کرونا وائرس کا علاج انہوں نے ہم سے سیکھا ہے


تھائی لینڈ میں ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثرہ شدید بیمار افراد کے علاج میں بعض ادویات استعمال کرنے سے ابتدائی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ہسپتال میں پھیپڑوں کے علاج کے ماہر ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جن مریضوں کو دس دن پہلے کرائے گئے ٹیسٹ میں کورونا وائرس سے متاثرہ قرار دیا گیا تھا، ادویات پلانے کے دو دن بعد ان کے ٹیسٹ میں کورونا وائرس نہیں آیا۔

ظاہر ہے کہ دیگر سائنسی اور طبی ایجادات اور تحقیقات کی مانند اس ریسرچ کا ماخذ بھی ہمارے حکیم اور سائنسدان ہی ہوں گے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ اہل مغرب نے راکٹ سائنس کا علم ابن خیام سے سیکھا تھا، ڈیجیٹل کیمرے اور کمپیوٹر کا ماخذ ابن الہیثم اور خوارزمی کے ایجاد کردہ علوم ہیں، اور طب کا تو یہ معاملہ ہے کہ جب یورپ ظلمت و گمراہی کا شکار تھا تو ابن سینا جیسا حکیم القانون فی الطب جیسا شاہکار لکھ رہا تھا۔

یہ وہی کتاب ہے جو صدیوں تک یورپ کی یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی رہی تھی اور اس کی بنیاد پر یورپ نے وہ طبی ترقی کی جس پر آج وہ اتراتا پھرتا ہے اور ہمارے علما سے دل میں سٹنٹ ڈالنے یا گردوں سے پتھری نکالنے کے لاکھوں روپے وصول کر لیتا ہے۔ حالانکہ اصول کی بات کی جائے تو انہیں ہم لوگوں سے پیسے لینے کی بجائے الٹا ہمیں رائلٹی دینی چاہیے تھی۔

خیر اب تھائی لینڈ والوں نے بھی دنیا بھر کو خوفزدہ کر دینے والے کرونا وائرس کے علاج میں ابتدائی کامیابی حاصل کر لی ہے تو ہماری رائے میں اس کی بنیاد بھی دیسی حکیموں کی تحقیق ہی ہے۔ وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ انہوں نے کرونا وائرس کا علاج زکام اور ایڈز کی ادویات کا آمیزہ بنا کر کیا ہے۔ نزلے کی مجرب دوا تو ظاہر ہے کہ جوشاندہ ہے۔ اسے پی کر کسی قسم کا وائرس یا بیکٹیریا زندہ نہیں رہ سکتا، صرف دیسی مریض ہی ایسا کر سکتا ہے۔

ایڈز کی دوا بھی کسی حکیم کے نسخے سے لی ہو گی۔ ہم نے بارہا حاذق حکیموں کے اشتہار دیکھے ہیں جو مغرب میں لاعلاج سمجھے جانے والی بیماریوں از قسم شوگر، کینسر اور ایڈز کا علاج محض دو دن کی دوا سے کر دیتے ہیں اور گارنٹی دیتے ہیں کہ دو مہینے بعد چاہے جس لیبارٹری سے ٹیسٹ کروا لیں، ریزلٹ صاف آئے گا اور بیماری کا نشان تک نہیں ملے گا۔ ہماری رائے میں ایڈز کے علاج کا ایسا ہی کوئی حکیمی کشتہ کرونا وائرس والوں کو کھلا دیا گیا ہو گا۔ اس شبے کو مزید تقویت اس بات سے بھی ملتی ہے کہ ان میں سے کسی مریض میں ایڈز کی علامات پائے جانے کی اطلاع بھی نہیں ہے۔

بفرض محال ان ڈاکٹروں نے کوئی سفوف کشتہ خود سے بھی بنا لیا ہے تو انہوں نے ایسا ہمارا مذہبی لٹریچر پڑھ کر ہی کیا ہو گا۔ وہ ہمیشہ سے یہی کرتے آئے ہیں، ان کی جس ایجاد کو بھی دیکھو تو کسی مولوی یا ذاکر صاحب کے توسط سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس کا ذکر تو ہماری مذہبی کتابوں میں پہلے سے ہی موجود تھا، اہل مغرب نے صرف اسے وہاں سے پڑھ کر سیکھا ہے اور یوں اتراتے پھرتے ہیں جیسے یہ ان کا اوریجنل کام ہو۔ ویسے یہ مغربی ڈاکٹر ہیں بہت عیار، ہم اپنی مذہبی کتابیں اتنی توجہ سے نہیں پڑھتے جتنی وہ ہماری کتابیں پڑھتے ہیں۔ ایسا نہ ہوتا تو یہ ہمارے مولوی صاحب سے پہلے یہ سب کچھ وہاں سے کیسے ڈھونڈ سکتے تھے؟

یہ مغربی ڈاکٹر ہمارے کس کس احسان کو جھٹلائیں گے۔ یہ زبان سے مانتے نہیں ہیں کہ انہوں نے سارے علوم ہم سے ہی سیکھے ہیں مگر دل ہی دل میں تو خوب جانتے ہیں کہ انہیں کچھ نہیں آتا جاتا اور یہ سب تحقیق ہماری ہے۔ کیا آج تک کسی ڈاکٹر نے جوشاندہ ایجاد کیا ہے؟ پھر کس بنیاد پر زکام کا علاج کرنے کا دعویٰ رکھتے ہیں؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments