شیخ رشید احمد: اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں


محاورے بارہا دہرانے کے لئے ہی ایجاد ہوئے ہیں۔اسی باعث ہاتھ سے لگائی گرہوں کو دانتوں سے کھولنے والے محاورے کا تذکرہ کرتا رہتا ہوں۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر منگل کے روز جب سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہوئے تو یہ محاورہ ایک بار پھر یاد آگیا۔شنیدہے کہ سپریم کورٹ میں پیشی کے دوران اپنی ’’تضحیک‘‘ پر موصوف بہت رنجیدہ ہوئے۔

ان کی اداسی مجھے منگل کی شام سینٹ کا اجلاس دیکھتے ہوئے بھی واضح طورپر نظر آئی ۔ سینٹ کا اجلاس تین بجے شروع ہوگیا تھا۔کابینہ کا اجلاس بھی اس سمے ہورہا تھا۔بقراطِ عصر اپنی وزارت کے بارے میں ا ٹھائے سوالوں کا جواب دینے خاص طورپر کابینہ کے اجلاس سے اُٹھ کر ایوان میں آئے تھے۔اپنے سرکو سردی سے بچانے کے لئے انہوں نے کالے رنگ کی اونی ٹوپی سے ڈھانپ رکھا تھا۔وہ سائز میں کافی بڑی اور Shapelessنظر آرہی تھی۔اداس ہوئے بقراطِ عصر کو مگر اس کی بابت بہت پریشانی نہیں تھی۔نہایت احتیاط اور مہذب الفاظ کے استعمال سے سوالات کا جواب دیتے رہے۔سوال اٹھانے والوں کو پھکڑپن کا نشانہ بنانے سے گریز کیا۔’’بدلے بدلے میرے سرکار‘‘ نظر آتے رہے۔

پانامہ دستاویزات کی وجہ سے 2016میں برپا ہوئے ہنگامے یاد آگئے۔عمران خان صاحب کی تحریک انصاف کو راولپنڈی کے بقراطِ عصر نے یہ معاملہ سپریم کورٹ لے جانے کو مائل کیا تھا۔وہ خودبھی اس مقدمے میں مدعی بن گئے۔میں نے کبھی نہیںسنا کہ قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بقراطِ عصر نے کسی مقدمے میں وکیلوں کا کوٹ پہن کر دلائل دئیے ہوں۔پانامہ کیس کی وکالت مگر انہوں نے ازخود فرمائی ۔ سپریم کورٹ کے چند عزت مآب ججوں نے ان کے دلائل کو سراہا اور ان کی قانونی بصیرت ومہارت کا سرپرستانہ انداز میں اعتراف کیا۔

پانامہ پر ہوئی بحث کے نتیجے میں جب نواز شریف صاحب کو تاحیات کسی بھی عوامی عہدے کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا تو ان کے مخالفین نے اسلام آباد میں ایک جلسے کے ذریعے ’’جشن فتح‘‘ منایا۔ اس جلسے میں پانامہ بنچ پر موجود ججوں کی تصویریں بھی دیوقامت بل بورڈز پر لگائی گئی تھیں۔ان عزت مآب ججوں کے نام لیتے ہوئے مقررین نے انہیں قوم کے محسن قرار دیا۔ان کے نام لے کر تہنیتی نعرے لگوائے۔میں بدنصیب فریاد کرتا رہا کہ عزت مآب ججوں کو سیاسی جھگڑوں میں کسی ایک فریق کا حامی اور سرپرست بناکر پیش نہ کیا جائے۔

سپریم کورٹ ہماری اعلیٰ ترین عدالت ہے۔اس کے فیصلوں کے خلاف اپیل کی گنجائش نہیں ہوتی۔ انصاف فراہم کرنے کا یہ حتمی فورم ہے۔اس فورم کی ’’غیر جانبداری‘‘ ہر صورت نظر آنی چاہیے۔اس کے ججوں کے لئے ’’زندہ باد‘‘ کے نعرے لگیں تو ان کے فیصلوں کی زد میں آئے فریق کو ئی اور رائے دینے کو مجبور ہوجائیں گے۔ایک باوقار ادارہ متنازعہ بن جائے گا۔نقارخانے میں لیکن میری آواز کسی نے نہیں سنی۔بعدازاں حیران کن واقعہ یہ بھی ہوا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب جولائی 2018کے انتخاب سے چند ماہ قبل راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کے حلقے میں تعمیر ہونے والے ایک ہسپتال کے ’’معائنے‘‘ کے لئے تشریف لے گئے۔ اپنے سیاسی مخالفین کے مقابلے میں وہ سپریم کورٹ کے چہیتے نظر آئے۔

ذرا سی سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والوں کو اسی دن اندازہ ہوگیا تھا کہ قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ہوئے مقابلے کا کیا نتیجہ برآمد ہوگا۔مکافاتِ عمل مگر اب شروع ہوگیا ہے۔نجانے ریلوے کو ’’ٹھیک‘‘ کرنے کے لئے اب اس کے نگران وزیر کو کتنی پیشیاں بھگتنا ہوں گی۔وزیر ریلوے کی ممکنہ ’’تضحیک‘‘ کم از کم میرے دل میں ہمدردی کے جذبات پیدا نہیں کرے گی۔’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘ والا مصرعہ یاد کرتا رہوںگا۔پانامہ سے کئی برس قبل یوسف رضاگیلانی کو وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کرتے ہوئے جناب آصف سعید کھوسہ صاحب نے ’’حیف ہے اس قوم پہ ‘‘والا فیصلہ لکھ کر بہت داد سمیٹی تھی۔نواز شریف صاحب کی باری آئی تو انہیں ’’مافیا‘‘ پکارا۔

گزشتہ برس ریٹائرمنٹ سے قبل مگر یہ ثابت کرنے کو مجبور ہوگئے کہ ان کے طیش کا نشانہ فقط سیاست دان ہی نہیں ہوتے۔ ’’سیلاب انصاف‘‘ کئی اور طاقت ور گھروں کی جانب بھی بڑھ سکتا ہے۔مسلسل تین روز تک پراسرارانداز میں اٹھائی ایک پٹیشن کی سماعت ہوئی۔اس کی سماعت کے دوران اسلام آباد کے باخبر حلقے اداروں کے مابین تنائو کی ویسی ہی صورت حال دیکھنے کو تیار ہوگئے جو اپریل 2007سے اس برس کے نومبر تک وطن عزیز پر مسلط رہی تھی۔دو وزرائے اعظموں کو گھر بھیجنے والے کھوسہ صاحب مگر اپنے تئیں کوئی فیصلہ نہ کرپائے۔ معاملہ پارلیمان کے سپرد کردیا ۔

پارلیمان والوں نے اپنے سر آئی بلاکو ٹالنے کے لئے انتہائی عجلت میں ایک قانون پاس کیا۔اس قانون کی ’’غیرمشروط‘‘ حمایت میں تحریک انصاف اور اس کے شدید ترین سیاسی مخالفین محمود وایاز کی مانند ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے۔پارلیمان کے رہے سہے ’’وقار‘‘ کو اپنے ہاتھوں ہوا میں اُڑادیا۔

سوال مگر یہ بھی اٹھتا ہے کہ دیگر اداروں کے ہاتھوں پارلیمان کی تذلیل کا راستہ کس نے دکھایا ۔ اس سوال کا جواب ڈھونڈتے ہوئے آپ کو افتخار چودھری کے وہ ایام یاد رکھنا ہوں گے جب قومی اسمبلی کے بلندآہنگ شمار ہوتے ایک رکن خواجہ آصف صاحب پاور پلانٹ کے ایک معاملے کی بابت بجائے قومی اسمبلی کی پبلک اکائونٹس کمیٹی سے رجوع کرنے کے سپریم کورٹ چلے گئے۔ان کی منشاء کے مطابق جو فیصلہ آیا اسے لیکن عالمی عدالتوں نے قبول نہ کیا۔پاکستان پر بلکہ ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا جرمانہ عائد ہوگیا۔عمران خان صاحب کو اس جرمانے سے بچت کے لئے ترکی کے صدر کا منت ترلا کرنا پڑا۔

سانحہ وطنِ عزیز میں یہ بھی ہوا کہ اعظم سواتی ،گیلانی کابینہ کے رکن ہوتے ہوئے بھی اپنے ہی ایک ساتھی وزیر کے خلاف ’’حج سکینڈل‘‘کی بپتا سنانے سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ ان دنوں کے وزیر مذہبی امورجناب حامد کاظمی کو اس مقدمے میں سزا ہوئی۔بعدازاں انہیں رہائی بھی نصیب ہوگئی۔کابینہ کے دو اراکین کا سپریم کورٹ کے روبرو ہوا معرکہ مگر ’’تاریخ‘‘بنا گیا۔مکافاتِ عمل کا سامنا مگر اعظم سواتی کو بھی کرناپڑا۔ ان کے فارم ہائوس سے متعلق ایک کہانی چلی۔ ثاقب نثار صاحب نے اس کا ازخود نوٹس لیا۔سواتی صاحب عدالت کو مطمئن نہ کرپائے۔ وزارت سے استعفیٰ دے کر کونے میں بیٹھ کردہی کھانے لگے۔ثاقب نثار صاحب اپنے عہدے سے ریٹائر ہوئے تو دوبارہ کابینہ کا حصہ بنادئیے گئے۔

اب راولپنڈی کی لال حویلی سے اٹھے بقراطِ عصر’’ازخود‘‘ کی زدمیں ہیں۔اپنی جند چھڑانے کے لئے کابینہ سے مستعفی ہوگئے تو دوبارہ وزیر بننے کے لئے انہیں دو برس انتظار کرنا ہوگا۔وزارت سے اتنی لمبی جدائی وہ برداشت نہیں کرسکتے۔تلملاتے رہیں گے۔’’ازخود‘‘ کی بدولت سیاست دانوں کو عدالتوں میں جو بھگتنا ہوتا ہے آئینی اعتبار سے ہرگزحیران کن نہیں ہے۔ پولیس کا آئی جی مگر ’’پبلک سرونٹ‘‘ شمار ہوتا ہے۔اپنے فرائض کی ادائیگی کے دوران اسے ’’عوام کے منتخب نمائندوں‘‘ کو جوابدہ ہونا چاہیے۔سندھ میں لیکن ان دنوں جوآئی جی تعینات ہیں وہ اپنے ’’میرٹ‘‘ اور خودمختاری‘‘ کے بارے میں کوئی ’’سمجھوتہ‘‘ کرنے کو تیار نہیں۔

عمران حکومت نے اقتدار سنبھالتے ہی انہیں ’’میرٹ‘‘ کی بنیاد پر پنجاب میں ’’گڈگورننس‘‘ متعارف کروانے پر مامور کیا تھا ۔ چند ہی ہفتوں میں لیکن اپنے ’’میرٹ‘‘ کو بھلاتے نظر آئے ۔ ’’خودمختاری‘‘ والی اکٹر بھی نہ دکھاپائے۔ سندھ تعینات ہوتے ہی ان کا ’’میرٹ‘‘ اور’’خودمختاری‘‘ بحال ہوچکے ہیں۔سندھ کی 2008 سے تیسری بار’’منتخب‘‘ ہوئی حکومت ان کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے۔پنجاب اسمبلی کو مگر اس ضمن میں اپنی قوت کا بھرپور ادراک ہے۔آئی جی پنجاب کو وہاں پیش ہوکر ڈپٹی سپیکر دوست محمد مزاری کے ساتھ ہوئے ایک واقعہ کے بارے میں وضاحتیں دینا پڑرہی ہیں۔’’دو نہیں ایک پاکستان‘‘ والا وعدہ یقینا بھلادیا گیا ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments