یورپ سے آزادی یا اس صدی کا بڑا جوا


برطانیہ نے آخر کار یورپ سے ”آزادی“ حاصل کر لی ہے۔ اکتیس جنوری کو رات گیارہ بجے یورپی یونین سے برطانیہ کی رکنیت 47 سال بعد ختم ہوگئی، بورس جانسن نے اس رات کو ایک نئے دور کی صبح قرار دیا۔ اس موقع پر پارلیمنٹ کو روشنیوں سے جگمگایا گیا۔ ٹرافلگر اسکویر میں اجتماع ہوا اور یورپ سے آزادی کی خوشی کے اظہار کے کے لئے پچاس پینس کانیا سکہ جاری کیا گیا۔ غرض دھوم دھڑکے کے ساتھ آزادی کا جشن منایا گیا۔

گذشتہ تین سال کے دوران جب سے ریفرینڈم میں 48 فی صد کے مقابلہ میں 51 فی صد کی اکثریت سے عوام نے بریگزٹ کے حق میں فیصلہ دیا ہے برطانیہ پر ایک عجیب و غریب بے یقینی طاری تھی۔ گواب یہ بے یقینی ختم ہوگئی ہے لیکن یکم فروری سے یورپ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات اور یورپ سے باہر امریکا اور دوسرے ملکوں سے تجارتی سمجھوتوں کے لئے مذاکرات کا کئی سال طویل دور شروع ہوگا اور کسی کو علم نہیں کہ یہ مذاکرات کہاں تک کامیاب ثابت ہوں گے۔

یورپ کے ساتھ برطانیہ کے تعلقات کی بھی داستان عجیب و غریب رہی ہے۔ 1957 میں جب یورپی مشترکہ منڈی قائم ہوئی تھی تو اس وقت برطانیہ کی اقتصادی حالت بے حد خستہ تھی اور برطانیہ مشترکہ منڈی میں شمولیت کے لئے بے قرار تھا لیکن فرانس کے صدر چارلس ڈی گال نے برطانیہ کی شمولیت سے صاف انکار کر دیاتھا۔ آخر کار چند سال بعد چند شرائط پوری کرنے کے بعد برطانیہ کو مشترکہ منڈی میں شمولیت کی اجازت مل گئی۔ پھر جب یورپی یونین قائم ہوئی تو 1973 میں برطانیہ میں یورپی یونین میں شمولیت کے لئے ریفرینڈم ہوا۔

اس زمانہ میں لیبر حکومت تھی جو اس ریفرینڈم میں یورپ میں شمولیت کے حق میں فیصلہ کے لئے کوشاں تھی۔ اس وقت میں جنگ لندن کا ایڈیٹر تھا۔ لیبر حکومت کے وزیر داخلہ رائے جنکنز نے مجھے بلایا اور مجھ سے کہا کہ جنگ لندن ایشیائیوں میں بہت مقبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ جنگ لندن کو چاہیے کہ وہ اس ریفرینڈم میں یورپی یونین میں شمولیت کے حق میں رائے ہموار کرے۔ میں نے رائے جنکنز سے کہا کہ وہ ایک وزنی دلیل پیش کریں کہ ایشیائی یورپ میں شمولیت کے حق میں کیوں ووٹ دیں۔

رائے جنکنز نے کہا کہ اس وقت برطانیہ میں آباد ایشیائیوں کو دائیں بازو کے نسل پرستوں کا سامنا ہے۔ ایشیائیوں کے مفاد میں ہے کہ وہ یورپ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیں کیونکہ یورپ میں شمولیت کے نتیجہ میں وہ یورپ میں دائیں بازو کے نسل پرستوں کی مخالف تحریکوں کی حمایت حاصل کر سکیں گے اور مل کر نسل پرستی کے خلاف لڑ سکیں گے۔ یہ دلیل ایشیائیوں کو پسند آئی اور انہوں نے بڑی تعداد میں یورپ میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا۔ اس ریفرینڈم کے نتیجہ میں برطانیہ یورپ میں شامل ہوا اور برطانیہ 47 سال تک یورپ کی خوشحالی میں حصہ دار رہا۔

روس اور امریکا دونوں اپنے اپنے مقاصد کے تحت، برطانیہ کی یورپ میں شمولیت کے سخت خلاف تھے۔ روس اپنے اقتصادی اور سیاسی مفادات کے تحت ایک مضبوط اور متحد یورپ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔ بریگزٹ کے ریفرینڈم کے دوران انٹیلی جنس ایجنسیوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ روس نے برطانیہ میں مالدار روسیوں کے ذریعہ ریفرینڈم میں مداخلت کی ہے۔ بورس جانسن نے ابھی تک انٹیلی جنس ایجنسیوں کی یہ رپورٹ شایع کرنے سے انکار کیا ہے۔

امریکا کا نجی آزاد تجارت کا با اثر طبقہ ہمیشہ سے برطانیہ کو یورپ کے چنگل سے آزاد کرانا چاہتا تھا اور نیشنل ہیلتھ سروس اور دوسرے اداروں کی نجکاری کا زبردست خواہاں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے بورس جانسن پر ڈورے ڈالے اور یورپ سے علیحدگی کی مہم میں مدد دی۔

در حقیقت پچھلے تین برس کے دوران بریگزٹ کی جنگ میں یہی مفاد پرست طبقہ ان لوگوں کے مقابلہ میں معرکہ آرا تھا جو یہ سمجھتے تھے کہ برطانیہ کا اقتصادی اور سیاسی مفاد اس میں ہے کہ برطانیہ کے یورپ سے قریبی تعلقات برقرار رہنے چاہیں۔ ایک تو برطانیہ کے یورپ کے 27 ملکوں سے آزاد تجارت ہے دوسرے برطانیہ کے نوجوانوں کے لئے آمد و رفت کی مکمل آزادی کی وجہ سے یورپ میں روزگار کے وسیع مواقعے اور پھر یورپ کے ایک اہم ملک کی حیثیت سے برطانیہ کو عالمی میدان میں اہمیت حاصل ہے۔

لیکن ریفرینڈم کے دوران امریکا نواز مفاد پرست قوتوں نے جذباتی نعرے لگا کر عوام کو گمراہ کر دیا۔ ان قوتوں کا ایک بڑا نعرہ یہ تھا کہ برطانیہ یورپ کی بیوروکریسی کے غلام بن گیا ہے اور برطانوی عدالتیں اپنی خود مختاری سے محروم ہوگئی ہیں کیونکہ یورپ کی عدالت ان کے فیصلوں پرعمل درآمد رکوا سکتی ہے۔ یہ نعرہ بھی بہت مقبول ہوا کہ یورپ میں شہریوں کی آمد و رفت کی آزادی اور یورپ کے شہریوں کی برطانیہ میں بلا روک ٹوک آمد کی وجہ سے برطانیہ کو اپنی سرحدوں پر کنٹرول نہیں رہا ہے۔

غرض بریگزٹ کا مطلب برطانیہ کی مکمل آزادی ہے لیکن اس آزادی کے لئے برطانیہ کوبڑی قربانی دینی پڑی ہے۔ دو وزائے اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ٹریسا مے، اقتدار کھو بیٹھے ہیں اور سیاسی منظر نامہ بھی بدل گیا ہے۔ ایک جانب لبرل ڈیموکریٹس کا وجود کم و بیش غائب ہوگیا اور ملک کی دوسری بڑی جماعت لیبر پارٹی لگا تار تین عام انتخابات ہار گئی اور اب دوبارہ اپنے سربراہ کے انتخاب اور پارٹی کی تجدید کے لئے کوشاں ہے۔

یورپ سے برطانیہ کی علیحدگی کے نتیجہ میں برطانیہ کے اتحاد کو شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ اسکاٹ لینڈ بریگزٹ ماننے کے لئے تیار نہیں۔ اسکاٹ لینڈ کا موقف ہے کہ بریگزٹ کے ریفرینڈم میں اسکاٹ لینڈ کے ساٹھ فی صد سے زیادہ عوام نے یورپ سے علیحدگی کے خلاف ووٹ دیا تھا اس لحاظ سے یورپ سے برطانیہ کی علیحدگی اسکاٹ لینڈ کے عوام کی خواہشات کے برخلاف ہے۔ اسکاٹ لینڈ اس فیصلہ پر اس قدر ناراض ہے کہ اب اسکاٹ لینڈ کی آزادی کے لئے نئے ریفرینڈم کا مطالبہ کر رہا ہے۔ شمالی آئرلینڈ بھی یورپ سے علیحدگی کے خلاف ہے اور خطرہ ہے کہ بہت جلد شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کے اتحاد کی تحریک بھڑک اٹھے۔

برطانیہ کی آزادی کے جذباتی نعروں کی بنیاد پر پچھلے عام انتخابات میں بورس جانسن کی قیادت میں ٹوری پارٹی کو بڑی اکثریت کے ساتھ فتح نصیب ہوئی تھی جس کی بنیاد پر بورس جانسن نے 31 جنوری کو یورپ سے آزادی حاصل کرنے میں کامیاب رہے، لیکن یہ آزادی پھولوں کی سیج نہیں ہے کیونکہ ابھی کئی اورکٹھن مرحلوں سے برطانیہ کو گزرنا ہے جن میں سب سے بڑی آزمائش امریکا اور دوسرے ملکوں سے تجارتی سمجھوتوں کے بارے میں مذاکرات کے دوران پیش آئے گی۔

اقتصادی ماہرین پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ یورپ سے نکلنے کے بعد برطانیہ کو سنگین اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اچانک 27 ملکوں سے آزاد تجارت کا خاتمہ برطانیہ میں ضروری اشیا کی گرانی کا باعث ہوگا۔
بلاشبہ یورپ سے علیحدگی، برطانیہ کی نامعلوم سمندر میں چھلانگ لگانے کے مترادف ہے۔ اور در حقیقت یہ برطانیہ کا اس صدی کا سب سے بڑا جوا ہے۔

آصف جیلانی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

آصف جیلانی

آصف جیلانی لندن میں مقیم پاکستانی صحافی ہیں۔ انہوں نے اپنے صحافتی کرئیر کا آغاز امروز کراچی سے کیا۔ 1959ء سے 1965ء تک دہلی میں روزنامہ جنگ کے نمائندہ رہے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران انہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں قید بھی کیا گیا۔ 1973ء سے 1983ء تک یہ روزنامہ جنگ لندن کے ایڈیٹر رہے۔ اس کے بعد بی بی سی اردو سے منسلک ہو گئے اور 2010ء تک وہاں بطور پروڈیوسر اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ اب یہ ریٹائرمنٹ کے بعد کالم نگاری کر رہے ہیں۔ آصف جیلانی کو International Who’s Who میں یوکے میں اردو صحافت کا رہبر اول قرار دیا گیا ہے۔

asif-jilani has 36 posts and counting.See all posts by asif-jilani

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments