ٹرمپ کی ڈیل آف دی سنچری اور فلسطینی احتجاج


بالآخر تین سال کے طویل انتظار، فلسطینیوں اور آٹے میں نمک برابر کچھ مسلم ممالک کی مخالفت کے باوجود صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطی کے بارے اپنے امن منصوبے کا اعلان کر دیا۔

بظاہر امن کے خاطر پیش کیا جانے والا یہ منصوبہ دراصل امریکی حکام کی طرف سے فلسطینی اور 1967 کے بعد عرب علاقوں پر اسرائیل کے غاصبانہ قبضے، فلسطینیوں کی نسل کشی، عالمی قوانین کی کھلی خلاف ورزی کر کے فلسطینی اور عرب علاقوں پر قائم کی گئی غیر قانونی یہودی بستیوں کو اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ جاری اسرائیلی ظلم اور جبر کو قانونی شکل دینے کی ناکام اور مذموم کوشش ہے۔

جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ نام نہاد امن منصوبہ فلسطینی قیادت کی غیر موجودگی ( جن کو مدعو ہی نہیں کیا گیا ) میں اسرائیلی وزیر ا عظم کے ساتھ کھڑے ہو کر یہ کہہ کر دنیا کے سامنے رکھا کہ صدی کا سب سے بڑا امن منصوبہ مشرق وسطی میں امن کی راہ ہموار کرے گا عین اسی وقت غزہ کے اطراف میں اسرائیلی توپ خانے سے گولے داغے جا رہے تھے۔

مغربی کنارے کے نوجوان رملہ کے اطراف ہزاروں کی تعداد میں جمع ہو کر ”ڈیل ریجیکٹڈ“ کے فلک شگاف نعرے بلند کر رہے تھے۔ اور پوری دنیا سے فلسطینی مقصد کے ساتھ جڑے لاکھوں لوگ ٹویٹر پر sayno 4 deal# کا ٹرینڈ چلا رہے تھے۔

فلسطینی حکومت عوام اور پوری دنیا میں پھیلے آزادی فلسطین کے ہمدردوں کی طرف سے اس منصوبے کو مسترد کر دیا گیا ہے۔

منصوبے کے مطابق فلسطین کو تمام طرح کی مزاحمتی تحاریک بشمول پرامن احتجاج کو خیرباد کہنا ہو گا۔

یہ جزو کس طرح امن لاے گی کم ازکم میری سمجھ سے باہر ہے۔ آپ کسی کے شہر، محلے یا گھر کے باہر یورپ، امریکہ، افریقہ اور آسٹریلیا سے لا کر ایک خاندان کو آباد کریں اور پھر صدیوں سے وہاں رہائش پذیر کے لئے حکم جاری کر دیں ”تم دوئم درجے کے شہری ہو اور باہر سے آنے والا اول درجے کا شہری“ تو احتجاج کیسے نہیں ہو گا۔

منصوبے کے مطابق تمام فلسطینی مہاجرین، اور پناگزینوں کی واپس اپنے آبائی علاقوں میں جانے پر مکمل پابندی ہو گی۔

اب یہ شق بڑا سوچ سمجھ کر کر اس منصوبے کے مسودے میں میں داخل کی گئی ہے

تقریباً ستر سے اسی لاکھ کے قریب فلسطینی آج اس وقت میں اردن، شام، مصر، لبنان اور دیگر عرب ممالک میں مہاجرین کی زندگی زندگی گزار رہے ہیں۔ ان لوگوں نے 1948 میں اسرائیل فلسطین جنگ کے دوران اپنے آبائی علاقوں سے ہجرت کی تھی اس وقت ان کی تعداد سات لاکھ کے قریب تھی جو اب بڑھ چکی ہے اسرائیل کبھی نہیں چاہتا کہ یہ لوگ اپنے آبائی علاقوں میں واپس آئیں اول تو اس سے مسلم اور یہودی آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا اور دوسرا ان کے چھوڑے ہوئے علاقے اور گھروں پر اب اسرائیل نے دیگر دنیا سے یہودی لا کر آباد کر دیے ہیں۔

اس منصوبے کے مطابق بیت المقدس کا 80 فیصد حصہ باقاعدہ طور پر اسرائیل کے حوالے کر کر کے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینیوں پر بھی لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کریں۔

فلسطینی حکومت مشرقی بیت المقدس کے ایک علاقے کو اپنے دارالحکومت کے لئے استعمال کر سکتے ہیں یعنی بیت المقدس پر فلسطینیوں کا حق صرف علامتی ہو گا اور تمام طرح کے، سیکورٹی، انتظامی اور میونسپل اختیارات اسرائیل کے پاس ہوں گے۔

منصوبے کی دستاویز میں باقاعدہ طور پر لکھا گیا ہے کہ اسرائیلی فوج بیت المقدس کہیں بھی کسی بھی گھر یا فلسطینی حکومت کے دفتر میں چھاپہ مار کر کسی بھی سرکاری دستاویز کو قبضہ میں لینے کے ساتھ ساتھ کسی بھی حکومتی یا عام فلسطینی کو گرفتار کر سکتی ہیں۔

منصوبے کے مطابق جہاں بھی غیر قانونی یہودی بستیاں آباد ہیں چاہے وہ فلسطینی علاقہ ہو یا کسی دوسرے عرب ملک کا علاقہ وہ اب سے اسرائیل کی ملکیت تصور ہو گا۔

بلکہ ان بستیوں سے ملحقہ رقبے بھی اسرائیلی اقتدار میں سونپ دیے گئے ہیں۔

منصوبے کے ایک نقطے کے مطابق دریاے اردن سے لے کر بحیرہ احمر تک کا تمام علاقہ اسرائیل کے اختیار میں رہے گا۔

ٹرمپ کے اس امن منصوبے میں دو ریاستی نظریے پر تو زور دیا گیا ہے مگر فلسطینیوں کے حق خود ارادیت کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ فلسطینی دو ریاستی نظریے کو تسلیم کرتے ہیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جائے۔ منصوبے میں اسرائیل کے لئے الگ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی کوئی شرط نہیں رکھی گئی بلکہ اس کو اس طرح مشروط کر دیا گیا کہ اگر فلسطینی اس امن منصوبے کو من ؤ عن تسلیم کر لیتے ہیں تو پھر چار سال ان کے رویے کو جانچ کر الگ آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے بارے سوچا جا سکتا ہے۔

جبکہ فلسطینیوں پر یہ لازم کر لیا گیا کہ وہ آج سے ہی اسرائیل کو اس منصوبے میں پیش کردہ نقشے کے تحت ریاست تسلیم کریں۔ ان تمام نکات کو پڑھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس نام نہاد امن منصوبے کا مقصد فلسطینیوں کو ان کی زمین پر ان کی ملکیت اور ان کی شناخت کے بنیادی حق سے محروم کرنا ہے۔

اس سارے منصوبے میں یوں تو ہر ایک نکتہ ہی فلسطینی مفادات کو یکسر نظر انداز کرتا ہے مگر دو نکات نہایت اہم ہیں جن کے نتائج بہت خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

پہلا نکتہ ہے بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالخلافت تسلیم کر کے اسرائیل کی کی بیت المقدس پر اجارہ داری کو کو تسلیم کر لینا اس کا مطلب سیدھا اور سادھا ہے مسجد الاقصیٰ میں مسلمانوں کی پابندی اور یہ کسی بھی طرح فلسطینی اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے لئے قابل قبول نہ ہو گا

دوسرا سب سے اہم نکتہ ہے دریائے اردن سے لے کر بحر احمر تک اسرائیلی فوج کو اس علاقے کے درمیان کسی بھی جگہ فوجی کارروائی کرنے کی اجازت دینا یہ نہایت خطرناک ہے۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ بحر احمر سے لے کردریائے اردن تک کا زیادہ تر علاقہ

اسرائیل نے 1967 کی کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اپنے قبضے میں لیا تھا۔

اقوام متحدہ کی قرادادیں چیخ چیخ کر کہہ رہی ہیں کہ اسرائیل کو امن کی خاطر واپس 1967 سے پہلی والی جگہ پر جانا چاھیے۔

اگر دریاے اردن سے بحر احمر تک کا تمام علاقہ اسرائیل کے اختیار میں رہے گا تو فلسطین کی ریاست کہاں قائم ہو گی۔

اب اس منصوبے کے مسودے کو تیار کرنے والے تین اشخاص کی سیاسی وابستگی اور نظریات کو پرکھ لیتے ہیں۔ جارڈ کشنر، ڈیوڈ فرییڈمن اور جیسن گرینبلٹ نے اس منصوبے کے مسودے کو تحریر کیا۔ تینوں راسخُ الا عتقاد اور مروجہ یہودی ہیں۔ تینوں غیر متخب حکومتی نمائندے ہیں، تینوں ماضی میں اور اب تک غیر قانونی اسرائیلی بستیوں کی تعمیرات کے لیے چندہ اکٹھا کرنے والی تمام مہمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے ہیں، تینوں سعودی ولی عہد محمد بین سلیمان کو قریبی دوست مانتے ہیں۔

ان تینوں حضرات نے تین سال لگا کر اسرائیلی خواہشات کو اس منصوبے میں نہایت چالاکی سے پختہ کیا۔

جارڈ کشنر نے ان تین سالوں میں سعودی عرب اور دیگر عرب ملکوں کو اس منصوبے پر راضی کرنے کے لئے بہت جتن کیے۔

ولی عہد محمد بن سلیمان کو اسرائیل لے جایا گیا۔ ان سے فلسطینیوں کو دھمکیاں دلوائی گئیں اور میں یہاں کوئی مبالغہ آرائی سے کام نہیں لے رہا بلکہ ٹرمپ کے امن منصوبے کو لے کر محمد بن سلیمان کے لاتعداد بیانات موجود ہیں جن میں فلسطینی حکومت کو اس منصوبے پر عمل کرنے کے لئے زور ڈالا گیا۔

محمد بن سلیمان نے باقاعدہ اصرار کر کے سعودی مفتی سے یہودیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے مسلم لیگ ورلڈ نامی تنظیم قائم کروائی پھر اس سعودی مفتی کی سربراہی میں پوری دنیا سے مسلم عالموں کو اکٹھا کر کے پولینڈ میں یہودی عبادت گاہوں اور حراستی مراکز کے دورے کرواے گئے

قصہ کوتاہ ان تین سالوں میں محمد بن سلیمان نے اپنا پورا زور لگا کر عرب دنیا کو اس منصوبے پر عمل کرنے کے لئے راضی کیا اور نتیجہ آج سامنے ہے۔ بحرین عمان اور متحدہ عرب امارت کے سفیر اس وقت اسی محفل میں بیٹھے تھے جب ٹرمپ فلسطنیوں کے خلاف اس دستاویز کو پڑھ رہا تھا۔

ایران، ترکی، لبنان اور فلسطینیوں کے سوا آج کوئی بھی مسجد اقصیٰ پر ننگی جارحیت کے خلاف بولنے کو تیار نہیں۔ یہ شرم کا نہیں ڈوب مارنے کا مقام ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments