’شکارپور۔ تاریخ کے آئینے میں‘ ۔ ایک اہم تاریخی کتاب


’سندھ کا پَیرس‘ کہلانے والا شہر، شکارپور، بہت سے تاریخی حوالوں سے انتہائی یکتا اہمیت کا حامل ہے، جس کی انفرادی پہچان کے کئی حوالے ہیں۔ ایک طرف برِصغیر میں چھاپہ خانوں کا آغاز شکارپور سے ہوتا ہے، تو دُوسری طرف اس خطّے کو روڈ کے اُوپر سے گزرنے والے پُل (فلائی اوور) کا تصوّربھی یہی شہر فراہم کرتا ہے۔ برِصغیر ہندوپاک کی پہلی لیڈی ڈاکٹر، سارہ صدیقی بھی اسی شہر میں پیدا ہوتی ہیں، تو پاکستان ہندوستان کا سب سے طویل ڈَھکا ہُوا بازار (کَوَرڈ مارکٹ) بھی شکارپور ہی کا مانا جاتا ہے (جسے سندھی زبان میں ’ڈَھک بازار‘ کہا جاتا ہے۔

) شکارپور کی قدیم عمارتوں کے تعمیرات (آرکیٹیکچر) کے نادر نمُونے اور اُن پر لکڑی کی گیلریوں اور کھڑکی دروازوں کے کام کی نظیر اس خطّے میں اس شہر کے علاوہ کہیں اور نہیں ملتی۔ ساتھ یہ بھی کہ شکارپور دنیا کے اُن چند شہروں میں سے ہے، جہاں فصیلِ شہر کو عبُور کر کے اِس شہر میں داخل ہونے والے سات دروازوں اور ایک کھڑکی کا نام اب بھی اُن علاقوں سے منسُوب ہیں، جن جگہوں پر ماضی میں یہ دروازے ہُوا کرتے تھے۔ (گوکہ اب اُن دروازوں کا نام و نشان تک نہیں رہا، مگر اُن تمام ابواب کے نام آج بھی شکارپور کے بچّے بچّے کو یاد ہیں۔

) مختلف شعبوں میں اپنی نمایاں خدمات انجام دینے والی شخصیات کے لحاظ سے بھی یہ شہر معروف سندھی اساسی شاعر، بھائی چین رائے بَچُومل لُنڈ، المعرُوف ’سامی‘ سے لے کر، ماضی کے نامور سیاستدان، شہید اللہ بخش سُومرو تک اور ادب کے میدان میں عثمان علی انصاری سے لیکر، کھیئل داس ’فانی‘ اور سندھی جدید شاعری کے امام، شیخ ایاز تک کی جائے پیدائش ہے۔ آچار اور مُربّے کی اس ملک کی سب سے بڑی صنعت اور ’دیوان‘ کے قلفہ فالُودے اور مٹھائی کی مقبُولیت کے لحاظ سے اس شہر کی جو شہرت اور یکتا پہچان ہے، اُس سے تو خیر! آپ سب اچھی طرح واقف ہیں۔

جہاں اس قدر قابلِ فخر اور مُتنوّع حوالے شکارپور شہر کے ساتھ منسُوب ہیں، وہیں افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس شہر کی تاریخ کو، اُس انداز اور مقدار میں، اور اُس سطح پر قلمبند نہیں کیا گیا، جو اس تاریخی شہر کا تاریخ نویسی کے حوالے سے حق ہے۔ ہمیں تاریخ کی بُک شیلف میں بہت کم کتابیں شکارپورکی تاریخ کے حوالے سے ملیں گی، جن میں بھی ماضی قریب میں طبع شدہ کتابوں کی تعداد زیادہ ہے (جس میں ’شکارپُور ہسٹاریکل سوسائٹی‘ کی خدمات خاص طور پر شامل ہیں۔

) جبکہ قدیم تاریخ کے حوالے سے چند پُرانے گزیٹیئرس کے علاوہ اس شہر کے حوالے سے خصُوصی طور پر تحریر شدہ کتب ناں ہونے کے برابر ہیں۔ جس شہر کے ساتھ طباعت کی قدیم تاریخ مُنسلک ہو، وہ شہر یقینی طور پر علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے، اور یہ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اس شہر اور اس کے آسپاس پیدا ہونے والے کئی قلمکاروں کے نام و نشان وقت کی دھُول میں مِٹ گئے ہوں گے۔

اسی ذرخیز شہر سے متعلق، ابھی 9 برس قبل ہی ہم سے بچھڑنے والے نامور شاعر، ادیب، محقق اور دانشور، نقش ’نایاب‘ منگی بھی ہیں، جو 7 دسبر 1948 ء کو پیدا ہوئے اور 7 اکتُوبر 2011 ء کو اس دنیا سے رُخصت ہوئے۔ شکارپُور کی تاریخ کے بکھرے صفحات سمیٹنے کا نقش کو تمام عمر شوق رہا، یہی وجہ ہے کہ اُن کی اس سے پہلے کی طبع شدہ کتب میں سے بیشتر شکارپُور کی تاریخ سے متعلق ہیں، جن میں ”شکارپُور۔ ہک ابھیاس“ (شکارپُور۔ ایک مطالعہ) ، ’شکارپُور۔

صدیُن کھاں ’ (شکارپُور۔ صدیوں سے ) جس کی تحقیق میں انہُوں نے معاونت کی، شکارپُور سیمینار سووینیئر (بروشر) ۔ مرتب اور ”اساں جا ادیب۔ اساں جا شاعر“ (ہمارے ادیب۔ ہمارے شاعر) شامل ہیں، جس کی ترتیب میں انہوں نے نامور ادیب، مُدیر، ناشر اور اپنے دوست، غلام رسُول میمن کی معاونت کی تھی۔ نقش‘ نایاب ’منگی نے زیرِ تذکرہ کتاب کے ذریعے، اپنی زندگی ہی میں شکارپُورکی ادبی، سیاسی و سماجی تاریخ کے چند بکھرے صفحات سمیٹے تھے، جس کو چند برس قبل، اُن کے صاحبزادے اور اُبھرتے ہوئے ادیب، حسیب‘ نایاب ’منگی نے ترتیب دے کر طبع کرانے کا اہتمام کیا۔

سندھی میں لکھی گئی اس کتاب کا نام ’شکارپُور۔ تاریخ جے آئینے میں‘ (شکارپُور۔ تاریخ کے آئینے میں ) ہے۔ 140 صفحات پر مُشتمل اس کتاب کو سمبارا پبلیکیشن حیدرآباد نے اپریل 2017 ء میں شایع کیا، جس کی قیمت 200 روپے ہے۔ حسیب نے اس کتاب کو اپنے والد اور اِس کتاب کے مُصنف نقش ’نایاب‘ منگی کے دو ادبی رہنماؤں، آذر ’نایاب‘ صدیقی اور شعبان بخت کے نام منسُوب کیا ہے، جن دونوں کے حوالے سے خُود نقش نایاب نے ایک شعر کہا تھا کہ:

کِیا ہے ’بخت‘ و ’آذر‘ سے مُقامِ شاعری حاصل

کہ اب پہچانتے ہیں ’نقش‘ کو ذوقِ نظر والے

اس کتاب میں مجمُوعی طور پر 7 ابواب شامل ہیں، جن میں سے پہلے باب میں ماضی کے مُختلف ادوارِ حکُومت کے دوران شکارپُور کی سیاسی و سماجی صُورتحال اور نشیب و فراز ئُکا ذکر کیا گیا ہے، جس میں دائُودپوتہ دور، کلہوڑا حکمرانوں کے دور، افغانی پٹھانوں کے دور، تالپُور دور، انگریز راج اور آخر میں قیامِ پاکستان سے اب تک کے مُختلف سیاسی ادوار میں شکارپُور کے ماضی کے نقُوش رقم کیے گئے ہیں۔ دوسرے باب کا عنوان ’شکارپُور سے متعلق تاریخی یادداشت‘ ہے، جو میجر ایف۔

جی۔ گولڈ سِمڈ کی انگریزی میں تحریر شدہ ایک تفصیلی رپورٹ کے پہلے حصّے کا سندھی ترجمہ ہے، جس میں شکارپُور کی تاریخ اور اُس سے متعلق مختلف پہلوؤں اور موضوعات کے حوالے سے ماضی کی اہم معلُومات درج ہیں۔ تیسرے باب میں شکارپُور کی صُوبائی حیثیت سے متعلق تفصیلات دی گئی ہیں کہ احمد شاہ ابدالی کے دور میں شکارپُور پر کون کون سے گورنر مقرر کیے گئے اور اُس کے بعد تیمور شاہ دُرّانی، زمان شاہ، محمُود شاہ اور شاہ شجاع المُلک کے ادوار، محمود شاہ کے دُوسرے دور اور اُس کے بعد ایف۔

جی۔ گولڈ سمڈ کے دور میں شکارپُور شہر پر تالپُوروں کے قبضے اور اُن کی جانب سے مقرر کیے گئے گورنرز کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ چوتھے باب میں شکارپُورکی ضلعئی حیثیت کے حوالے سے تاریخ کا ذکر، پانچویں باب میں شکارپُور میں موجُود ایک قدیم فارسی کَتبے اور اُس کے تناظر میں شہر کی تاریخی قدامت کا تذکرہ ہے، جبکہ اس کتاب کے چھٹے باب میں ضلع شکارپُور کی آدمشماری کے اعداد و شمار دیے گئے ہیں۔ اس کتاب کا ساتواں اور آخری باب منفرد حیثیت کا حامل ہے، جس میں ماضی خواہ حال کے مختلف شاعروں کی جانب سے اُن کے اُس منتخب کلام کو شامل کیا گیا ہے، جس میں اُنہُوں نے مختلف حوالوں سے شکارپُورکا ذکر کیا ہے۔

اس باب میں، محمّد عارف ’صنعت‘ ، میرکاظم شاہ، میرزا احمد علی ’احمد‘ ، صاحبداد شیخ، پروفیسر شیوارام پھیروانی، فقیر غلام علی ’مسرُور‘ بدوی، مولیٰ بخش ’مسکین‘ ، حاجی شیر مُحمّد ’شیرل‘ چغدو، لطف اللہ بدوی، عبدالحمید ’صبر‘ ، ’آذر‘ نایاب صدیقی، شعبان بخت، ڈاکٹر عبدالخالق ’راز‘ سُومرو، نند جویری، ای۔ این۔ کیسوانی، قادربخش ’حکیم‘ سُومرو، صبغۃ اللہ ’ادیب‘ شکارپُوری، بشیرموریانی، قاری نثاراحمد منگی، رحمت اللہ ’شوق‘ ، قمرشہباز، ڈاکٹرانور ’فگار‘ ہَکڑو، شکیل ’فائق‘ ہَکڑو، ارباب علی ’عادل‘ چوہان اور نعیم صابر قریشی کا کلام شامل ہے۔ کتاب کی شرُوعات میں مُرتب، حسیب ’نایاب‘ منگی نے ’منجانب ِمُرتب‘ کتاب کا ابتدائی تعارف تحریر کیا ہے۔ کتاب کے مُصنف کا تعارف الگ صفحے پر دیا گیا ہے۔ جبکہ کتاب کے پچھلے گتّے (بیک ٹائٹل) پر، معروف سچّل شناس مُحقق، ڈاکٹر مخمُوربخاری کی، اس تحقیقی کتاب کے بارے میں رائے درج ہے۔

شکارپُورکی تاریخ کے حوالے سے یہ کتاب ’شکارپُور۔ تاریخ جے آئینے میں‘ (شکارپُور۔ تاریخ کے آئینے میں ) اس اہم تاریخی شہر اور اس کے نواح کی تاریخ کے آئینے کی حیثیت سے، اس خطّے کی کُتب میں ایک گرانقدر اضافہ ہے، جس کا ادبی و تاریخی حلقوں نے بھرپُور خیرمقدم کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments