مرنے پربہت ہی کم روتی ہیں کیونکہ ان کو بلا معاوضہ رونے کی عادت نہیں۔

وطن عزیز کی تمام مذہبی جماعتوں اور سماجی تنظیموں کا حال بھی اُن ردھالیوں جیسا ہی ہے جو دوسرے کسی ملک میں یا دنیا کے کسی کونے میں کسی کو کوئی خراش بھی آجائے تو رو رو کر منہ سے جھاگ اڑاتی پھرتی ہیں اور مبالغے سے بھرپور بین کرتی ہیں لیکن جب اپنے ہی آنگن میں لگے پھول کسی کی درندگی اور ہوس کا نشانہ بننے لگیں تو ایک سفاک خاموشی یا خذبات سے خالی مذمتی بیان داغ دیا جاتا ہے۔

جس پر سوال کرنا یا کسی اقدام کی توقع کرنا گستاخی کے ضمرے میں آتا ہے کیونکہ سوال کرنے کی جسارت کرنا بھی کفر ہے مگر ان کافر سوالوں کو اب جواب درکار ہے کہ وہ کون سی عریانیت تھی اور کیسی بے پردگی جس نے سات سال کی ننھی کلی کو روند ڈالا؟

وہ کون سا پردہ تھا جس پر عمل درآمد نہ کرنے کے نتیجے میں بارہ سال کے بچے کے ساتھ سو سے زیادہ مرتبہ زیادتی کی گئی؟ یہ کیسا کامل ایمان ہے کہ اس معصوم کی روح تک کو چھلنی کرنے کے بعد نہ صرف قائم ہے بلکہ ہٹ دھرمی کی انتہا کو چھوتے ہو ئے خاندان کو خاموش رہنے کے لیے دباؤ بھی ڈالتا ہے؟

یہ کیسی تعلیم ہے کہ اگر بہن اپنے ہی باپ کی جائداد میں حصہ مانگے توبھائی بے شرم اور بدکردار ثابت کر کے یا تو قتل کر دیتے ہیں یا اس کو سالہا سال زنجیروں میں جکڑ کر قید کروا دیتے ہیں؟

مگر ان تمام کافر، ملحد اور مر تد سوالوں کے بعد بھی انتہائی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے کہا جاتا ہے کہ ہمارے سماج کو اخلاقی پستی کی طرف دھکیلنے کے لیے عظیم سازش کی جا رہی ہے اور ہمیں ہمہ وقت ایک خطرہ لاحق ہے کہ دشمن ہمیں کمزور کرنا چاہتا ہے۔ ہم سے ہماری اقدار چھیننے کے لیے فلموں اور ڈراموں کا سہارا لیا جارہا ہے تاکہ ہمارا فیملی سسٹم تباہ کیا جائے اور اپنے اس موقف کی تاہید کے لیے پھر سے ”ردھالیوں“ کی خدمات لی جاتی ہیں جو رو رو کر بین کر کر کے پورے ماحول میں دکھ اور مظلومیت کا ماحول بنا دیتی ہیں اور ایک ایسا سحر طاری کر دیتی ہیں کہ ہمارے اعلی تعلیم یافتہ وزیر اعظم کو بھی لگنے لگتا ہے کہ ہمارا فیملی سسٹم کسی عظیم دشمن کے نشانے پر ہے۔

جناب اس حد تک ان ردھالیوں کے شور شرابے میں مگن ہیں کہ یہاں تک فرما دیا کی تصوف کو نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔ جناب عالی آپ اگر یہ فرما دیتے کہ ہمارے نصاب میں بنیادی اخلاقیات اور ایتھکس کو کمپلسری مضمون کی صورت میں ہنگامی بنیادوں میں شامل کیا جائے تو یہ اس قوم پراحسانِ عظیم ہوتا مگر ہم جانتے ہیں کہ اس وقت ردھالیوں کا رونا دھونا بامِ عروج پر ہے اور ماحول ابھی گرم ہے لیکن جب یہ سحر ٹوٹے گا اور ان ردھالیوں کا شور شرابا کم ہوگا تو مظلوموں کی آہوں اور سسکیوں کے بیچ ہمارے معاشرے کا بدنما چہرہ آشکار ہوگا اور ہم کو جواب دینا ہوگا اُن کافر سوالوں کا جو سوال کافر بھی ہیں ملحد بھی ہیں جن کا نہ کوئی دین ہے اور نہ ایمان۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments