چینی میڈیا میں ہیرو قرار پانے والے ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کون ہیں؟


میں نے کوئی بڑا کام نہیں کیا ہے۔ بحثیت ڈاکٹر یہ مجھ پر لازم تھا کہ میں اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جو کچھ کرسکتا ہوں وہ کروں۔ اس موقع ایک قدم پیچھے ہٹنا بھی بزدلی ہوتی اور میرا ضمیر یہ برداشت نہیں کر سکتا۔

یہ کہنا تھا چین میں کورونا وائرس کے خلاف مہم میں شامل ہونے والے پہلے بین الااقومی پاکستانی رضا کار ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کا۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ چین کے صوبہ ہنان کے دارالحکومت چانگشا کی چانگشا میڈیکل یونیورسٹی میں سال 2016 سے بحثیت استاد خدمات انجام دے رہے ہیں۔

کورونا وائرس کی وباء کے بعد ڈاکٹر عثمان جنجوعہ نے رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کیں۔ جس کے بعد وہ چین میں کورونا وائرس کے خلاف لڑنے والے پہلے بین الاقوامی ڈاکٹر بن چکے ہیں جبکہ چین کا میڈیا ان کو ہیرو کا درجہ دے رہا ہے۔

واضح رہے کہ چین کا صوبہ ووہان اس وقت کورونا وائرس سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ جہاں پر چین کے مقامی طبی عملے کو رضاکارانہ طور پر طلب کیا گیا ہے۔ جس کو طبی عملے کے لیے خود کش مشن کا نام دیا گیا ہے۔ چین میں پورے ملک سے سینکٹروں کی تعداد میں طبی عملے کے ماہرین نے اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ مہم میں شریک ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت کیا کر رہے ہیں اور کہاں پر ہیں یہ بتانا مناسب نہیں ہے۔ اس کی اجازت بھی نہیں ہے۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کا کہنا تھا کہ اس وقت چین کی حکومت، طبی عملہ اور عوام سب یک جان ہو کر کورونا وائرس کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ عوام اور سب کے حوصلے بلند ہے۔ اس جنگ میں شکست کوئی بھی آپشن نہیں ہے بلکہ سب مل کر کورونا وائرس کو جلد ہی شکست دیں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس کے آغاز کے دنوں میں طبی عملے کے لوگ بھی مریضوں کے علاج معالجے کے دوران متاثر ہوئے تھے مگر اب اس وقت بہت کچھ بدل چکا ہے۔ طبی عملے کو بتا دیا گیا ہے کہ وہ کیسے حفاظتی اقدامات کرتے ہوئے مریضوں کو علاج معالجے کی سہولتیں فراہم کریں۔ اب طبی عملے کے متاثر ہونے کی شرح بہت کم ہو چکی ہے جبکہ کئی مریض بھی بہتر ہو رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چین کی حکومت اپنی پوری قوت، طاقت، وسائل سب کچھ کورونا وائرس کو شکست دینے کے لیے بروئے کار لارہی ہے۔ چین جلد ہی پوری دنیا سے اس کو محفوظ کر دے گا۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے چین سے طب کی تعلیم حاصل کی تھی۔

’میرا چین کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ یہ میرے لیے دوسرا گھر اور وطن ہے۔ میں کسی بھی مشکل میں چین اور چین کے لوگوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتا ہوں۔ اگر بہت زیادہ نہیں مگر جو تھوڑا بہت کرسکتا ہوں وہ کروں گا اور کر رہا ہوں۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کون ہیں؟

ڈاکٹر عثمان جنجوجہ کا تعلق صوبہ پنجاب کے شہر جہلم کے علاقے دینہ سے ہے۔

انٹرمیڈیٹ کی تعلیم انھوں نے جہلم کے مقامی کالج سے حاصل کی تھی۔ جس کے بعد سال2007 میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے چین کی چانگشا میڈیکل یونیورسٹی میں چلے گے تھے۔ جہاں سے میڈیکل کی ڈگری کے ہمراہ سال 2012 میں واپسی ہوئی۔

جس کے بعد ایک سال تک میو ہسپتال لاہور میں خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے واپس چانگشا میڈیکل یونیورسٹی چلے گے۔

اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ چانگشا ہی میں وہ ہسپتال سے بھی منسلک ہو گئے اور سال 2016/17 میں انھوں نے چانگشا میڈیکل یونیورسٹی میں بحثیت پروفیسر ڈاکٹر کے کام شروع کر دیا۔ جس کے بعد اب تک وہاں ہی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

تقریباً 30 سالہ ڈاکٹر عثمان جنجوعہ غیر شادی ہیں۔ ان کے والد اورنگ زیب گزشتہ 38 سال سے دینہ جہلم ہی میں بحثیت استاد خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ دو بھائی اور ایک بہن ہے۔ ڈاکٹر عثمان جنجوعہ اپنے خاندان میں پہلے ڈاکٹر ہیں جبکہ ان کے ایک چھوٹے بھائی جرمنی میں انجینیرنگ کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ چھوٹی بہن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں۔

دینہ میں ان کے والد اورنگ زیب کو بابا سکول کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ پورے علاقے میں مشہور و معروف ہیں۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کے والد اورنگ زیب کیا کہتے ہیں۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کے والد اورنگ زیب نے بی بی سی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا یہ تو یاد نہیں کہ عثمان کو بچپن میں ڈاکٹر بننے کی کتنی خواہش تھی مگر یہ ان اور ان کے بڑے بھائی جاوید سکندر کی خواہش ضرور تھی کہ عثمان ڈاکٹر بنیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جب وہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کررہا تھا تو ہم نے اس سے یہ ضرور کہا تھا کہ ایسا ڈاکٹر بننا کہ ہمارا نام روشن ہو اور لوگ اگر ہمیں اچھا نہ کہیں تو برا بھی نہ کہیں۔

اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ کوئی چھ سات روز پہلے عثمان نے صبح کے وقت فون کیا، عموما وہ صبح کے وقت فون نہیں کرتا اور میں نے بھی چین میں وائرس کے بارے میں خبریں سن رکھی تھیں۔ جس پر کچھ پریشانی سے فون اٹھایا اور اس کی خیریت معلوم کی۔

اپنی خیریت کی اطلاع دینے کے بعد اس نے مجھ سے کہا کہ اس وقت چین اور چین کے لوگوں کو میری مدد کی ضرورت ہے۔ پورے چین میں طبی عملے جس میں ڈاکٹر،نرسنگ ہر طرح کے ماہر عملے سے کہا گیا ہے کہ وہ کورونا وائرس سے متاثرہ علاقے میں رضا کارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کریں۔ اس موقع پر میں بھی اپنی خدمات پیش کرنا چاہتا ہوں۔ جس کے لیے مجھے آپ کی اجازت کی ضرورت ہے۔

اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ ایک لمحے کو تو مجھے کچھ سمجھ ہی نہ آیا مگر دوسرے ہی لمحے میں نے اس سے کہا کہ اب تم ڈاکٹر ہو تمارا کیا فرض ہے یہ تم اچھی طرح جانتے ہو۔ میری طرف سے اجازت ہے۔ اپنا فرض پورا کرو۔

اب اس کا تقریبا روز ہی فون آتا ہے۔ مجھے اپنی خیریت کی اطلاع دیتا ہے۔ بتایا ہے کہ اپنا کام کر رہا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ چین جلد ہی اس پر قابو پا لے گا۔

ڈاکٹر عثمان جنجوعہ چین اور پاکستان میں ہیرؤ

اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ جب سے میڈیا پر عثمان سے متعلق خبریں آئیں ہیں اس وقت سے لوگون کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ ایک تو مجھے پورا دینہ جانتا ہے اور پوری دنیا میں میرے شاگرد موجود ہیں۔ صبح سے میرا فون بند ہورہا ہے۔ گھر میں ہر وقت لوگ موجود ہیں۔ لوگ جس محبت اور پھر عقیدت کا اظہار کر رہے ہیں اس پر میرا خون سیروں بڑھ چکا ہے۔

دینہ جہلم میں موجود ان کے ایک بچپن کے دوست ضمیر جنجوعہ کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر عثمان جنجوعہ ایک بہادر آدمی ہے۔ بچپن ہی سے اس کی عادت تھی کہ جب بھی کسی کو مشکل اور تکلیف میں دیکھتا تڑپ اٹھتا اور اس کی مدد کرتا تھا۔

ان کے ایک اور دوست محمد نواز کا کہنا تھا کہ ہمیں اس بات پر کوئی حیرت نہیں ہوئی ہے کہ ڈاکٹر عثمان جنجوعہ نے مشکل کے حالات میں آگے بڑھ کر اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

چین میں پاکستان کے سفارت خانے نے بھی اپنے ایک ٹویٹ میں ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کو شاندار الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ’ہم ڈاکٹر عثمان خنجوعہ کے جذبے کی تعریف کرتے ہیں۔‘

چین کے مقامی میڈیا میں ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کو ہیرو قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کے مختلف ٹیلی وژن چینلوں، اخبارات اور سوشل میڈیا پر ان سے متعلق خبریں اور مختلف پروگرام چلائے گے ہیں۔

پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے ڈاکٹر عثمان جنجوعہ کو ہیرو قرار دینے کے ساتھ ان کی خیریت کے لیے دعا کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp