کاشانہ کی یتیم بچیوں کو بلیو فلمیں دکھائی جاتی رہیں، افشاں لطیف کا دعویٰ


چند ہفتے قبل کاشانہ سکینڈل ایشو ہائی لائٹ ہوا تھا۔ جب کاشانہ ہوم کی معطل سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف صاحبہ نے ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر شائع کی غالباً ہر شہری نے ویڈیو دیکھی ہوگی، جس میں سابقہ سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے کاشانہ ہوم میں رہنے والی یتیم بچیوں کی عزتوں کو بچانے کی بات کی۔

سابقہ سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے بتایا کہ زبردستی شادیاں کرائی جاتی رہی ہیں اور صوبائی وزیر اجمل چیمہ بھی بچیوں سے ملتے تھے جس میں ایک سابق سپرنٹنڈنٹ بھی ملوث تھی۔

لاہور کے علاقے ٹاؤن شپ میں واقع یتیم اور بے سہارا بچیوں کے مرکز کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف نے سوشل ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ماریہ شریف نامی لڑکی سے گن پوائنٹ پر میرے خلاف بیان لیا گیا ہے اس لڑکی کی ہم نے ادارے کے اندر رہتے ہوئے شادی کرائی تھی جس کے ان کے پاس شادی کارڈز بھی موجود تھے جہاں سے جب شائع ہوئے ہیں وہ بھی ریکارڈ موجود تھا۔

انہوں نے کہا اس معاملے بعد انہیں دھمکیاں بھی دی گئیں حتیٰ کہ حساس ادارے کے کسی فرد نے فون کر کے بھی اس معاملے پر خاموشی کا حکم دیا۔

افشاں لطیف صاحبہ نے بتایا کہ تین ماہ تک کاشانہ ہاؤس کا خرچہ اپنی جیب سے ادا کیا لیکن محکمہ سوشل ویلفیئر نے میرے بل تک ادا نہیں کیے۔

وزیر قانون پنجاب راجا بشارت کے کہنے پر خود ساختہ انکوائری کی گئی، میرے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کے لیے ایسی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔

افشاں لطیف نے کہا کہ میرا کسی حکومتی شخصیت یا سرکاری افسر سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، میں اپنے لیے نہیں بلکہ یتیم بچیوں کے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہوں، اس سے پہلے کیوں آواز نہیں اٹھائی گئی میں کچھ نہیں کہہ سکتی مگر میں مسلمان ہونے کے ساتھ بیٹیوں کی ماں ہوں مجھے احساس ہوا کہ یہ غلط ہو رہا ہے۔ مجھے اپنی ترقی و نوکری زیادہ عزیز ہوتی تو میں خاموش رہتی۔ اب بھی مجھے فونز آ رہے ہیں جس ادارے میں چاہیں آپ گزٹڈ افسر جا سکتی ہیں آپ پر کیے گئے کیسز واپس ہو سکتے ہیں، آپ کے پنڈنگ بلز ادا ہو سکتے ہیں لیکن میرا ضمیر مجھے ملامت کرے گا اگر میں نے ایسا کردیا۔

ان کے مطابق ان کی کاشانہ ہوم میں پوسٹنگ 2019 میں ہوئی تھی چند روز ہی کام کرنے کے بعد وہ آگاہ ہوگئی تھیں کہ سرکاری و سیاسی افراد کس طرح ملازمین کو استعمال کر کے ان یتیم بچیوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ بلیو فلمیں تک بچیوں کو دکھائی جاتی رہیں، چند بچیاں استعمال کی جا رہی تھیں جس کے اخراجات بھی مزکورہ افراد ادا کر رہے تھے۔ جس میں سٹاف کے کچھ افراد بھی شامل تھے۔

افشاں لطیف نے بتایا وزیراعلیٰ پنجاب وزیراعظم پورٹلز بھی شکایت کی ہیں۔

اس حوالے سے لاہور ہائی کورٹ سے بھی رجوع کر رکھا ہے اور اپنی درخواست میں معاملے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کی استدعا کے ساتھ خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی کو بھی درخواست کر رکھی ہے۔

یاد رہے وزیراعلیٰ پنجاب کی انسپکشن ٹیم نے دارالامان لاہور میں بچیوں سے مبینہ زیادتی کی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو بھجوا دی تھی اور الزامات کا سامنا کرنے والے سابق صوبائی وزیر اجمل چیمہ کو کلین چیٹ دے دی تھی۔

اس معاملے پر افشاں صاحبہ کا مطالبہ ہے کہ جے آئی ٹی بنائی جائے جس میں غیر جانبدار افراد شامل ہوں جن میں فوج عدلیہ اور دیگر اداروں سے افراد شامل کر کے غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے انصاف کیا جائے۔

مذکورہ میٹنگ میں ڈاکٹر عاصم اللہ بخش، شمس الحق خان درانی، شہباز علی عباسی (پی ایچ ڈی لاء سکالر، وکیل اعجاز احمد، حسام درانی، محسن حدید فوزیہ محمود فروا، ملک عبدالجبار، نعیم الرحمان، نشاط احمد (شوہر فشاں لطیف) اور خاکسار شامل گفتگو تھے۔

قانون کو بہتر سمجھنے والے شہباز عباسی اور اعجاز احمد صاحب نے سوالات کیے باقی عمومی عوامی سوالات دیگر شرکاء نے کیے۔

یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ یتیم خانے ہوں یا دار الامان ان اداروں میں یہ معاملات چلتے رہے ہیں اور ان میں ملوث بھی ان ادارں کے ملازمین اور افسران ملوث ہوتے ہیں جن میں طاقتور سیاسی و سرکاری افراد کی بدکرداری شامل رہی ہے۔

سیاسی و سرکاری افراد کس طرح ایسی برائیوں میں پائے گئے ہیں اور حسب روایت یہ ایک دوسرے کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، یہ ہمارا سماجی مسئلہ ہے کم از کم اگر ہم بطور ذمہ دار شہری ان معاملات پر آواز بلند کریں تو یقیناً ان کو سزا ملے نہ ملے آئندہ ان اداروں میں رہنے والی یتیم بچیوں کو تھوڑا سا ہی تحفظ مل جائے تو ہمارا حق ادا ہوجائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments