انسانی فطرت اور عمل پرمیرا ذاتی مشاہدہ


تاریخ میں سماج، انسانی ارتقا، ثقافت، جعرافیہ اور مختلف اداورپرتحقیق اورکافی مواد مل جاتا ہے۔ انسانوں کے لئے مخلتف سماجی نظام بھی بنائے گئے۔ لیکن کوئی بھی نظام انسانوں کی اکثریت کوزیادہ دیر تک خوشحال رکھنے میں ناکام رہا۔ میری نظر میں انسانی ذات وفطرت پرتحقیق کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ انسان کیا ہے، چاہتا کیا ہے، اس کی ضرورت کیا ہے پھر انسان کی ضرورت، چاہت، خواہش، خوشی، غم کچھ بھی مستقل نہیں ہوتی اس کی کیا وجوہات ہیں۔

انسان مسلسل خوشی سے بھی بوریت اورمسلسل تکلیف و پریشانیوں سے بھی تنگ آجاتا ہے۔ انسان مسلسل اچھی خوراک لباس سے بھی تھکاوٹ محسوس کرتا ہے اورکپڑے، مکان اورخوراک نہ ملنے سے بھی تکلیف میں ہوتاہے۔ انسان مسلسل کام سے بھی تھکاوٹ اور مسلسل بے کاری سے بھی تنگ آجاتا ہے۔ میرا مشاہدہ ہے کہ انسان کسی بھی حالت میں مستقل طور پر خوش نہیں ہوتا۔

وہ ایک دانشور کا قول ہے کہ کچھ انسان کھانا حاصل کرنے کے لئے دوڑتے ہیں جبکہ کچھ انسان کھاناہضم کرنے کے لئے دوڑتے ہیں ہرانسان کی فطرت دوسرے انسان سے مختلف ہوتی ہے۔ ہرانسان کی خواہشات، ضروریات دوسرے انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔

اوریہی سب کچھ انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔ کیونکہ جانور اپنی جبلت کے مطابق ایک جیسی زندگی گزارتے ہیں۔

مسلسل جبر، خوف اورغلامی میں بھی انسان کو نہیں رکھا جاسکتا ہے، گو کہ چالاک حکمرانو ں نے مذہب کی بنیاد پر یہ کچھ حد تک ممکن بنادیا ہے۔ تاریخ میں پڑھا ہے کہ ابتدائی دور میں سماج میں کوئی بادشاہ، مالک یا غلام نہیں ہوتا تو اسی انسان نے خواہش ظاہر کی تھی کہ کوئی بادشاہ ہو جس کا حکم مانیں، خوراک کی وافر مقدار سے بھی تنگ آچکے تو خوراک، لباس میں جدت کی فرمائشیں شروع کردی۔

خیر یہ تو انسانی تخلیق کی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ لیکن میں جس چیز پر سب سے زیادہ حیران، پریشان اور فکرمند ہوں وہ یہ کہ انسان کے لئے ایسا کون سا آئین و قانون ہوگا جس پرانسان رضاکارانہ عمل کرسکے اور کسی قسم کی قانون شکنی بھی نہ کرے۔ رول آف لا کے لئے ہرانسان اپنی ذہن سے سوچتا ہے کوئی سخت سزاوں کی بات کرتے ہیں تو کوئی ضرورت پوری کرنے کی بات کرتے ہیں۔

روز کا مشاہدہ ہے جب کوئی ظلم زیادتی کا کیس ہوجاتا ہے تو جذباتی لوگ مجرم کو سخت سے سخت سزا اور چوک میں پھانسی کی سزاکے لئے آواز بلند کردیتے ہیں جو میری نظر میں خود انتہاپسندی ہے۔ کوئی سزاوں کے لئے سخت قانون سازی بنانے کی باتیں کرتے ہیں۔ جس پر عمل درآمد بھی پھر انسانوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور بات پھر پسند ناپسند کی آجاتی ہے اور امتیازی سلوک کا ہونا یقینی بن جاتا ہے۔

انسان جب تک ذہنی طور پر مطئن اور آسودہ نہ ہو۔ جبر، طاقت، خوف، لالچ کی بنیاد پر انسان سے کام تو لے سکتے ہیں لیکن وہ کام ایسا ہوگا جس سے نہ آپ مطئن ہوں گے اور نہ وہ خود خوش ہوگا۔

دل سے کام کروانے کے لئے انسان کی مجبوریوں، محرومیوں کو ختم کروانا ہوگا۔ اور یہ احساس دلانا ہوگا کہ ہم سب ایک ہیں اور سب کی خوشیاں، پریشانیاں ایک ہوں گی۔

اس کے لئے ایک ایسے سماج کی ضرورت ہے جہاں کوئی انسان کسی انسنان کا محتاج نہ ہو اور کوئی انسان کسی کا ممنون احسان نہ ہو۔

جبر خوف، طاقت اور لالچ کی بجائے انسانوں کی تربیت رضاکارانہ بنیادوں پرکرنے کی ضرورت ہے۔

میری ذاتی رائے میں یہی امتیازی سلوک پھر کسی جرم کاسبب بنتی ہے۔ میں سخت اور انتہاپسندی کی سزا کا مخالف ہوں اور سمجھتا ہوں کہ قانون اور آئین پر تب تک عمل درآمد ممکن نہیں جب تک انسانوں کی بنیادی ضروریات پوری نہ ہوں اور امتیازی سلوک کا خاتمہ نہ ہوں۔ قانون سازی ایسے ہوں جس پر انسان رضاکارانہ طورعمل کرکے خوشی محسوس کرے۔ جو انسان اپنی بقا، ترقی کا ضامن سمجھتا ہو۔ جہاں پر انسانوں کے درمیان اونچ نیچ، استحصال ہو وہاں پر جرائم ضرور ہوں گے اور ان کا خاتمہ ناممکن ہے۔

درج بالا تحریر میری ذاتی رائے، سوچ و فکر کا ماخذ ہے لیکن خواہش ہے کہ دانشور، محقق اور غور و فکر والے انسانوں کی فطرت پر زیادہ تحقیق کرے تاکہ انسانوں کی فطرت کے مطابق ہی پھر حکومت، قانون اور آئین بنانے میں مزید آسانیاں پیدا ہوں۔

انسانی لالچ، غرض، مفاد، بغض اور حسد کی کیفیات پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ ان عوامل کو جان سکیں جس کی وجہ سے انسان میں یہ خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments