چوہدری ناراض: ان ہاؤس تبدیلی کی چہ مگوئیاں!


پاکستان تحریک انصاف کی سرکردہ اتحادی جماعت مسلم لیگ ( ق) بھی حکومت اور اس کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور سمجھتی ہے کہ حالات بد سے بد تر ہو چکے ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی بالآخر پھٹ پڑے، انہوں نے صحافیوں کو بُلا کر اپنا سارا دُکھڑا سامنے رکھ دیا ہے۔ اُن کا کہنا بڑا معنی خیز ہے کہ اتحادیوں سے غیروں جیسا برتاؤ کیا جا رہا ہے، یہ بات حیران کن ہے کہ عمران خان ایم کیو ایم کی ذرا سی ناراضی برداشت نہیں کرتے اور ملنے ملانے کی راہ نکالنے لگتے ہیں، پارٹی کے اندرکوئی انتشار نظر آئے تو سب کام چھوڑ کر پیچھے پڑ کر اُسے حل کرتے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ق) سے خفا دکھائی دیتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کو اندرون خانہ چوہدری صاحبان کے شریف برادران کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی خبر مل گئی ہے، جس کی وجہ سے وہ کھنچے کھنچے نظر آتے ہیں۔

دوسری جانب چودھری پرویز الٰہی کھل کر شکوے، شکایت کر نے کے ساتھ بُرے سلوک کے طعنے بھی دے رہے ہیں، گزشتہ دنوں وزیراعظم نے مسلم لیگ (ق) سے مذاکرات کے لئے جو کمیٹی بنائی، اُسے بھی بدل دیا گیا ہے، گویا مذاکراتی کمیٹی کے طے کردہ معاملات عمران خان کو قبول نہیں، اس لئے باہمی اختلافات دورکرنے کی بات نئے سرے سے شروع ہو گی ہے۔

اس میں شک نہیں کہ بظاہر تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ق) کے درمیان اختلافات کی وجہ پنجاب اور وفاق میں مانگی جانے والی وزارتیں ہیں جس کے لیے حکومت اور مسلم لیگ (ق) میں خاموش جنگ جاری ہے۔ گزشتہ دنوں انہیں اختلافات کے باعث تحریک انصاف فارورڈ بلاک نے جنم لیا جس کو وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنے اثرورسوخ کے باعث شروعات میں ہی رام کر لیا، لیکن مسلم لیگ (ق) کے سینئر رہنماء پنجاب میں اپنی حکومت قائم کرنے یا پھر مرکز اور پنجاب میں مزید وزارتوں کے خواہاں ہیں۔

تحریک انصاف اس معاملے کو زیادہ اچھالنے کی بجائے دبے پاؤں حل کرنے کی کوشش کررہی ہے، جبکہ وزیر اعظم عمران خان بار ہا باور کروا چکے ہیں کہ ان کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار ہی رہیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کے پیچھے اورعثمان بزدار کے خلاف مہم جوئی میں چودھری برادران کا ہاتھ رہا ہے۔ ایک سے زائد بار یہ افواہیں بھی منظم طریقے سے اُڑائی گئیں کہ پنجاب کو چلانا عثمان بزدار کے بس کا روگ نہیں، صرف پرویز الٰہی چلا سکتے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے پنجاب کے حوالے سے جن سازشیوں کا ذکر کیا تھا، کسی نہ کسی خانے میں چودھری برادران کا نام بھی ضرور لکھا ہو گا، ایسے حالات میں کپتان کو زیر دام لانا ممکن نہیں ہے۔ اگر بات صرف مطالبات کی ہوتی توعمران خان کی طرف سے اتنی سرد مہری کا مظاہرہ نہ کیا جاتا، کیونکہ مطالبات تو ایم کیو ایم بھی کر رہی ہے اور جی ڈی اے بھی، اختر مینگل نے بھی مطالبات کی فہرست حکومت کو تھما رکھی ہے، حکومت کو دیگر کے مقابلے میں مسلم لیگ ( ق) کے ساتھ رویہ مختلف ہے۔

تحریک انصاف کے تمام ناراض اتحادی جماعتوں سے نہ صرف رابطے جاری ہیں، بلکہ وزیراعظم کابینہ کے اجلاس میں بار با خالد مقبول صدیقی کے بارے میں پو چھتے رہتے ہیں۔ وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ (ق) کو بساط سے بڑھ کر نوازا ہے، الیکشن سے پہلے اُسے نشستیں خالی کر کے اور الیکشن کے بعد وفاق و صوبے میں وزارتیں اور پنجاب کی اسپیکر شپ دے کر چودھری برادران کو پنجاب میں دوبارہ متحرک ہونے کو بھرپور موقع دیاہے، وگرنہ حقیقت یہی ہے کہ چودھری برادران کی نواز شریف دور میں سیاست ختم ہو چکی تھی۔ وزیراعظم کے منصب پر بیٹھا ہوا شخص بے خبر نہیں ہوتا، اُس کے پاس درجنوں ایسے ادارے ہوتے ہیں جو چڑیا کے پر مارنے کی خبر بھی دیتے ہیں، اس سے قطع نظر کہ بعض اوقات دی جانے والی خبریں حکومت کے مفاد میں بہتر نہیں ہو تی ہیں۔

یہ امرتشویش ناک ہے کہ مسلم لیگ (ق) ایسے حربے آزما رہی ہے، جو حکومت کے لئے پریشانی کا باعث بنتے رہے ہیں، مثلاً کچھ عرصہ قبل ایک ایسی وڈیو لیک کی گئی، جس میں یہ الزام لگایا گیا کہ گورنر پنجاب چودھری محمد سرور پنجاب حکومت کے معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ انتظامیہ و پولیس افسروں کی تعیناتی میں چودھری برادران کے اختیارات چاہنے کی باتیں بھی زبان زدعام ہوتی رہتی ہیں۔ اس حوالے سے ( ق ) کے دیگر ارکان پارلیمنٹ خاصے متحرک نظر آتے ہیں، مونس الٰہی کی وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کے بعد تو خلیج مزید بڑھ گئی ہے، چودھری پرویز الٰہی، وزیراعظم عمران خان سے اتنے دور ہو چکے ہیں کہ انہیں پریس کا سہارا لینا پڑ رہا ہے، وگرنہ کل تک چوہدری صاحبان جب چاہتے، وزیراعظم سے ملاقات کر لیتے تھے، کیا بعید کہ پرویز الہٰی جس سوتن کا طعنہ دے رہے ہیں، عمران خان خود اسی تاثر میں مبتلا ہوں کہ مسلم لیگ (ق) سوتن جیسا کردار ادا کر رہی ہے۔

چودھری پرویز الٰہی ایک منجھے ہوئے سیاست دان ہیں، مگر نجانے کیسے عمران خان کو سمجھنے میں غلطی کر گئے، لیکن یہ اچھی بات ہے کہ وہ ابھی تک پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف نہیں جا رہے، وہ آج بھی حکومت کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ تحریک انصاف حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے، لیکن اتحادی جماعتوں کو ہروقت شک کی نظرسے نہیں دیکھا جائے، اس سے باہمی بے اعتمادی بڑھتی ہے۔

چوہدری پرویز الہٰی ایک طرف بے جاشک نہ کرنے کی ترغیب دیتے ہیں تو دوسری جانب یہ افواہ بھی گرم ہے کہ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق) مل کر پنجاب میں اِن ہاؤس تبدیلی لانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں، نئی کھڑکیاں، دروازے کھولنے کی باتیں ہو رہی ہیں، لیکن چوہدری برادران وعدوں کی پابندی کرنے والے ہیں، دوسری جانب مقتدر قوتیں ابھی اس سیٹ اَپ کو چھیڑنا نہیں چاہتیں، کیونکہ عمران خان کے سوا اُن کے پاس کوئی بہتر آپشن نہیں ہے، عوام کی طرح مقتدر قوتیں بھی آزمائے ہوؤں کو دوبارہ آزمانے کی خواہاں نہیں ہیں، اسی لیے مسلم لیگ (ق) کسی قسم کارسک لینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ وہ صرف پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لئے تحریک انصاف کے ساتھ مقتدر قوتوں کو ناراض نہیں کریں گے۔ چودھری برادران کی اگلی نسل نے بھی پاکستان میں سیاست کرنی ہے، اس لیے انہیں وزارتوں سے زیادہ اپنا سیاسی کردار قابل ترجیح ہے۔

تحریک انصاف حکومت کا مسلسل اتحادی جماعتوں سے ناراضگی کے بعد ایسا لگتا ہے کہ وزیراعظم اتحادی سیاست کی سائنس سے واقفیت نہیں رکھتے، جبکہ دوسری جانب حکومت کے ڈلیور نہ کرنے اور خراب کارکردگی کے باعث عوامی سطح پر ہونیوالے ردعمل نے بھی اتحادیوں کو ڈرا دیا ہے، اسی وجہ سے اتحادی جماعتوں نے پر پرُزے نکالنے شروع کردیئے ہیں، لیکن مسلم لیگ ( ق) کے حوالے سے مونس الٰہی کا بیان قابل غورہے کہ ہم حکومتی اتحاد سے نہیں نکلیں گے، جب تک کہ عمران خان ہمیں دھکے دے کر نہ نکالیں، اتنی محبت کے ہوتے ہوئے چودھری پرویز الٰہی کا سوتن جیسے سلوک کا شکوہ حیرانگی کا باعث ہے۔

در حقیقت حالات اتنے سادہ نہیں جتنی سادگی سے بیان کیے جارہے ہیں۔ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ( ق ) میں معاملہ وعدوں کی تکمیل کا نہیں، بلکہ اندر ون خانہ پیٹھ میں چھرا گھونپنے کا ہے، جس کے دور ہونے میں ابھی شاید کچھ وقت لگے گا، ایسے حالات میں چودھری صاحبان اور کپتان کے درمیان فاصلے تیزی سے مذید بڑھ رہے ہیں۔ دوسری جانب سیاسی محاذ پرچہ مگوئیاں جاری ہیں کہ اپوزیشن ان ہاؤس تبدیلی کے آپشن کا استعمال کر سکتی ہے، چوہدری پرویزالہٰی آنے والے وقتوں میں حکومت کے خلاف جانے کے لیے بنیادیں رکھ رہے ہیں، لیکن حتمی فیصلہ مقتدر قوتوں کے اشارے کے بغیر نہیں کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments